Monday 26 March 2012

اولڈ راویئنز کی عظمت کو سلام

 اولڈ راویئنز کی عظمت کو سلام

ہم نے کہنے کو تمہیں دل سے بھلایا ہوا ہے
بس یہی  داغ سینے  میں چھپایا  ہوا  ہے

یہ مشاعرہ اسلام آباد کی تقریبات میں ایک منفرد اہمیت اور حیثیت کا حامل تھااس کے مہمان اعزاز نامور شخصیت، ہمارے ملک ، ہماری ثقافت، ہماری عظمتوں اور روایات کی پہچان افتخار عارف تھے ان کا خوبصورت کلام تھا۔
ہر اک ساحل بلا ایک ایک شناور سامنے ہی
کنارہ  ہوں مگر سارا  سمندر  سامنے ہے
مشاعرہ کیا تھااولڈ راویئنز کے ایک جگہ جمع ہو کر اپنی گزشتہ یادیں تازہ کرنے کا بہانہ تھااس وقت اولڈ راویئنز نہ صرف اپنے وطن میں بلکہ دنیا بھر میں اہم ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں ان کے لئے ایک رنگوں اور روشنیوں بھری شام، کلام اور طعام کا اہتمام تھا۔ انہوں نے علمی و فکری ورثے کی حفاظت کی روایات کوبرقرار رکھتے ہوئے اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج لاہور کی علمی عظمت اور اعلیٰ قدروں کو ہمیشہ سر بلند و سرفراز رکھا۔اس گہوارہء علم نے نگار ہستی کو ایسی قد آورشخصیات سے نوازا جو اس وقت دنیا بھر میں ہر شعبہء زندگی میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے ساتھ اپنی مادر علمی کا نام روشن کرنے میں بھی مصروف عمل ہیں ۔ وہ لو گ کتنے خوش قسمت ہیں جو بڑے فخر سے اپنے آپ کو اولڈ راویئنز کہتے ہیں۔ اور دوسرے لوگ انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔  پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ میں بھی اولڈ راویئنز کی ایک خاصی تعداد قومی و ملی خدمات سرانجام دے رہی ہے ۔ شریک مشاعرہ شعراء کی سخن وری کے چند نمونے قارئین کے ذوق مطالعہ کی نظر ہیں۔

Saturday 24 March 2012

تقریب رونمائی

محمد ممتاز خان ڈاہر کی سرائیکی پارٹی اور سرائیکی تحریک کے کارکنان پر ایک جامع اور تاریخی کتاب ’’سرائیکی قومی تحریک کے بے لوث کارکن‘‘ کی تقریب رونمائی کی

تحریر: مبشر کلیم خان پبلشر
تحریر: مبشر کلیم خان (پبلشر)
          میلسی میں مقیم سرائیکی قوم پرست رہنما محمد ممتاز خان ڈاہر اردو اور انگریزی میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ ان کی لسانی خدمات کا زمانہ معترف ہی۔ ممتاز ڈاہر نے اردو لفظوں کی تاریخ پر تحقیق کی اور اپنی تحقیق کو سیاحت ِ لفظی کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا۔ ممتاز ڈاہر ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی اور بااصول سیاسی کارکن بھی ہیں وہ گذشتہ4سال سے سرائیکستان صوبہ تحریک سے وابستہ ہیں۔ ممتاز ڈاہر پاکستان سرائیکی پارٹی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہیں انہوں نے ’’سرائیکی قوم تحریک کے بے لوث کارکن‘‘کے عنوان سے سرائیکی قومی تحریک کیلئے جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کے حالاتِ زندگی پر مشتمل کتاب لکھی ہی۔ اس کتاب کو سرائیکستان صوبہ تحریک کی غیر رسمی تاریخ کہنا بہت مناسب ہوگا۔

Friday 23 March 2012

خدا کی شان دیکھیں گے ہم انگلستان دیکھیں گے

خدا کی شان دیکھیں گے ہم انگلستان دیکھیں گے

محمد اقبال اختر ۔ڈنمارک
تحریر: محمد اقبال اختر (ڈنمارک)
          وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے ۔ ومپکیس سٹور ۔ بزمِ فکرِ نَو کا مرکز شاعروں اور ادیبوں کا قدیم ٹھکانہ فروخت ہوا تو یار لوگوں کو تشویش ہوئی ۔ خدا مسبب الاسباب ہے ۔ جلد ہی اردو ادبی فورم کے دوستوں کو فواد کرامت صاحب کے برابر میں ایک کمرہ دستیاب ہوگیا ۔ ہر ماہ کے پہلے ہفتے کی شام سبھی اہلِ قلم دوست گپ شپ کیلئے وہاں مل بیٹھتے ہیں ۔ ستمبر کی خوشگوار شام تھی ۔ شعری نشست کے بعد دوستوں نے تفریح کیلئے کوپن ہیگن سے باہر انگلستان جانے کا پروگرام بنایا ۔ ابو طالب، کامران اقبال اعظم ، شبیہہ الحسن ابتدا ہی میں چھٹی کا بندوبست نہ ہو سکنے کے سبب ساتھ چھوڑ گئے ۔ اب صفدر علی آغا ، فواد کرامت ، اشرف سندھو اور راقم الحروف ہی انگلستان دیکھنے کے خواب سجائے بیٹھے تھے ۔ اسے آنکھوں سے دیکھنے اور دھڑکنوں سے محسوس کرنے کیلئے وارفتگی کے ساتھ آمادئہ سفر تھے ۔ فواد انٹرنیٹ پر بیٹھ گئے ۔ بائی ائیر ٹکٹ کی بکنگ اور لندن میں رہائش کیلئے ہوٹل تلاش کرنے لگے ۔ ڈنمارک میں ابھی ٹھنڈک تھی  لیکن خبروں کے حوالے سے لندن کا ٹمپریچر چوبیس پچیس سینٹی گریڈ تھا۔ چشمِ تصور میں ہی لندن کا گرما گرم موسم اور نیلے آسمان میں تیرتے ہوئے سرمئی بادلوں کی چہل پہل لطف دے رہی تھی ۔ فواد ٹکٹ اور ہوٹل کی بکنگ سے فارغ ہوئے تو ہم نے نعرئہ مستانہ لگایا ۔ اور علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا۔
لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت
ہونگی اے خوابِ جوانی تیری تعبیریں بہت

سرائیکی صوبہ تحریک میں بہاولپور کا کردار

سرائیکی صوبہ تحریک میں بہاولپور کا کردار

تحریر: محمد ممتاز خان ڈاہر
          سرائیکی صوبے کی تحریک پورے شد و مد کے ساتھ جاری ہی۔ مسلم لیگ ( ن ) کے سوا تمام سیاسی جماعتیں انتظامی  یا لسانی بنیادوں پر پنجاب کی تقسیم چاہتی ہیں ابھرتی ہوئی سرائیکی صوبہ تحریک میں سینیٹر محمد علی خان درانی نے بہاولپور صوبے کا مطالبہ کیا ہی۔ بہاولپور کے چند نوابوں اور بعض دوسرے حضرات نے ان کی حمایت کی ہے جس سے کچھ سیاسی حلقوں نے یہ تاثر لیا ہے کہ بہاولپور کے عوام سرائیکی صوبے کے حامی نہیں ، یعنی وہ اپنے علاقے کو مجوزہ سرائیکی صوبے میں شامل نہیں کرنا چاہتی، یہ تاثر کلی طورپر درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بہاولپور کے اکثر لوگ مکمل صوبہ سرائیکستان کے حق میں ہیںتاہم کتنے لوگ سرائیکستان کے حق میں ہیں اور کتنے لوگ بہاولپور صوبے کے حق میں اس بات کا فیصلہ آئندہ انتخابات میں ہوگا۔ سیاست ایک وسیع عمل ہی۔ اس عمل میں شریک ہوکر انسان حکمرانی کے قواعد و ضوابط سیکھتا ہی۔ سیاست قومی خدمت، اعلیٰ تہذیب اور جدید ترین معاصری علوم کا نام بھی ہی۔ پاکستانی سیاست الزام تراشیوں، سازشوں، قومی خزانے کی لوٹ مار اور قتلِ انسانی کا نام بھی ہی۔ سیاست بہت بڑی علمی تفریح اور میڈیا وار بھی ہی۔ چنانچہ قومی خدمت اور انسانی جرائم کے گنجلک عمل میں پاکستانی سیاست کو سمجھنا آسان نہیں۔ تاہم اگر تاریخی حقائق سامنے ہوں تو عقلِ سلیم ہر شخص کی رہنمائی کرتی ہی۔ سرائیکی صوبہ تحریک میں بہاولپور کے کردار کو بھی تاریخی حقائق کی روشنی میں سمجھنا چاہئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سرائیکی صوبے کا خیال سب سے پہلے تحریک بحالی صوبہ بہاولپور کے رہنما ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ نے پیش کیا۔ اور سب سے پہلے انہیں نے مجوزہ صوبہ سرائیکستان کا نقشہ کھینچا تھا۔ ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ سرائیکی صوبہ محاذ کے سینئر نائب صدر تھی۔ وہ آخری دم تک سرائیکی صوبے کے حامی رہی۔ ان کا مرقد بہاولپور کے قدیمی قبرستان سعدی شیرازی میں ہی۔

رحیم یار خان میں سرائیکی صوبہ تحریک کا ارتقا ء

رحیم یار خان میں سرائیکی صوبہ تحریک کا ارتقا ء
تحریر: محمد ممتاز خان ڈاہر
          تاریخ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ضلع رحیم یار خان میں سرائیکی صوبہ تحریک کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ سرائیکی صوبے کا خیال سب سے پہلے خان پور ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ نے پیش کیا۔ انہوں نے A Brief for Bahawalpur Province کے نام سے کتاب لکھی جس میں سرائیکی صوبے کا نقشہ شامل کیاگیاتھا۔ ریاض ہاشمی نے بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ، قاری نور الحق قریشی، سیٹھ محمد عبد الرحمٰن، مظفر مگسی، سردار عبدالطیف کھوسہ (موجودہ گورنر پنجاب ) حسن رضا گردیزی، اسد اللہ خان لنگاہ، منیر فاطمی، عارف محمود قریشی، ہاشم خان بابر، مظہر موہل، اشفاق احمد خان، اسلم رسول پوری، محمد حیات بھٹہ، ایم شفیع اختر، محمد علی مہدی گردیزی، ایم اے بھٹہ، سردار احمد کاظمی اوردوسرے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر 5 اپریل 1984 کو ملتان میں سرائیکی صوبہ کی بنیاد رکھی۔ ریاض ہاشمی اس محاذکے اولین سینئر نائب صدر منتخب ہوئی۔ ریاض ہاشمی نے 1988 میں وفات پائی اور بہاولپور کے قبرستان سعدی شیرازی میں پیوند خاک ہوئی۔ ریاض ہاشمی کے بعد رحیم یار خان کے جس ممتاز سیاسی رہنما نے سرائیکی صوبے کا مطالبہ کیا۔ ان کا نام عبدالمجید خان کانجو نے 6 مئی 1988 کو بہاولپور میں رائو مہروز اختر کی صدارت میں اے این پی کا اجلاس ہوا۔ جس میں عبدالمجید خان کانجو، مرزا اعجاز بیگ ایڈووکیٹ، کامریڈ بوٹا، اکرم ناصر، عطا محمدخالطی اور دوسرے رہنمائوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی سرائیکی صوبہ تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

Tuesday 20 March 2012

حکیم محمد سعید کا ابنِ کلیم کو خراجِ تحسین

جناب حکیم محمد سعید
شہیدِ پاکستان جناب حکیم محمد سعید بانی ہمدرد فائونڈیشن (سابق گورنر سندھ( کا ابنِ کلیم کو خراجِ تحسین
اسلامی فنون میں خطاطی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اور اگر ہم کسی ایک فن کو اسلامی ثقافت کی روح سے تعبیر کرنا چاہیں تو وہ یقینا خطاطی کا فن ہی ہوگا ، جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے زیادہ زور علم پر دیا ہے اور حصولِ علم کا کوئی تصور تحریری کتابت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ کتابت کی اس اہمیت کے پیشِ نظر مسلمان فنکاروں نے خطاطی میں نت نئے کمالات کا مظاہرہ کیا ہے ۔ مسلمان حضرات کی مسلسل تخلیقی کاوشوں کے نتیجے میں 6مختلف اسالیب خطاطی یعنی خطِ کوفی ، خطِ نسخ ، خطِ ثلث ، خطِ دیوانی ، خطِ رقع اور خطِ نستعلیق وجود میں آئے اور بتدریج ارتقاء کے تمام مراحل طے کئی۔
"        ابنِ کلیم صاحب کے خلاقانہ ذہن نے ایک نیا اسلوبِ خطاطی ایجاد کیا ، انہوں نے پہلے مروجہ اسالیب خطاطی میں کمال پیدا کیا اور آخر کار ایک نیا اسلوب ایجاد کیا جسے وہ ’’ خطِ رعنا‘‘ کہتے ہیں ۔ ان کی اس ایجاد نے فنِ خطاطی میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہی۔ اس نئے اسلوبِ خطاطی کے نمونے ’’ مرقعِ رعنائی ‘‘ کے نام سے شائع ہوگئے ہیں ۔ ابنِ کلیم صاحب کا یہ کارنامہ فنِ خطاطی میں انقلاب کی حیثیت رکھتا ہی۔ یہ امر نہایت دل خوش کن ہے کہ ’’مرقعِ رعنائی‘‘ نہایت نفاست اور خوش سلیقگی سے شائع کی گئی ہے جس پر میں جناب ابنِ کلیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور سرائیکی قومی سوال

پاکستان پیپلز پارٹی اور سرائیکی قومی سوال
تحریر: میاں ریاض احمد سنڈھل
                پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی اور مقبول ترین سیاسی جماعت ہی۔ یہ واحد جماعت ہے جس کی جڑیں ملک کے چاروں صوبوں میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہی۔ اس لیے کہ اس جماعت کے رہنما اور کارکن وطن کی خاطر قربانی دینے کے لیے ہروقت تیار رہتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو خاندان قربانی کے موقع پر ہمیشہ کارکنوں سے آگے ہوتا ہی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 کو جب ملک کا نظم ونسق سنبھالا تب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوچکا تھا اور بقیہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مایوس اور خوف زدہ قوم کو حوصلہ دیا۔ 5 ہزار مربع میل رقبہ اور 93 ہزار جنگی قیدی پر وقار طریقے سے ہندوستان سے آزاد کرائی۔ انہوں نے ملک کو متفقہ آئین دیا اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ آج پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی قوت ہی۔ ذوالفقار علی بھٹو آئین کے مطابق صوبوں کو خود مختاری دینا چاہتے تھی۔ مگر جنرل ضیاء الحق نے آئین‘ قانون اور اخلاقیات کو تار تار کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا جھوٹا مقدمہ بناکر اسے عدالت کے ذریعے شہید کردیا۔

ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی اور لسانی رشتے

تحریر : محمد ممتاز خان ڈاہر
ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی اور لسانی رشتے
          ملتان دنیا کے قدیم شہروں میں سے ایک ہی، اسکی معلوم تاریخ 5 ہزار سال کا احاطہ کرتی ہی۔ خوش حالی اور اعلیٰ تہذیب کے باعث زمانۂ قدیم میں یہ شہر حملہ آوروں، تاجروں اور سیاحوں کے لیے غیر معمولی کشش کا حامل رہا ۔ مختلف ادوار میں ملتان خود مختار ریاست یا صوبے کی حیثیت رکھتا تھا۔ تاہم تاریخی ریکارڈ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اصابت کے ساتھ نہیں لکھا جاسکتا کہ کون سے علاقے ملتان میں شامل تھی۔ ملتان کے لوگوں نے اپنے وطن کے دفاع کے لیے بہت سی جنگیں لڑیں۔ یونان کا جارح فرمانروا سکندر اعظم اسی شہر میں ایک سپاہی کے ہاتھوں زخمی ہوا اور بعد میں ہلاک ہوگیا۔ 1818 کی طویل شاندار مگر ناکام دفاعی جنگ میںملتان کے حکمران محمد مظفر خان جب شہید ہوگئے تو ملتان کے بہت سے سپاہیوں اور دوسرے افراد نے بھاگ کر ڈیرہ اسماعیل خان میں پناہ لی۔ زمانہ گزرنے اور حالات موافق ہونے پر بعض لوگ واپس ملتان آگئی۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ملتان کے معروف کارکنان اللہ نواز خان درانی اور مجیب احمد خان کے آباء ڈیرہ اسماعیل خان میں زرعی زمینوں کے مالک تھی۔ اس تاریخی پس منظر کے ساتھ جب سرائیکی قوم پرست ڈیرہ اسماعیل خان کو سرائیکی صوبے میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو تل وطنی قدیم باشندوں کو آسانی کے ساتھ یہ بات سمجھ آجاتی ہے اور انہیں وہ زمانہ یاد آجاتا ہے جب ان کے اسلاف نے دفاع وطن میں ایک دوسرے کے لیے جانیں قربان کی تھیں اور انہی یادوں کی بنیاد پر وہ ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان کو ایک وسیب سمجھتے ہیں اور جب ڈیرہ اسماعیل خان کو سرائیکستان سے علیحدہ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو یہ لوگ خوف زدہ ہوکر محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کے دشمن قبروں سے باہر نکل آئے ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کا نظم و نسق حکومت برطانیہ نے سنبھالا۔ برطانوی حکومت نے ہندوستان میں انتظامی صوبے بنائے ۔ ملتان کو پنجاب اور ڈیرہ اسماعیل خان کو سرحد میں شامل کیا گیا۔

Monday 19 March 2012

سرائیکی صوبہ تحریک میں گردیزی خاندان کا کردار

تحریر: محمد ممتاز خان ڈاہر
ملتان میں مقیم گردیزی خاندان کا شمار یہاں کے رئوسا میں ہوتا ہے ، ملتان اور بہاولپور ڈویژن کے مختلف مقامات پر ان کی زرعی زمینیں ہیں۔ اس خاندان کے جد امجد سید جمال الدین معروف بہ یوسف شاہ گردیز 11 صدی عیسوی میں اشاعت اسلام کی غرض سے افغانستان کے علاقے گردیز سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھی۔ گردیزی خاندان مختلف سیاسی جماعتوں میں منقسم ہے ۔ گردیزی اسلاف نے قومی اور سماجی خدمات کے مختلف شعبوں میں حصہ ملایا ہی۔ اس خاندان کے نامور فرزند سید علی حسین گردیزی برصغیر کے ان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں آزادی کے چراغ جلائی۔ سید علی حسین گردیزی نے دہلی میں قائد اعظم محمد علی جناح پر قاتلانہ حملے کے موقع پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حملہ آور خاکساروں کو جائے واردات سے بھگایا تھا۔  قیام پاکستان کے وقت سید علی حسین گردیزی ، سید محمد رضی شاہ گردیزی ، سید محمد قسور گردیزی، سید ولایت حسین گردیزی ، سید نذیر حسین ولد سید بڈھن شاہ اور دوسرے گردیزی اسلاف نے  مہاجرین کی آباد کاری میں ان کی مدد کی تھی۔ سید علی حسین گردیزی، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی کابینہ میں وزیر صنعت تھی۔970 اور 1977 میں سید عباس حسین گردیزی پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے جبکہ سید محمد رضی شاہ گردیزی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھی۔ گردیزی خاندان سیاست کے علاوہ زراعت، تجارت اور زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں بھی نمایاں رہا ہی۔ اس خاندان نے سرائیکی صوبہ تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا ہی۔ سرائیکی صوبہ تحریک میں گردیزی خاندان کے تین نام یعنی سید محمد قسور گردیزی، سید ولایت حسین گردیزی اور سید الحاج محمد علی مہدی گردیزی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

Sunday 18 March 2012

جی ہاں ! لسانی بنیادوں پر سرائیکی صوبہ


تحریر: مسز ارشاد پروین (بیگم محمد ممتاز خان ڈاہر)
   خود اپنے ملک کی زبانوں سے نفرت کرنا اور انہیں ملکی سلامتی کے خلاف قرار دینا ‘ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ صرف پاکستان میں ہوتا ہی۔ چنانچہ جب قومی اور لسانی بنیادوں پر سرائیکی صوبے کا مطالبہ کیاجاتا ہے تو یہ بات زبان کے مخالفین پر بجلی بن کر گرتی ہی۔ پاکستان میں لسانی صوبوں کی مخالفت کرنے والے دو قسم کے طبقات ہیں۔ پہلے طبقے میں وہ لوگ شامل ہیں جو سیاسی طورپر پسماندہ اور ناپختہ ہیں۔ ان کا تاریخی شعور بہت زیادہ بلند نہیں، اگر ان لوگوں کو سمجھایاجائے یا سیاسی عمل مسلسل آگے بڑھتا رہے تویہ لوگ لسانی بنیاد پر مجوزہ صوبہ سرائیکستان کی مخالفت ترک کردیں گی۔ دوسرے طبقے میں ایسے لوگ شامل ہیں جو زبان‘ ثقافت اور قومیتی فلسفے کے دشمن ہیں، یہ لوگ پاکستان کی قومی زبانوں اور یہاں پر آباد قوموں کی ثقافتی ورثے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، انہیں قائل کرنا بہت مشکل ہی۔ کیونکہ ان کے نزدیک وطن ایک زمین کے خطے کا نام نہیں بلکہ وطن ایک فکر  کا نام ہے اور وہ اپنے نظریے کے جبری نفاذ کے لیے ہمیشہ زمینی حقائق اور فطری اصولوں سے دست و گریباں رہے ہیں۔ ان نامعقول لوگوں کی خون آشامی اس مضمون کا موضوع نہیں۔ دوسری طرف قومی اور لسانی بنیادوں پر سرائیکی صوبہ کا قیام ایک معقول مطالبہ ہے جو فطری اصولوں کے مطابق ہی۔ ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے زبان کو بنیادی اصول بناکر آزادی کے بعد ہندوستان میں نئے صوبے بنائے تھی۔ دنیا بھر کے سیاستدان اور ماہرین لسانیات جواہر لال نہرو کی ذہانت اور ان کی حب الوطنی کے معترف ہیں۔ یورپی مصنف رابرٹ ڈی کنگ نے اپنی کتاب Nehru and the Language Politics of India  میں لسانی مسئلے پر نہرو کی کامیاب حکمت عملی کو سراہا ہی۔ لہٰذا اگر فطری اصولوں اور ہندوستان کے کامیاب ترین تجربے سے استفادہ کیاجائے تو پاکستان میں صوبہ سرائیکستان کے قیام کے ساتھ ساتھ پختونخواہ اور بلوچستان کی بھی نئی حد بندی کی جاسکتی ہی۔ 2 اکتوبر 1998 کو اسلام آباد میں معتبر غیر پنجابی قوم پرستوں نے صوبہ سرائیکستان کے قیام اور قومیتی بنیادوں پر صوبوں کی نئی حد بندی پر اتفاق کیا تھا۔ اس موقع پر نیا سیاسی اتحاد پونم ( Pakistan Oppressed Nations' Movement ) معرض وجود میں آیا۔ اور اس تاریخی حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ آج پاکستان کی تمام غیر پنجابی اقوام لسانی اور قومی بنیادوں پر مجوزہ صوبہ سرائیکستان کی حامی ہیں۔

Importance of March 23 in the Movement of Pakistan


سکوت بزم جہاں پارہ ہوگیا آخر
کہ خاک فکرو نظر زیست کا شرار ہ بنی
جلا کر رکھ دیا جس نے نشیمن افرنگ
اک عزم تازہ ہوا اُستوار آج کے دن
          ۳۲ مارچ کے تاریخی دن نے مسلمانوں کی قسمت بدل دی اس دن کا سورج ان کے لئے حیات نو کی نوید لے کر ابھرا اور انہیں زندہ اور عزت دار قوموں کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل بنایا ۔ اس دن کے پس پردہ انسانی عظمت  و ہمت کی لازوال داستان اپنی تمام تر تابناکیوں کے ساتھ کون و مکاں کے افق پر تاحال تاباں و درخشاں اور تاریخ انسانی کا عظیم اور سنہری باب ہی۔ جس میں ہمارے آباو اجداد کے پختہ ارادوں اور جدوجہد کی تکمیل اور قربانیوں کی تفصیل رقم ہے انہی کارناموں کی بدولت آج کی نسل ایک آزاد ملک کی آزاد فضا میں سکون کا سانس لے رہی ہے ۔ نسل نو کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس آزادی اور سکون کا حصول کتنی جانی اور مالی قربانیوں کے بعد ممکن ہوا۔ اس کے لئے کتنی خون کی ندیاں بہائی گئیں ۔ کتنی عزتوں کو پامال کیا گیا۔ کتنے لاکھ پروانوں کے خون سے پاکستان کی شمع روشن ہوئی ۔ جس کے اُجالے میں آج ہم سب اپنی منزل اور نئے آفاق کی جانب گامزن ہیں ۔ مسلمانان ہند  ۳۲مارچ۰۴۹۱ ء  کے مقام تک کیسے پہنچے یہ تاریخی معرکہ کیسے سر کیا اس کے لئے ضروری ہے کہ اس واقعہ کا تاریخی پس منظر بیان کیا جائے ۔ انگریزوں نے تجارتی مقاصد کے نام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے قدم جمائے اور  ۷۵۸۱ ء تک پورے برصغیر پر اپنا سیاسی تسلط قائم کر لیا اس طرح ہندوستان کو باضابطہ طور پر تاج برطانیہ کے ماتحت کر دیا گیا۔ بنگال میں نواب سراج الدولہ کی شکست اور ٹیپو سلطان کی شہادت میسو ر کی اسلامی ریاست کے خاتمے کا سبب بنی اور مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور حکمرانی ختم کر دیا گیااور ان کی قسمت پر غلامی کی مہر ثبت ہوگئی ۔    

Saturday 17 March 2012

خطاطِ اعظم ہندجناب محمد خلیق ٹونکی

خطاطِ اعظم ہندجناب محمد خلیق ٹونکی کا خطِ رعنا پر تبصرہ
       اس میں شک نہیں کہ اساتذہ فن نے خطِ نستعلیق کو لطافت و نزاکت کے ساتھ باضابطہ بنانے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا، اسی لئے خظِ نستعلیق کے بعد صدیوں سے کسی خط کی ایجاد عمل میں نہیں آسکی۔ لیکن خطِ نسخ میں ابنِ مقلیٰ کے ایجاد کردہ خطوط کے بعد بے شمار فنکاروں نے اپنے خونِ جگر سے ان ششگانہ خطوط کے چمن کی آبیادی کرکے ان کو باضابطہ جوڑ پیوند دے کر بامِ عروج پر پہنچایا ۔ تاہم صدیوں سے اس چمن میں کسی نہ کسی گُل کی کمی تھی ، لہٰذا میرے فاضل و فنکار دوست جناب حافظ محمد اقبال ابنِ کلیم ملقب بہ  ہفت قلم (متوطن ملتان ۔ پاکستان ) نے پیہم جہد و سعی و دماغ پاشی سے بیحد قلیل مدت میں ایک خط ’’خطِ رعنا‘‘ کے نام سے ایجاد کرکے نہ صرف اس گل کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس خط کو گل رعنا کی سی لطافت و حسن دیتے ہوئے مفردات ، مرکبات ، مقطعات، رباعیات ، مضامین اور طغریٰ وغیرہ کے ہمہ طرز نگارش کا ایک ذخیرہ جمع کرکے اس فنِ خطاطی کے ساتھ اپنے والہانہ شغف و دیدہ ریزی کاثبوت دیا ہی۔ نیز اس خطِ رعنا کے جوڑ و پیوند، نشست و کرسی ، دور و سطح کے اصول ترتیب دے کر نہایت سہل اور مفید عام بنادیا ہے ۔ اَللَّھُمَّ زِد فَزِ د !
       یوں تو موصوف ( ابنِ کلیم ) خطِ کوفی ، نسخ ، ثلث ، دیوانی ، رقعہ ، نستعلیق یعنی خطوطِ ششگانہ کے مسلّمہ ماہر ہیں لیکن خطِ رعنا کی ایجاد کے ذیل میں انہیں ہفت قلم کے خطاب سے مشرف کیا گیا ہے ۔
       غالب اکیڈمی ، بستی حضرت نظام الدین ؒ ( نئی دہلی نمبر 110013) میں موصوف کی  ہفت قلمی ہمہ طرزِ نگارش پر مشتمل نمائش کی کامیابی پر میں دلی پُر خلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اپنی بے بضاعتی کا احساس کرتے ہوئے رشک کے ساتھ یہ شعر پڑھتا ہوں۔
چہ نادانی کہ فنِ خوش خطی راہِ سہل می دانی
کمالِ کسب باید ایں ہمہ جِدّت طرازی را
ننگِ خطاطان !  احقر محمد خلیق ٹونکی
انسٹرکٹر اردو خطاطی کلاس غالب اکیڈمی ، بستی
حضرت نظام الدین ؒ ۔ نئی دہلی نمبر 110013

Thursday 15 March 2012

نعت خوانی اور اس کے تقاضی

نعت خوانی اور اس کے تقاضی
        سرکارِ دوعالم جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی ذاتِ اقدس پردرور پڑھنا نعت رسول پڑھنا اور سننا ایک بہترین عبادت ہی نہیں بلکہ سنت خداوندی ہے جیسا کہ قرآنِ پاک کی اس آیت کریمہ سے واضح ہے  ’’ اِنَّ اللہ َ وَمَلٰءِکَتہ یُصَلَّونَ عَلَی النَّبِی یَا اَیُھَّاالَّذِینَ اٰمَنُو صَلُّو عَلَیہِ وَسَلِّمُو تَسلِیمَا۔ ‘‘  "ترجمہ: اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتے درود بھیجتے ہیں، نبیؐ کی ذات پر اے ایمان والو تم بھی درود بھیجو اور سلام بھیجو نہایت ادب کے ساتھ نبی برحق محمد رسول اللہ ؐ کی ذات پر‘‘
        اللہ جل شانہ  کے اس فرمان پر نبی پاک صاحب لولاک نے خود عمل کرانے کیلئے اپنے مقرب صحابی شاعر دربارِ رسالت حسان بن ثابت ؓ سے اپنی نعتیں سنیں اور نعت پڑھنے والے کی حوصلہ افزائی کی اور اس پر اظہارِ مسرت کیا ان دونوں حوالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ایک طرف نبی پاک ؐ کی ذاتِ اقدس پر درود بھیجنا  (یا نعت کی صورت میں تعریف کرنا) سنت ِ خداوندی ہے تو دوسری طرف نعت سننا اور نعت خوان کی حوصلہ افزائی کرنا سنت نبویؐ ہی۔
        نعت محمد ؐ پڑھنے والے کے لئے جن بنیادی امور پر زیادہ توجہ دینی چاہئے ان میں خوش گلوئی، آواز کا مناسب اور بروقت اتار چڑھائو، لَے میں ہم وزن ٹھہرائو شامل ہیں۔ اور جن باتوں سے نعت پڑھنے والے کو گریز کرنا چاہئے وہ یہ ہیں۔ غُنا ںّ پَن (یعنی ناک سے آواز کا نکلنا) مخارج والے حروف کو میانہ روی سے ادا کری، فارسی اور اردو نعت پڑھتے وقت قرأۃ کی طرح گہرے مخارج کی ادائیگی سے پرہیز کرے ہاں البتہ عربی نعت پڑھی جائے تو اس میں مخارج کی ادائیگی کا بھرپور حق ادا کری، نعت خوان کی آواز میں دھڑک، کُھردرا پن، کپکپی اور بے سُری نہ ہو ان تمام نقائص سے بچنے کیلئے نو آموز نعت خوان کا اساتذئہ فنِ نعت خوانی سے نعت پڑھنے کے رموز کو سمجھنا اور پھر ان کی مشق کرنا از بس ضروری ہی۔
        نعت خوانی کے آداب میں یہ باتیں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں۔

Wednesday 14 March 2012

اضافی نشے

تحریر: مبشر کلیم خان
mubesher@ymail.com

نشے دنیا کے تمام ممالک میں تقریباً یکساں طور پر مقبول ہیں ۔ اس کے فروغ اور مقبولیت کی مختلف وجو ہات ہیں جو ہر قوم کی ثقافت تہذیب و تمدن اور اقتصادی اعتبار سے مختلف ہیں ۔ لیکن ہمارے ملک میں کچھ اضافی نشے دن رات فروغ پا رہے ہیں ۔ اور ترقی کی منازل سُرعت سے طے کررہے ہیں ان نشوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان کے کرنے سے معاشرہ اور نئی نسل پر صحت مند اثرات پڑتے ہیں ۔ یہ نشے کھلے بندوں اور سرِعام کئے جاسکتے ہیں ان نشوں کے عادی ہر شے پر قادر ہوتے ہیں اور قوم کے معماروں کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوتے ہیں ۔ اُن میں سے چند ایک نشے قابل ذکر ہیں ۔ 1)خود نمائی کا نشہ  ،  2) اقتدار کا نشہ  ،  3)وسیع اختیارات کا نشہ  ،  4) دولت کا نشہ  ،  یہ چاروں نشے انتہائی پُر کیف مسرور کن لذت آمیز اور دیر پا ہوتے ہیں ۔ اور خصوصی طور پر بے ضرر ہوتے ہیں ۔

سرائیکستان کی جغرافیائی حدود


سرائیکستان کی جغرافیائی حدود اور نئے صوبوں کی بحث
تحریر: محمد ممتاز خان ڈاہر
سرائیکی صوبہ تحریک کی صدائے بازگشت پورے پاکستان میں گونج رہی ہے یہ ایک ایسا جادو ہے جوسیاسی منظر نامے پر سر چڑھ کر بول رہا ہے 17جنوری012 کو ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب (سرائیکستان) اور ہزارہ کو صوبے کا درجہ دینے اور کچھ قوانین میں ترمیم کے لیے 20ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔ قبل ازیں 15جنوری 2012کو ملتان میں اعلانِ سرائیکستان کے سلسلے میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سرائیکستان قومی اتحاد مینارٹیز موومنٹ فار ڈیمو کریسی، پاکستان سرائیکی پارٹی، سرائیکی نیشنل پارٹی، سرائیکی قومی اتحاد، سرائیکستان یوتھ پارلیمنٹ، سرائیکستان انقلابی کونسل اور سرائیکستان صوبہ کے قیام کے لیے مصروفِ عمل کچھ دوسری قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں خواجہ غلام فرید کوریجہ، یونس عالم،راقم الحروف ، حسن رضا بخاری، مظفرخان مگسی، پروفیسر شوکت مغل، رانا فراز نون، ممتاز حسین جائی،سیدہ شہناز بخاری،ڈاکٹر کرسٹو فر، ایم اے بھٹہ،پروفیسر شمیم عارف قریشی،پروفیسر اکرم میرانی، پروفیسر جمیل احمد بخاری،ملک غضنفر عباس راں، ملک شفقت میتلا،شعیب نواز بلوچ،جاوید حسین چنڑ،سرفراز بھٹی، غلام رسول گرمانی،انورگل، شہزاد گل،عمر خورشید، جام فیض اللہ، رانا ذیشان نون، وغیرہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر اعلانِ سرائیکستان جاری کیا گیا جس کے ذریعے کانفرنس کے شرکاء نے عہد کیاکہ وہ صوبہ سرائیکستان کے نام اور اس کی حدود کے متعلق اپنے موقف سے ہرگز دستبردار نہیں ہونگی۔ اعلانِ سرائیکستان کے مطابق مجوزہ صوبے میں پنجاب کے 21اضلاع اوکاڑہ(337مربع کلو میٹر) بہاولپور(4830مربع کلو میٹر) بہاول نگر(887مربع کلو میٹر)پاکپتن( 2724مربع کلو میٹر)ساہیوال(442مربع کلو میٹر) رحیم یار خان(1880مربع کلو میٹر)سرگودھا(854مربع کلو میٹر) بھکر(153مربع کلو میٹر) ٹوبہ ٹیک سنگھ(259مربع کلو میٹر) جنگ وچنیوٹ(809مربع کلو میٹر) خوشاب(511مربع کلومیٹر) میانوالی(840مربع کلو میٹر) خانیوال(349مربع کلو میٹر) ملتان(720مربع کلو میٹر) وہاڑی(364مربع کلو میٹر) لودھراں(790مربع کلو میٹر) ڈیرہ غازی خان(9222مربع کلو میٹر) راجن پور(2318مربع کلومیٹر)لیہ(291مربع کلو میٹر) اور مظفر گڑھ(249مربع کلو میٹر) شامل ہیں۔ اس طرح مجوزہ سرائیکستان کا ایک لاکھ پچپن ہزار69مربع کلو میٹر رقبہ پنجاب میں شامل ہی۔ علاوہ ازیں سرائیکستان کے 2اضلاع یعنی ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک صوبہ خیبر پختونخواہ میں شامل ہیں۔

Sugar Treatment


صرف تین خوراکوں سے شوگر کا مکمل خاتمہ
          قارئین! عرصہ دراز سے آپ میری تحریروں کو ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ آپ تک ایسی چیزیں پہنچائیں جائیں جو کم قیمت، زیادہ نفع مند اور آسان ہوں اور مجھے خوشی ہوتی ہے جب میرے ہر مضمون کے شائع ہونے کے بعد قارئین کی طرف سے شفا یابی کے پیغامات خطوط اور دیگر ذرائع سے ملتے ہیں تو ان حضرات کی دعائیں اور برکات محسوس ہوتی ہیں۔
          میں اپنے ایک محسن کے پاس بیٹھا طبی موضوعات پر گفتگو کر رہا تھا۔ موصوف پروفیسر صاحب ایک متقی اور تحقیقی مزاج رکھنے والے اور اعلیٰ درجہ کے متواضع اور کریم المزاج انسان ہیں۔
          فرمانے لگے کہ مجھے ایک صاحب نے اس نسخہ کے بارے میں بتایا تھا۔ بظاہر عقل کو بات نہ لگی۔ میں نے توجہ نہ کی اورسنی ان سنی کر دی۔ پھر ایک صاحب نے کچھ دنوں کے بعد اسی نسخہ کی اوراسی ترکیب کی بات کی کہ جس جس نے بھی یہ نسخہ آزمایا ہی، وہ تندرست ہو گیا ہی۔
          اسی دوران ایک وکیل صاحب نے بھی اسی نسخہ بارے میں بتایا اور مزید یہ بھی کہ اس نسخہ سے ان کے کئی مریض تندرست ہو گئے ہیں۔ پروفیسر صاحب فرمانے لگے کہ اس ترکیب کی تصدیق مسلسل ملنے لگی حتیٰ کہ ایسے مریض جن کی شوگر کنٹرول ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ کنٹرول ہوگئی اور پھر بالکل ختم ہوگئی۔

Monday 12 March 2012

ایک خوبصورت دنیا کا خواب

ایک خوبصورت دنیا کا خواب 
سلطان محمود شاہین
          کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ اس دنیا میں ہی آپ برق رفتار سے ایک دن میں کئی ملکوں کا دور کرکے شام کو واپس اپنے آفس یا گھر پہنچ جائیں۔ یا آپ کے پاس ایسی اُڑن طشتری ہو جو نہ پٹرول اور گیس استعمال کرے اور نہ ہی بجلی۔ آپ اس کائنات میں ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ چند منٹوں میں طے کر رہے ہوں۔ہر شعبہ زندگی میں آپ کی ترقی کی رفتار فزوں تر ہوجائی۔ تو پھر انتظار کیجئے عنقریب آپ کے یہ سارے خواب پورے ہونے والے ہیں۔