Thursday 13 September 2012

Complete Book "Travelogue on Saudi Arabia"

Wednesday 15 August 2012

عظمت قرآن و حاملِ قرآن


عظمت قرآن و حاملِ قرآن
شاعر: محمد مجاہد سیّد  (جدّہ سعودی عریبیہ)

یہ کوہ و دشت زمین و زماں سبھی چپ تھے
کہ آئی اُس میں پرِ جبرئیلؑ کی آواز
جو چاک کر کے گئی مثلِ برق سینۂ شب
ہزاروں سال سے خاموش ریگ صحرا پر
ندا فرشتے کی گونجی کلامِ نور لیئے
حِرا کی خلوتوں، عرشِ بریں کا راز لیئے
حرم میں جلوہ نُما ہے نبیﷺ کی صورت میں
شکست جہل کا اعلان آیتِ قرآں
لہو کے سبل میں وادیٔ غیر ذی زرُعُ
نئی بہار کا دیتی ہے ہر طرف پیغام
وہ اِک بہار جسے بے خزاں ہی رہنا ہے
وہ اِک بہار جسے آ کے پھر نہ جانا ہے
وہ اِک بہار جو بدلے گی خار و خَس کا نصیب
اُسی بہار سے نطقِ عرب میں پھول کھلے
اُسی بہار  پر شعرِ عجم کا چہرہ زرد
اُسی بہار سے مشرق میں آمدِ نوروز
اُسی بہار سے مغرب میں برگ پگھلی ہے
یہی بہار شمال و جنوب کی رونق
اُسی سے خاکِ زمیں پر نزولِ نور ہوا
وہ جس بہار کا منبع ہے سینۂ قرآں
کشادِ دل کیلئے نسخۂ یقیں ہے جو
بہ سمتِ کعبہ ٔ جن و بشر چراغِ حرم
کلید شرعِ مبیں، خلق و مہر کا پیکر
زُبانِ پاک پہ اور سینۂ مبارک میں
وحی کا نور لئے جلوہ گر ہے بطحا میں
وہی نہ ہو تو وجود و عدم برابر ہیں
دل و نگاہ کی منزل اُسی کو رہنا ہے
تمام زیست کا حاصل اُسی کو رہنا ہے

Wednesday 23 May 2012

سفرۃٌ طیبۃ پر تبصرہ


قونصل جنرل پاکستان جناب عبدالسالک خان کا  سفرۃٌ طیبۃ  پر تبصرہ

          معروف پاکستانی خطاط جناب ابنِ کلیم احسن نظامی کی رپورتاژ ’’سفرِ طیبہ‘‘ کے مطالعہ کے بعد میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جناب ابنِ کلیم جہاں ایک اعلیٰ پائے کے خطاط ہیں وہیں ایک بلند پایہ مصنف بھی ہیں۔ خاتم الانبیاء محمد ؐ کی محبت ہر مسلمان کے دل میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوتی ہی۔ نظامی صاحب اس محبت میں بھی بہت سوں سے آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔ ’’سفرِ طیبہ‘‘ میں انکی رسالت مآب ؐ سے والہانہ محبت و وابستگی جابجا نظر آتی ہی۔
          قونصلیٹ جنرل پاکستان، جدہ نے سعودی عرب میں پہلی مرتبہ قرآنی اور عربی خطاطی کی نمائش ’’علّم بالقلم‘‘ کے عنوان سے یکم تا 4اکتوبر 2011ء منعقد کی۔ اس نمائش میں پاکستان کے مایہ ناز خطاطوں نے اپنی خطاطی کے خوبصورت نمونے پیش کئے اور سعودی عوام و خواص کے ساتھ ساتھ پاکستانی کمیونٹی اور جدہ میں مقیم غیر ملکیوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ اسی نمائش میں خطِ رعنا کے موجد ابنِ کلیم احسنؔ نظامی ایک معتبر خطاط کی حیثیت سے شریک رہی۔ انہوں نے اپنے دس روزہ قیامِ مکہ اور مدینہ منورہ کو جس خوبصورتی اور اختصار لیکن جامع انداز میں قلم بند کیا ہے وہ یقینا قابلِ ستائش ہی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ایک عام قاری کے لئے بھی اتنی ہی مفید اور دلچسپ معلومات رکھتی ہے جتنا کہ خطاطی سے محبت رکھنے والے افراد اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
          سفرنامہ طیبہ میں جناب ابنِ کلیم نے فنِ خطاطی کی مختصر تاریخ اور خطاطی میں ایجاد کردہ ’’خطِ رعنا‘‘ کے بارے میں جامع معلومات فراہم کی ہیں۔ مصنف نے خوبصورت اور متأثر کن انداز میں خطاطی نمائش میں شریک تمام خطاطوں کا مختصر و جامع تعارف شامل کر کے نہ صرف پاکستان میں خطاطی کے فن کو اُجاگر کیا ہے بلکہ اس فن کے چاہنے والوں کو کئی نامور اور اُبھرتے ہوئے خطاطوں سے روشناس بھی کروایا ہی۔
          مصنف نے ’’علّم بالقلم‘‘ نمائش کا چار روزہ احوال اور سفرِ مکہ، مدینہ منورہ کی روداد نہایت سادہ اور فکر انگیز انداز میں تحریر کیا ہی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے سعودی اخبارات اور میڈیا میں نمائش سے متعلق خبروں کا مختصر جائزہ بھی شامل کیا ہی۔
          اس کتاب کی ایک اور خصوصیت جس کا ذکر میں ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ معتمرین حج و عمرہ کے لئے یہ ایک موزوں اور بہترین رہنمائے سفر ہوسکتی ہی۔ ابنِ کلیم صاحب نے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے جابجا خوبصورت اشعار کا ستعمال کیا ہے جو کہ ان کے شوق شاعری کی غمازی کرتا ہی۔
عبدالسالک خان
قونصل جنرل
28-01-2012  جدہ ، سعودی عریبیہ

Saturday 12 May 2012

امام آیت اللہ روح اللہ الموسوی الخمینیؒ


امام آیت اللہ روح اللہ الموسوی الخمینیؒ
        ایران کی گزشتہ اڑھائی ہزار سالہ تاریخ کے مختلف ادوار میں سکندر اعظم کے علاوہ   یونانی ، اشکانی اور پھر ساسانی اس ملک پر حکمران رہی۔ جب پیغمبر اسلام حضور اکرم حضرت محمد ؐ کا زمانہ آیا تو آپ ؐنے اپنے وقت کے قیصر روم اور شاہ ایران کو اسلام کی دعوت دی ۔ جس کی وجہ سے ساسانیوں کی حکمرانی کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں ایران کی دانشور، بہادر، غیور اور عظیم قوم نے اسلام کو خوش آمدید کہا اور اس طرح ملک بھر میں ہر سُو اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔ ایرانیوں نے اسلام کے لئے بیش بہا خدمات سر انجام دیں اور اسلامی سلطنت کو بام عروج پر پہنچادیا ۔ ساتویں صدی ہجری میں مغلوں نے حملہ کرکے اسلامی سلطنت کو تہس نہس کر دیا اور بہت سے ایرانی شہروں کو ویران کھنڈروں میں تبدیل کر دیا۔پھر شاہ عباس اول کے صفوی دور میں علم و ہنر کی ترقی ہوئی شہروں کو آباد کیا گیا۔ نئی سڑکیں اور عمارتیں تعمیر کی گئیں ۔ صفویوں کے بعد ایران پھر زوال پذیر ہوگیا۔ افغانیوں کا قبضہ اور پھر نادر شاہ کا دور حکومت رہا۔

قرآن حکیم کی بعض اہم سورتیں


قرآن حکیم کی بعض اہم سورتیں

عذرا پروین راولپنڈی
        سورہء فاتحہ مکی سورۃ ہے اس میں سات آیات ہیں اس کے نام کو لفظ افتتاح سے نسبت ہی۔یعنی کلام کا آغاز یا دیباچہ۔ اس سورۃ کے بہت سے نام ہیں فاتحہ القرآن ، اُم القرآن ، فاتحہ الکتاب۔ اس سورۃ کی اجمالی طور پر ۷ آیات پورے قرآن کریم کو اختصار کے ساتھ  واضح کر دیتی ہیںجس میں قرآن پاک کے تمام مقاصد ، مضامین اور دعائیں جمع کردی گئیں ہیں۔ نماز میں بھی اس تلاوت کی جاتی ہی۔
        سورہء البقرہ میں گائے کا ذکر صرف ایک جگہ آیا ہے عربی میں بقرہ گائے کو کہتے ہیں گو کہ سود کی ممانعت کا ذکر بھی آیا ہے اور جمالیاتی طور پر مخالفین اسلام کو ہدایات دی گئیں ہیں۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐنے فرمایا کہ ہرچیزکا ایک بلند حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کا بلند حصہ سورۃ البقرہ ہے اس میں ایک آیت ہے آیت الکرسی کے نام سے ہی۔ یہ سب آیات کی سردار ہے اس کو پڑھنے سے گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے یہ سورۃ مدینہ میںنازل ہوئی اس میں 286  آیات اور 40   رکوع ہیں ۔     

فرقہ وارانہ ہم آہنگی


فرقہ وارانہ ہم آہنگی

سید احمد حسن ایڈووکیٹ
        اسلام دین فطرت ہے  اور یہ ہمیشہ امن و آشتی ، رواداری اور محبت کا درس دیتا ہی۔ مذہب کے نام پر اپنے غیر اسلامی افکار دوسروں پر مسلط کرنے کی نفی کرتا ہی۔ اسلام نے اپنے مزاج اور رحجان کو انسانی سطح پر رکھ کر سمجھنے کے لئے ہمیشہ راستہ دکھایا ہی۔ فتح مکہ کے موقع پر مصلح اعظم ؐ نے ضعیفوں ، عورتوں ، بچوں کے علاوہ گھر کا دروازہ بند کرلینے والوں اور بیٹھ جانے والوں پر حملہ نہ کرنے کا حکم صادر فرماکر اسلام کے امن پسند ہونے کی عملی تصویر پیش کی ہی۔                          

عالم انسانیت کے ناسُور

عالم انسانیت کے ناسُور

        سردار الانبیأ ، فخرالامم ، نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہی۔ آخرت وہ ہے جو انسان کے اس دنیا سے کُوچ کر جانے کے بعد شروع ہوگی اور اس دنیا میں اس نے جو سیا ہ و سفید کارنامے سر انجام دیئے تھے اُن کا بدلہ پائے گا۔ اور اس سے کسی انسان کو مفر نہیں ہی۔ لیکن ایک کھیتی ایسی بھی ہے جو اس دنیا میں ہی پک کر تیار ہو جاتی ہے اور اُسے ہر صورت یہاں ہی کاٹناپڑتا ہے ۔ لیکن یہ یاد رہنا ضروری ہے کہ ہر شخص نے اپنا بویا ہوا خود ہی کاٹنا ہے ۔ میرے اس پیارے ملک پاکستان کی فوج ، عدلیہ ، حکومت، پارلیمنٹ، سینٹ ، بیورو کریسی اور سیاست دانوں کی پچانوے فیصد تعداد ملک اور قوم کی مخلص اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہی۔ لیکن ان میں کچھ گندی مچھلیوں کی وجہ سے سارا تالاب گندا ہوجاتاہی۔ ان چند مغرور، متکبر سر پھروں اور اللہ تعالیٰ کے باغی ننگ دین، ننگ ملت اور ننگ وطن لوگوں میں ایسے ناسور  بھی رہے ہیں جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات اور فرعونی جبلت کا اسیر ہو کر غداری ، ظلم و بربریت اور مکاری و عیاری کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے یہاں تک کہ اپنی ذاتی حرص و ہوس کو پورا کرنے کے لئے سارے ملک اور قوم کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اپنے سیاہ کرتوتوں کی فصل کاشت کرنے کے دوارن یہ لوگ بھول گئے کہ اسے کاٹنا بھی تو خود ہی ہی۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ شائد عوام بے وقوف اور بے شعُور ہے اور ان کا کوئی کچھ نہیں بیگاڑ سکتا۔ لیکن ایک اللہ توان کی ہر نافرمانی اور ظلم و زیادتی کو دیکھ رہا تھا۔ جس کا قانون اوراصول اٹل ہیں ۔

Monday 7 May 2012

خزینہ ٔ روحانیات کا درود شریف نمبر


خزینہ ٔ روحانیات کا درود شریف نمبر
          ہمیں گذشتہ دِنوں ماہنامہ خزنیۂ روحانیات (لاہور) کا مطبوعہ لاجواب ضخیم پرچہ موصول ہوا جو کہ درود شریف نمبر قرار دیا گیا ہی۔ یہ اپریل 2012ء کا رِسالہ اپنے اندر منفرد قیمتی اور فکر انگیز تحریروں کو سموئے ہوئے ہی۔ 72صفحات پر مشتمل اس مرقعِ علمی و روحانی کی طباعت اور کاغذ بھی عمدہ ہیں۔ اور ٹائٹل بھی شایانِ شان ڈیزائن کیا گیا ہی۔
   حقیقت یہ ہے کہ یہ رسالہ انسان کیلئے (وہ مرد ہو یا عورت) مہد سے لحد تک دنیا میں زندگی کی ہر مشکل کو آسانی کے ساتھ حل کرنے کیلئے درود شریف کے ذریعے مجرب عمل اور آسان تدابیر کا ایک ایسا جامع مرقع ہے جو غالباً پہلی بار مجتمع کیا گیا ہی۔ اس خوبصورت، اثر انگیز اور فیض رساں کام کیلئے خزینۂ روحانیات کے مدیر اعلیٰ ابو نافع خالد مقبول عارف عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے اجتماعی شکریے اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ درود پاک کی برکت سے ان کے فہم و اِدراک میں برکت عطا فرمائی۔ ’’خزینۂ روحانیات‘‘ کے حوالے سے قارئین کو وہ اس نوعیت کے عظیم الشان موضوعات قلمبند کر کے استفادئہ عام کیلئے پیش کرتے رہیں گی۔

Friday 20 April 2012

بانی مجلس فروغِ اردو ادب قطر و شائقینِ فن دوحہ ملک مصیب الرحمٰن کی چھٹی برسی پر دعائیہ تقریب


بانی مجلس فروغِ اردو ادب قطر  و  شائقینِ فن دوحہ  ملک مصیب الرحمٰن کی چھٹی برسی پر دعائیہ تقریب

تحریر: شوکت علی نازؔ۔قطر
 دوحہ کی معروف علمی وادبی شخصیت ملک مصیب الرحمٰن ابن الحبیب احقر ؔکی چھٹی برسی پر ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام شائقینِ فن دوحہ کے جنرل سیکرٹری جاوید ہمایوں کی رہائش گاہ پرجمعہ ۲ اپریل کی شب کیا گیا، جس میںپاکستانی کمیونٹی کی کثیر تعداد نے شرکت کی،  ملک مصیب الرحمٰن کے دیرینہ ساتھی مجلس فروغِ اردو ادب کے چیئرمین محمد عتیق نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں کی گئیں ملک مصیب الرحمٰن کی کاوشوں کوسراہا اورکہا کہ ۲ اپریل ۶۰۰۲ کو مصیب کی وفات کے بعد جو ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آپڑی تھی انہوں اسے نبھانے اور اس معیار کو قائم رکھنے کی پوری پوری کوشش کی، انہوںنے یومِ پاکستان کے سلسلے میں ۷۲  اپریل کو پاکستان ایمبیسی آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے کثیر اللسانی مشاعرہ کے انعقاد کا بھی اعلان کیا اورکہا کہ سولہویں عالمی فروغِ اردو ادب ایوارڈونرزکے سلسلے کی جیوری میٹنگز جلدنئی دہلی اور لاہور میں ہونگی۔سید قنبر حسن نے ملک مصیب الرحمٰن کی بخشش، مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا فرمائی جبکہ علی گیلانی نے ایک نہایت خوبصورت نعت پیش کی،فرتاش سید نے دورانِ نظامت مصیب الرحمٰن کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کو یاد کیا۔تقریب کے نمایاں شرکاء میں سینئرپاکستانی محمد زمان خان،قاضی محمد اصغر، عدیل اکبر،اجمل چوہدری، محمد تنویر،ارشد ترین،لیاقت ملک
 انعام الرحیم ،ندیم محفوظ،شوکت علی نازؔ،سید فہیم الدین اورقیصر مسعود شامل تھے

شوکت علی ناز، (دوحہ) قطر
سورج
کیوں روز سنا جاتا ہے نوحہ کوئی سورج
اک دن تو سنا دے ہمیں نغمہ کوئی سورج
خود اپنا اٹھاتا ہے جنازہ کوئی سورج
کچھ کاندھوں پہ رکھ دیتا ہے لاشہ کوئی سورج
گفتار میں ہے صورتِ شعلہ کوئی سورج
اور رکھتا ہے شیریں لب و لہجہ کوئی سورج
ہر صبح کو مل لیتا ہے غازہ کوئی سورج
ہر شام بدلتا ہے لبادہ کوئی سورج
یہ شوخ لباسی ہمیں اچھی نہیں لگتی
ہم کو تو فقط چاہیے سادہ کوئی سورج
پھر آئے گا ، ابھرے گا کل اک شانِ نوی سی
ڈوبا ہے مجھے کرکے اشارہ کوئی سورج
اِس رات کی ظلمت میں تو دم گھٹنے لگا ہی
نازؔ آئے دکھا جائے کرشمہ کوئی سورج
شوکت علی نازؔ  ۔  دوحہ ۔قطر

شٹ اپ کال!


شٹ اپ کال!
مغربی میڈیا نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر جناب سلمان تاثیرؔ کے ایک مذہبی جنونی سرکاری ’’محافظ‘‘ کے ہاتھوں قتل پر پُر مغز تبصرہ کرتے ہوئی، اس سانحہ کو پاکستانی معاشرہ پر مذہبی شدت پسندوں کی گرفت مضبوط ترہونے کی علامت قرار دیتے ہوئے روشن خیال طبقے کیلئے کھلی ’’شٹ اپ کال‘‘ قرار دیا تھا۔ معروف ادبی شخصیت و ماہر تعلیم ڈاکٹر ایم ڈی تاثیرؔکے ہونہار فرزندسلمان تاثیرؔ کا جُرم یہ تھا کہ ُاس نے انسانی ہاتھوں سے بنے توہین رسالت کے قانون 295-C کو سالہا سال سے بے گناہوں کے استحصال کیلئے غلط استعمال کئے جانے کے باعث’کالا قانون‘ قرار دے کر اس میں ضروری تبدیلی کی بات کی تھی تا کہ اسے انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے ۔
توہین رسالت‘ کے نام سے بنایا گیا یہ قانون ہماری تاریخ کے منافق ترین جرنیل ضیاء الحق کے زمانے سے آئین کا حصہ چلا آرہا ہے لیکن شایدآج تک اس کے تحت توہین رسالت کے کسی ’’مُجرم‘‘ کو قانون میں درج موت کی سزا تونہیں دی جاسکی البتہ یہ کمزور اقلیتوں کو ڈرانے دھمکانے یا پھرمذہبی بنیاد پر Exploitationکی غرض سے خوب استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ملک شام (Syria)


ملک شام
7اپریل:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر
تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
         بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع سرزمین شام عرب کی تاریخ میں اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتی ہی۔اسکے شمال میں ترکی ہی،مشرق اور جنوب مشرق میں سلطنت عراق ہی،جنوب میں اردن ہے اور جنوب مغرب میں لبنان اور اسرائیل کی ریاستیں قائم ہیں۔ملک شام کا کل رقبہ ساڑھے اکہتر ہزار مربع میل ہی،اس رقبہ میں جولان کی وہ پہاڑیاں بھی شامل ہیں جن پر 1967ء سے اسرائیل کی ناجائز ریاست نے قبضہ کیاہواہی۔دمشق جیسا قدیم تہذیب کاحامل شہر اس ملک کا دارالحکومت ہی،یہ  اس ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی ،تعلیمی اور ثقافتی مرکز بھی ہی۔ملک شام کی سرزمین پہاڑوں اوروسیع صحراؤں کامجموعہ ہی،علوم جغرافیہ والے اسکے صحرا کو ’’صحرائے شام‘‘بھی کہتے ہیں۔ترکی سے شروع ہونے والاایک دریا ملک شام میں داخل ہوتا ہے جو یہاں کے لیے قدرتی پانی کا واحد بڑا ذریعہ ہی،973میں حکومت نے اس دریاپر بندباندھ کر ’’اسدجھیل‘‘کے نام سے پانی کاایک بہت بڑا ذخیرہ بنالیاجسے اب متعدد مقاصد کے لیے استعمال کیاجاتاہی۔پہاڑی علاقوں میں چھوڑی بڑی قدرتی جھیلیں بھی موجود ہیں جوعلاقے کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔یہاں کا موسم خشک اورگرم ہی،پہاڑی علاقوں کی چوٹیوں پر کبھی کبھی برف باری بھی ہوتی ہے لیکن بہت کم،بارشوں کی سالانہ اوسط بھی تیس سے چالیس انچ سالانہ سے زیادہ نہیں۔ سال میں ایک دو دفعہ ریت کے ایسے طوفان بھی اٹھتے ہیں کہ آسمان سیاہ ہوجاتاہی۔962میں یہاں تیل دریافت ہوا جس کے بعد سے اب تک تیل ہی ملک شام کی سب سے نقد آور صنعت ہی۔

اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جانے کی سزا


بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حدارتداد
اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جانے کی سزا
تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
          دین اسلام قبول کرنا اور پھر روگردانی کرتے ہوئے کفر کی طرف لوٹ جانا ’’ارتدادکہلاتاہی۔جو مسلمان ہواور پھر اﷲ تعالی کی توحید یا ختم نبوت کا انکارکردے یا دیگر ان اسلامی شعائر سے قولی و عملی واعلانیہ روگردانی کرے جواسلامی عقائدو احکامات ومحرمات کاجزولاینفک ہیں،ایسے شخص کو شریعت اسلامیہ میں ’’مرتد‘‘کہاجائے گا۔اسلام نے مذہبی آزادی کی ضمانت دی ہے لیکن عقائد اسلامیہ کے ساتھ مذاق و استہزاکی اجازت نہیں دی۔گزشتہ اقوام جنہیں عدالت خداوندی سے بالکلیہ عذاب کافیصلہ سنایاگیااورآج بھی ان کی باقیات گواہ ہیں کہ انہیں اس کرہ ارض سے نیست و نابود کردیاگیاان سب کاایک مشترکہ جرم یہ بھی تھاکہ وہ انبیاء علیھم السلام کے ساتھ اور ان کی پیش کردہ تعلیمات کے ساتھ مذاق و استہزا کیا کرتے تھی،اور اﷲ تعالی کی سنت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔اسلامی ریاست کے اندر جوبھی شخص مسلمان ہوتاہے وہ دراصل مسلمان فوج میں شمولیت اختیارکرلیتاہی،اس لیے کہ جس طرح کہاگیا کتب علیکم الصیام (تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں۔)اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کتب علیکم القتال(تم پر لڑنافرض کردیاگیاہی)۔اسلامی ریاست کا فوجی بننے کے بعد دشمن سے ملنے پریعنی مرتدہوجانے پراس سپاہی کے ساتھ بھی وہی سلوک کیاجاتاہے جوپوری دنیاکی ریاستیں اور افواج کل انسانی تاریخ میںاپنے باغیوں کے ساتھ کرتی ہیں۔اسلامی قوانین میں ایسے شخص کی جان ومال وعزت و آبروکا بھرپورتحفظ ہے جو اسلامی ریاست میں غیرمسلم بن کررہتاہے لیکن مسلمان بن کرگویااسلامی ریاست کے دفاعی و حساس نوعیت کے رازوں سے آگاہی حاصل کرکے پھر کفرکی طرف لوٹ جانے والے یعنی دشمن سے مل جانے والے کے لیے اسلامی شرعی و فقہی قوانین میں کوئی رعایت موجود نہیں ہی۔

Apostasy


In the Name of Allah the Almighty
Apostasy
(irtidad)
Dr Sajid Khakwani

Freedom of religion under Islam would imply that non-Muslims are not compelled to convert to Islam, nor are they hindered from practicing their own religious rites. Apostasy (irtidad) is the act of turning away from Islam having accepted it.  This involves the rejection of oneness of Allah the Almighty and finalization of the prophet hood at Muhammad (peace upon him) and the essentials beliefs of Islam. One who accepts Islam actually joins Muslim Army, because Qital, Armed Fight is as obligatory for every Muslim man and woman as prayer of five times  and fasting of Ramzan. After acceptance of Islam when one decided to leave Islam and join Non-Muslims, Surely it is a disloyalty to Muslim state by a soldier who has a lot of strategic secrets of Islamic Country. Apostasy of an individual makes all the population unsecured and creates a strategic risks for state.