Thursday, 26 April 2018

Complete Quran Arabic with Saraiki Translation

چند ماہ کی محنت شاقہ کے بعد الحمد للہ آج بفضلِ باری تعالیٰ قرآن مجید کے سرائیکی ترجمہ کی کمپوزنگ مکمل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ ترجمہ پروفیسر دلشاد کلانچوی (بہاولپوری) نے کیا تھا جسے ۵ جنوری ۲۰۰۰ء کو والدِ محترم ابنِ کلیم احسنؔ نظامی مرحوم نے شائع کیا تھا جو کہ قلمی کتابت شدہ تھا۔ اَب اس ترجمہ کو آن لائن پبلشنگ کے پیشِ نظر دوبارہ نئے سرے سے گوگل کے سرائیکی فونٹ (Noto Nastaliq) میں ٹائپ کیا گیا ہے۔
ترجمہ بہت ہی مختصر مگر جامع انداز میں کیا گیا ہے اور کوئی بھی اُردو پڑھنے والا نیچے دئیے گئے مضمون کو پڑھنے کے بعد بآسانی سرائیکی زبان میں پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ 

   سرائیکی زُبان کی خُصوصیّت و اہمیّت اور پڑھنے کا طریقہ
رُوئے زمین پر انسان جہاں کہیں بھی رہتا ہے اس کا ماضی اُس کے ساتھ چلتا ہے، ماضی سے  یہ رشتہ ہی اس کی پہچان کا ضامن ہوتا ہے۔ زبان اور اُس خطّے (وسیب) کے لوگوں سے رَوابط، اس کی شناخت اور اس کی پہچان کے لیے لازوال حقیقتیں ہیں، اس لیے اپنے دیس اور اپنی جنم بُھومی کی مادری زبان سے لا عِلمی کا کوئی جواز نہیں، زبان ایک ذریعۂ اِظہارِ خیال ہی نہیں بلکہ کِسی مُلک، قوم یا خطّہ کی عظمت و وقار اور قومی اتحاد کی علامت بھی ہے، پاکستان اِسلامی ملک کی حیثیت سے دُنیا کے نقشے پر نمودار ہُوا، پاکستان کے قیام سے قبل بھی علاقائی زبانیں علاقوں کے نام پر موسوم اور یہاں کے لوگوں کے درمیان رابطہ، تعلق، رشتہ، واسطہ اور اِظہارِ خیال کا ذریعہ تھیں جیسے صوبہ سندھ کی زبان سندھی، بلوچستان کی بلوچی، خیبر پختونخوا کی پشتو، پنجاب کی پنجابی اور ان سب زبانوں کے درمیان رابطے کی زبان سرائیکی تھی جو اَب بھی مذکورہ چاروں صوبوں میں اکثر گھروں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں اور ان کے نقطہ ہائے نظر کا اِظہار، پھر اظہار کے لیے زبان کی یکسانیت اور اشتراک لازمی اَمر ہیں۔ 
بَرِ صغیر پاک و ہند میں سرائیکی زبان اور کلچر کا ہماری شخصیت، اخلاق و کردار اور مذہبی ساخت پر بہت گہرا اَثر ہے، سرائیکی جیسی قدیم زبان میں ہمارا ثقافتی، دینی، تہذیبی اور اِسلامی سرمایہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس لحاظ سے سرائیکی زبان کے انسانی شخصیّت پر خوشگوار اور مثبت اثرات ہیں۔ یہ زبان ہماری ذاتی، اجتماعی، انفرادی اور معاشرتی الغرض بین البَرِّ اعظمی سطح پر بھی رابطے، پُل اور ایک کڑی کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
سرائیکی زُبان و اَدبْ کی تاریخ اور اس کے اسبابِ زوال:
مختصراً یہ کہ آج سے تین (۳) ہزار سال پہلے اِس خطّۂ قدیم ‘‘ملتان’’ میں ‘‘آسور’’ قوم کی حکومت تھی، یہ دَور قبل اَز مسیح کہلاتا ہے، زمانے کے حالات و تغیّرات کے ساتھ ساتھ اِس خطّے اور اس کی ‘‘بولی’’ کا نام بھی بدلتا رہا۔ اِن تبدیل پذیر ناموں میں سے یہاں کی قدیم بولی کا نام پہلے ‘‘آسورکی’’ بعد میں ‘‘آسُرکی’’ پھر ‘‘سَراواکی’’ اور آخرِ کار موجودہ نام ‘‘سرائیکی’’ ہُوا۔ اِسی طرح دُنیا کے اس قدیم خطّے کا نام بھی ‘‘مَلیُّتھان’’، مولتان اور پھر ‘‘ملتان’’ زبان زدِ عام ہُوا۔ یہ بھی یاد رہے کہ قبل ازیں ملتان بھی سر زمینِ ہند تھا اس خطّے کا قدیم کلچر ہندواِزم پَر اُستوار تھا مگر جب ۹۳ ہجری میں محمّد بن قاسم کی یہاں آمد ہوئی تو تمام علم و اَدب کا مَحور مذہبِ اِسلام بن گیا اور غوث بَہَاءُالدین زکریا ملتانیؒ سے لے کر شاہ حسین خان لنگاہ،حافظ جمال اللہ چشتیؒ، منشی غلام حَسن شہیدؒ، پیر علی مَردان اَویسیؒ، حافظ مدد علی، خواجہ مُراد، عبدالرَّبّ علی افغانی شہید المعروف بابا غریب شاہؒ، قاضی احمد دین، مَولانا قائم الدین خان لنگاہؒ، مولانا نظام بخش قریشیؒ، خواجہ محمد عُبید اللہ ملتانیؒ، خواجہ محمد حسین بخش ملتانیؒ اور دیگر بے شمار عُلماء، صُلحاء، فُصحاء اور شُعراء نے سرائیکی زبان و اَدب کی مختلف حَوالوں سے بھرپور خدمت کی، چونکہ نشر و اَشاعت سے متعلق اَوزاری ذرائع اور وسائل میّسر نہ تھے اِس لیے زیادہ تر قلمی علمی ذخیرہ جمع کیا گیا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے راہ نُمائی کا ذریعہ بنے۔ 
اِسی طرح سرزمینِ ملتان کی قدیمی لائبریریوں، کتب خانوں، اور بعض علم دوست گھرانوں کی ذاتی ملکیّت میں قرآن پاک کے عربی متن کے ساتھ سرائیکی ترجمے موجود تھے، دیگر قیمتی قلمی کتب ہزاروں کی تعداد میں موجود تھیں، جن میں سرائیکی زبان کی اِنشاء پردازی اور اس کی گرائمر کے بارے میں مُستند لُغّات (ڈکشنریاں) آج سے دو صدی قبل تک موجود تھیں۔ 
پُر اَمن فلاحی معاشرے میں دینی اقدار، مذہبی و ثقافتی روایات اور لسانیات و اَدب کو فروغ اور تحفّظ مِل سکتا ہے مگر جس معاشرے میں صورتِ حال بے یقینی ہو جائے اَمن کی جگہ بَد اَمنی کا دَور دَورہ ہو جائے تو وہاں اِن عواملِ خاص کا فروغ تو دَرکنار ان کا باقی رہنا بھی محال ہوجاتا ہے، یہی پریشان کُن صُورتِ حال سرائیکی خِطّہ، اس کے لوگوں، اور سرائیکی لِسانیات و اَدب کے ساتھ اُس وقت پیش آئی جب ۱۸۱۸ء میں سرزمینِ ملتان کے سکون کو سِکّھ شاہی دَور نے تاراج کیا، ملتان کے آخری مقامی معزّز فرمانرو نواب مظفر خان شہیدؒ کو پورے خانوادے سمیت تہہِ تیغ کر دیا گیا اور اعلانِ عام کر دیا گیا کہ مَساجد کو اصطبل بنا دیا جائے اور مسلمانوں کے علم و فن کو یکسَر تباہ کر دیا جائے۔ پھر کیا تھا سِکّھوں، ہندوؤں اور انکے گُماشتوں، لُوٹ مار کرنے والے خونخوار لوگوں نے سرائیکی خِطّے کے اَمن کو تہہ و بالا کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی دھرتی اور اِسلامی اقدار سے والہانہ پیار کرنے والوں کو تہہِ تیغ کر کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں تو دوسری طرف کتب خانوں میں نَادر کِتابوں، قیمتی لِسانیاتی تحقیقی مَواد غرضیکہ قرآن پاک کے قلمی نسخُوں تک کو جلا کر خاکستر کر دِیا گیا۔ ایک بار پھر تاریخ کے اُس ہولناک واقعے کو دُہرایا گیا جو صلیبی جنگوں کے دوران ماضی میں مسلمانوں کے عظیم علمی و تحقیقی مرکز سپین کے ساتھ رُونما ہوا تھا۔ اُس وقت بھی مسلمانوں کے تمام علمی، اَدبی اور لِسانی آثار و کُتب خانے جلا دیئے گئے تھے۔ اِسی طرح سِکّھ شاہی دَور میں اِس سرائیکی خِطّہ کو اکتیس (۳۱) برس تک تاراج کیا گیا، اس کی ثقافت اور لِسانی تشخصّ کو بگاڑنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے گئے۔ 
پھر !   ۱۸۴۹ء میں جب انگریزوں نے اس خِطّے پر چڑھائی کی تو رہی سہی کسَر اُنہوں نے نِکال دی۔ عید گاہ میں توپیں نصب کر کے گولے پھینکے گئے تو قلعہ ملتان تباہ ہو کر کھنڈر بن گیا۔ تقریباً ایک سَو سال تک بدیسی حکمرانوں نے ہمارے کلچر، زبان، حتٰی کہ ہماری آزادی کو جی بھر کے پائمال کیا۔ تمام سرائیکی علاقوں کا مرکز قدیم زمانہ سے ہی ملتان رہا ہے۔ ڈیرہ غازیخان، جھنگ یا بہاولپور وغیرہ اس کے گرد و نواح شمار ہوتے تھے، تو ظاہر ہے ،کہ زمانے کی چیرہ دستیوں سے مجموعہ طور پر یہ خِطّہ اپنے لِسانیات و اَدب کے حوالے سے محروم و مغموم اور یتیم ہو کر رَہ گیا۔ 
کچھ ذِکر بَچے کُھچے قدیم سَرائیکی اَدب کا:
یہ جو کچھ قدیم قَلمی سَرائیکی اَدبی لٹریچر زمانے کی دَست بُرد سے بَچ گیا تھا وہ اَصل علمی خزانے کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے، یہ بھی اِسی طرح سے بچ گیا کہ یا تو لوگوں (عِلمی گھرانوں) کے پاس ذاتی طور پر محفوظ تھا یا پھر ملتان کے نواحی علاقوں میں تھا۔ جھنگ، یا ریاست بہاولپور میں نواب صاحب کی ذاتی مِلکیّت یا اِرد گرد کے علاقوں کی لائبریریوں میں محفوظ تھا۔ تین چار صَدیوں پہلے تک کا یہ قلمی سرائیکی عِلمی اَدبی سرمایہ آج بھی ضلع ملتان کے بعض گھرانوں یا مندرجہ ذیل کے پاس نہ صرف مَوجود و محفوظ ہے بلکہ ایک زمانہ اِستفادہ بھی کر رہا ہے:
۱۔ سَردار جھنڈیر لائبریری موضع جھنڈیر تحصیل میلسی ضلع وہاڑی، اِس لائبریری کے مہتمم صاحبان علم پَروَر اور دوسروں تک فیض پہنچانے والے لوگ ہیں۔ 
۲۔ حکیم اَللہ بخش المعروف علامہ اَسد نظامی چک  14-10R نزد جہانیاں۔ 
۳۔ جناب حبیبؔ فائق سرپرست اِدارہ فروغِ سرائیکی و پنجابی، ملتان۔ 
۴۔ پبلک لائبریری باغ لانگے خان ملتان، وغیرہ علاوہ اَزیں بہاولپور، ڈیرہ غازیخان یا جھنگ اور ملک بھر کی دیگر لائبریریوں میں خصوصاً سیٹھ عُبیدالرحمٰن صاحب کی بہاولپور، شاہین کہروڑی (لودھراں)، کی ذاتی لائبریری میں بھی سرائیکی اَدب کا بَچا کُھچا سَرمایہ موجود ہے۔ 
سرائیکی زبان کی وُسعت کا کمال دیکھیں کہ اِس میں مُلحقہ علاقائی لہجے بدلنے کی صلاحیّت بدرجہ اتم موجود ہے اِس ضمن میں یہ جان لینا اَز بس ضروری ہے کہ مختلف علاقوں کی آب و ہَوا، اور بَسنے والے لوگوں کی بُود و باش کے باعث محض لہجے میں علاقائی تبدیلی واقع ہوتی ہے جس سے سرائیکی زبان کا لہجہ بنتا سَنورتا ہے۔ یہ عوامی رَدِّ عمل ہے جو صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ اِس ضمن میں راقم کی ایک رُباعی سرائیکی زبان میں ملاحظہ فرمائیں جو سرائیکی زبان کے مختلف علاقائی لہجوں کی تشریح کے طور پر لِکّھی گئی ہے:
لہجے وَکھرے وَکھرِنْ یار، زُبان سَرائیکی ہِکْ ہِے
ٻِنّھاں ٻولیاں آلیاں کُوں اِیں ٻولی دِی سِکْ ہِے
مُلتانیؔ، ڈیرویؔ لہجہ ہُووِے، ریاستی ٻھانویں ڄھنڳوی
مِٹھڑی ٻولی ہِے سرائیکی سَب کُوں پوندی چِھک ہِے
تو ثابت ہُوا کہ سرائیکی زبان سے مُراد تمام علاقائی لہجے ہیں اور مختلف علاقوں کے دانشور اور محقق بغیر کسی احساسِ کمتری کے  اپنی مادری زبان و لہجہ کو فروغ دے رہے ہیں اور رسم الخط بھی (سرائیکی لکھنے کے لیے) کم از کم پاکستان میں وجہِ نزع نہیں ہے مقصد تحریر کرنا ہوتا ہے، کسی بھی زبان کی ایسی تحریر جو پڑھنے والوں کے لیے باعثِ ابلاغ ثابت ہو۔ یوں اس قرآن پاک کا ترجمہ سرائیکی زبان کے بہاولپوری (ریاستی) لہجے کی نمائندہ کرتا ہے۔ قبل ازیں خواجہ عُبید اللہ ملتانیؒ نے ۱۲۴۰ ہجری میں قرآنِ پاک کا سرائیکی ترجمہ کیا تھا جو قلمی نسخہ کی صورت میں موجود تھا، اسی طرح قدیر آباد ملتان ہی کے مولانا عبدالتّوابؒ نے ۱۲۷۰ ہجری میں مکمل ترجمہ کیا یہ بھی قلمی نسخہ بنا جبکہ اوّل و آخر دو پارے طبع بھی ہوئے، مولانا دُرّ محمد صاحب تونسویؒ خلیفہ حضرت خواجہ محمد شاہ سلیمان تونسویؒ نے ۱۲۶۵ہجری میں سورۃ یٰسینٓ، سورۃ الرحمٰن، سورۃ یوسف، سورۃ ملک اور سورۃ کہف کے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک کے آخری پارہ کا بھی سرائیکی ترجمہ کیا جو موجودہ کُتب خانہ سلیمانیہ تونسہ شریف میں موجود ہے۔ 
حبیبؔ فائق صاحب کے بقول نواز کاوِش کے حوالہ سے ایک سو سالہ مطبوعہ قدیم نسخہ پُرانی سرائیکی جِسے انگریز شاہپوری زبان کہتے تھے دیکھا گیا ہے۔ اِسی طرح مولوی حفیظ الرحمٰن بہاولپوری کا سرائیکی ترجمہ والا بڑی تقطیع کا مطبوعہ قرآن پاک بھی قابلِ دید ہے جو کہ سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب کے ہاں دیکھا جا سکتا ہے، پھر ملتان میں ڈاکٹر مہر عبدالحق سومرہ نے قرآن پاک کا مکمل سرائیکی ترجمہ کیا جو ۱۴۰۴ہجری میں پاکستان قومی ہجرہ کونسل (اِسلام آباد) کے مالی تعاون سے سرائیکی اَدبی بورڈ ملتان کی سعی سے شائع ہُوا۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق نے اغلاط نامہ مُرتّب کر کے مدرسہ انوار العلوم  کی انتظامیہ کے (قرآنی نسخوں سمیت) سپرد کیا کہ وہ یہ اَغلاط نامہ شائع کرا کے شائقین کو قرآن پاک کے ہمراہ دیا کریں۔ 
ایک اور اَلمیہ:
اَب سرائیکی خِطّے کے لوگوں کے لیے ایک المیہ یہ ہے کہ جن بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام نے دینی حوالہ سے سرائیکی زبان و اَدب کی خدمت میں اپنی عُمریں بِتائیں، قلمی کتابوں کی صورت میں عِلم محفوظ کیا اُن کے وَارثان نے اُس اَدب کو تو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا، بس خانقاہوں کی کَھٹّی کھارہے ہیں، حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ آج معروف خانقاہوں سے ملحق عظیم الشان قسم کی لائبریریاں اور دارالمطالعے قائم ہوتے، صرف خانقاہ عُبیدیہؔ قدیر آباد ملتان سے ملحقہ قدیمی مسجد میں سرائیکی زبان میں روایتی خُطبہ جمعہ و عیدین پر ہوتا ہے جِسے مستحسن تقلید کہا جاتا ہے۔ 
سرائیکی اَدب کی ترقی میں خوش کُن مَرحلہ:
پاکستان بن جانے کے بعد کُچھ آزادی اور سکون اِس خِطّے کو نصیب ہو گیا تو جب سے ایک نئے وَلولے، شوق اور اپنی دھرتی اور مادری زبان کو کچھ لَوٹا دینے کے جذبے سے سَرشار باہِمّت لوگ اپنے اَدب اَپنی لِسّانیات، اِس کی گرائمر کے اُن خُشک سوتوں کو پھر سے زندہ کرنے کا عزم لے کر میدانِ عمل میں آئے، اپنے کلچر اَپنی زبان اور سرائیکی اَدب کے لیے نئے سِرے سے تَدوین و تحقیق کا کام کیا۔ بہت سے لوگ اَپنا یہ فرضِ منصبی پُورا کرتے کرتے اَپنی طبعی عمر پوری ہونے کے بعد اِس جہانِ فانی سے کُوچ کر گئے اِن میں جناب ریاض اَنور، ڈاکٹر مہر عبدالحق، صابرؔ ملتانی، عاشق حسین حسینی، بشیر حسین ظامی، علامہ عتیق فِکری، مولانا نور احمد خان فریدی، پروفیسر علامہ دِلشاد کلانچوی، حَسن رَضا گردیزی، اور دیگر کئی اَصحاب کے اَسماءِ گرامی قابلِ ذِکر ہیں اور اَب بھی بے شمار لوگ یہ فریضہ اَدا کر کے اپنی ہِمّت و اِستطاعت کا اِظہار کر رہے ہیں۔ 
سَرائیکی زُبان و اَدب کے شائقین کی توّجہ کے لیے:
پاکستان بننے کے بعد سرائیکی اَدب پر بطورِ خاص ملتان میں جو کام ہوا وہ ریاستی اور ڈیروی لہجوں میں ہُوا شاید اس لیے کہ کام کرنے والے زیادہ تر سرائیکی اَدیبوں کا تعلّق انہیں علاقوں میں سے تھا۔ فی زمانہ ملتان، بہاولپور میں جو سرائیکی بولی یا لکھی جاتی ہے یہ بہت آسان ہے اور تحریر کے حوالہ سے اختصار کی بھی حامل ہے اِس لیے ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سَرائیکی کے مذکورہ لہجوں میں اَدبی کام کو فروغ دیا جائے سرائیکی لسانیات و اَدب سے وابستہ اَفراد بھی دُنیا بَھر میں سکونت پذیر ہیں انہیں بھی اپنی مادری زبان کی اہمیّت و اَفادیّت کا اِحساس کر کے اس زبان کے فروغ کا فریضہ اَنجام دینا چاہیے۔ دَورِ جدید میں دُنیا شعور کے حوالے سے سمٹ کر ایک نقطے پر مُرتکز ہو گئی ہے ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے دُنیا بھر میں بِکھرے  سرائیکی لوگوں کو اَپنی مادری زبان میں اِنٹرنیشنل چینلز پر بھی پروگرام جاری کرنے چاہئیں۔ 
سرائیکی زبان ہماری تہذیبی، دینی اقدار، قومی روایات اور شناخت کا قیمتی اَثاثہ ہے۔ اِسے بین الاقوامی سطح پر بھی رُوشناس کرانا وقت کا اہم تقاضا ہے اور اِس ضمن میں، کسی بھی معاشرے میں اِنسانی و معاشرتی اقدار، صَداقتوں، محبّتوں کی تلاش اور زندگی کی معنویّت کی مشعل کو روشن رکھنا دانشوروں کا فریضہ ہے۔ اور اَپنا یہ فریضہ پوری ذِمّہ داری کے ساتھ جناب پروفیسر دِلشاد کلانچویؒ نے زیرِ نظر قرآن شریف کے ترجمہ کی صورت میں اَدا کر کے ذخیرۂ آخرت بھی بنا لیا ہے۔ قرآنِ پاک مخزنِ علم ہے ہر بندہ تو اِس کی تلاوت کا حق بھی اَدا نہیں کر سکتا چَہ جائے کہ اِس کا پُورا ترجمہ کیا جائے، ایسا عظیم کام بتوفیقِ اِیزدی ہی سر اَنجام ہوسکتا ہے۔ 
اِیں سعادت بَزورِ بازُو نیست
تانہ   بخشد   خُدائے   بخشندہ!
میٹھی سَرائیکی زُبان پَڑھنے کا آسان کُلّیہ:
سرائیکی زبان پڑھنے اور لِکھنے کا شوق رکھنے والوں کے لیے کئی بُنیادی قاعدے قبل اَزیں تالیف ہو چکے ہیں جو مفید و مَددگار ثابت ہو رہے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک شاید وہ اُلجھا دینے والا عَمل بَن کر رَہ گئے ہیں۔ سہل نگاری کے شائقین کی خاطر اِس مضمون میں مختصراً سرائیکی پڑھنے کا آسان کُلّیہ پیش کر رہا ہوں جو لِکھنے والوں کے لیے بھی مفید و معاون ثابت ہوگا۔ اِس کلیّہ کو یاد کر لینے والا ہر وہ شخص جو اُردو یا پنجابی پڑھ سکتا ہو بہت جلد وہ صحیح تلفّظ میں سرائیکی پڑھ لِکھ سکے گا۔ اِنشاء اللہ!
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اُردو قاعدے میں جتنے مفرد حروف یا مُرکّب الفاظ ہیں وہی تمام کے تمام سرائیکی میں بھی اِستعمال ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی یاد رہے کہ کسی بھی زبان کا لہجہ اختیار کرنے کے لیے چند ضروری باتیں توّجہ طلب ہوتی ہیں جو کہ سرائیکی کے لیے بھی ہیں۔ ‘‘اَلف’’ سے لے کر ‘‘ی’’ تک جِتنے حروف اُردو والے ہیں اِن میں سے صرف پانچ حروف ایسے ہیں جن کو پڑھتے وقت زبان کو نرمی کے ساتھ مُنہ ڈِھیلا کر کے اِستعمال کرنا ہوتا ہے اُن مخصوص حروف کی نشانی یہ ہے کہ اُن کے نیچے یا اُوپر ایک اِضافی نقطہ لگایا جاتا ہے (محض پڑھنے والوں کی یاد دہانی کے لیے) یہ نقطہ عمُودی طور پر لکھا جاتا ہے۔ وہ مذکورہ حروف یہ ہیں:
‘‘ٻ’’    ۔    ‘‘ڄ’’    ۔    ‘‘ݙ’’    ۔    ‘‘ڳ’’ اور پانچواں حَرف ہے ‘‘نون’’ جِس کے اُوپر ایک اِضافی ‘‘ط’’ لِکھا جاتا ہے وہ اِس طرح  ‘‘ݨ’’ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اُوپر والے چار حروف کو جو اِضافی نقطے کے ساتھ لِکّھے گئے ہیں، کو نرم زبانی سے پڑھنا ہے جبکہ اِس اِضافی ‘‘ط’’ والے ‘‘نُون’’ کو غُنّہ کر کے ‘‘ڑ’’ کی آواز میں پڑھنا ہے، جیسے ‘‘چَکّھݨ، رووَݨ، کَھاوَݨ، پِیوَݨ’’ والے لفظوں میں صَوتی اَثر پیدا ہوتا ہے۔ 
سَرائیکی تحریر پڑھنے کے لیے اِسی بُنیادی کُلیئے کو یاد کر لینے کے بعد چند مزید درج ذیل باتوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ (ہمزہ) ‘‘ء’’ الف کے ہی صَوتی اَثر کے طور پر لِکھا جاتا ہے مثلاً ‘‘ءِچ’’ یا ‘‘اِچ’’ دونوں کا معنیٰ ایک ہی بنتا ہے یعنی ‘‘بِیچ’’۔ 
ایک اور لفظہ ہے ‘‘کیا ڳال ہِے’’ کے آخر میں پُورا ‘‘ہِے’’ لِکھنے کی بجائے اِختصار  سے کام لیتے ہوئے صِرف ‘‘ھِ’’ بِھی لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تحریر کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اِس کو کِس اَنداز میں لِکھے۔ یہ بھی وُسعتِ زبان کا ایک خاصّہ ہِے کیونکہ اِس ایک حرف ‘‘ھِ’’ کو نیچے زیر لَگا دینے سے ہی مُدعائے کلام پُورا ہوجاتا ہے۔ 
ایک اور لفظ اُردو عبارت میں ہے ‘‘تاکہ’’ اس کی جگہ سرائیکی میں لفظ ‘‘تاں ڄو’’ ہے۔ اِسی طرح ‘‘لیکن’’ کی جگہ سَرائیکی میں لفظ ‘‘پَر’’ اور ‘‘جبکہ’’ کی جگہ ‘‘ڄَݙاں ڄو’’ اور ‘‘کیونکہ’’ کا متبادل ہِے کِیُوں ڄو’’۔ 
کسی بھی سرائیکی تحریر میں اِن اَلفاظ کا اِستعمال زیادہ تر لکھنے میں آتا ہے۔ لہٰذا سرائیکی پڑھنے والے حضرات اِن لفظوں کی تکرار سے پریشان نہ ہوں بلکہ ان کی ضرورتِ لفظی کو جان لیں۔ 
آئیے ایک وضاحت یہ بھی کرتے چلیں کہ بعض مفکّرینِ سَرائیکی لِسّانیات و گرائمر نے تحریر کرتے وقت مذکورہ حروف کے نیچے ایک کی بجائے بعض متذکرہ حروف پر نشاندہی کی غرض سے دو (۲) اِضافی نقطے بھی لگانے کے عمل کو رِواج دیا ہے جیسے ‘‘ڳ’’ اور بعض نے اِن دو حروف ‘‘ڈ’’ اور ‘‘گ’’ پر اُوپر کی طرف نشاندہی کے لیے اِضافی نقطہ لگانے کو رواج دیا ہے اور جناب پروفیسر دِلشاد کلانچوی اِس کے عامِل تھے۔ یہ سب اِس لیے دُرست ہے کہ یہ ایک ضمنی ترمیم ہے کوئی بنیادی اِختلافِ تحریر نہیں۔ مقصد محض وہی ہے کہ ان حروف کو ایک یا دو اِضافی نقطوں کی نشاندہی کر کے بتلانا یہی مقصود ہے کہ اِن مخصوص صَوتی اَثر والے سَرائیکی لفظوں کو نرم زبان سے اَدا کیا جائے۔ نقطوں کے معاملے کو اِسی ہدایت میں ذہن نشین کر لیا جائے اور پوری روانی کے ساتھ سَرائیکی زبان پڑھنے کا لطف اُٹھایا جائے۔ 
سرائیکی زُبان کی فَصاحت و بَلاغت:
سرائیکی زُبان کی ایک اہمیّت یہ بھی ہے کہ عربی زبان کی طرح یہ بڑی فصیح و بلیغ زبان ہے۔ جس طرح عربی زبان میں زَبر، زیر، پیش کے فرق پر بعض لفظوں میں صیغہ اور بعض میں معنیٰ تک بدل جاتا ہے، سرائیکی زبان کا معاملہ بھی کچھ اِسی طرح کا ہے، ایک لفظ جو مذکّر کے لیے اِستعمال ہوتا ہے وہ مؤنث کے لیے بھی، اِس کی مثال کے لیے یہ چند لفظ دیکھئے: ‘‘کُکُڑ’’ بمعنیٰ مُرغا کے ہے تو ‘‘کُکِّڑ’’ مُرغی، اِسی طرح ‘‘چُھوہَر’’ (لڑکا) تو ‘‘چُھوہِر’’ (لڑکی) اور اَب دیکھیے اِن اَعراب کے نیچے یا اُوپر ہو جانے کی صورت میں لفظ کا معنیٰ کیسے بَدلتا ہے: ایک سرائیکی لفظ ہے ‘‘ٻَولی’’ (گائے بھینس کا پہلا ناڑہ) اور اگر اِسی ‘‘ٻ’’ پر پیش لگ جائے تو یَکسر معنیٰ بَدل جاتا ہے وہ یُوں: ‘‘ٻُولی’’ (اِس سے مُراد قمیض کا کَف ہے)، ایک اور لفظ دیکھئے جیسے ‘‘کِھلّݨ’’ بمعنیٰ مُسکرانے کے ہے تو ‘‘کُھلّݨ’’ بمعنیٰ دروازہ یا کسی چیز کے کُھلنے کے زُمرے میں آتا ہے۔ ایک اور مثال دیکھئے: لفظ ہے ‘‘پَھٹَّݨ’’ (پَھٹ جانے سے مُراد) اَب اِسی لفظ کے نیچے زیر لگا دیں تو بن جائے گا ‘‘پِھٹّݨ’’ (ناراض ہونے کی کیفیت) اور اَب اِسی لفظ پر پیش لگا دیں تو بَن جائے گا ‘‘پُھٹَّݨ’’ (یعنی بھاگ جانا)۔ 
ایک اور سرائیکی لفظ لیجئے ‘‘کُوڑ’’ (اِس کا معنیٰ ہے جھوٹ) اَب اِسی لفظ پر پیش کی بجائے زبر لگا دیں تو بنے گا ‘‘کَوڑ’’ (یعنی کَڑوَاہٹ) ایسی سینکڑوں مثالیں بھی ہیں۔ اِن چَند مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عربی زبان کی طرح سرائیکی تحریر میں بھی جو زیر، زَبر، پیش لکھا گیا ہو اُسے خصوصی توّجہ سے پڑھنا لازم ہے تبھی سرائیکی یا پنجابی زبان کے صحیح لفظ اَدا ہو پائیں گے۔ 
پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے ایک اور اہم بات بتلا دوں جو کہ بڑی قابلِ غور ہے۔ آپ نے اکثر احباب کو یہ کہتے ہوئے سُنا ہوگا کہ ‘‘سرائیکی ایک میٹھی زبان ہے’’ تو کبھی کسی نے اِس اَمر پر غور کیا کہ اِس میں مِٹھاس کِس  شکر (چینی) سے آئی ہے؟
  اِس ضمن میں یہ واضح کر دینا از بس ضروری ہے کہ ہم نے اپنے اِس مضمون میں جن اضافی نقطوں والے حروف کا ذِکر کیا ہے کہ ان کا صَوتی اَثر بدلنے کے لیے انہیں جس نَرم خُوئی سے اَدا کرنا ہوتا ہے زبان کی وہی لوچ ہی مٹھاس کا درجہ رکھتی ہے، چونکہ زبان سے لفظوں کی ادائیگی میں سختائی ختم ہوجاتی ہے نتیجتاً سرائیکی زبان بولنے میں ایک مٹھاس سی پیدا ہوجاتی ہے جو سُننے والوں کی سماعت میں رَس گھولتی ہے، اِسی لیے نہ صرف یہ جملہ عرفِ عام میں کہا جاتا ہے بلکہ اس کُلّیئے کی بِناء پر حقیقتاً یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ واقعی سرائیکی ایک میٹھی زبان ہے۔ تو لیجئے اِس ضمن میں راقم کا ایک سَرائیکی شعر پڑھ لیجئے:
ڄیکُوں سُݨ تے اُکھڑی نِندر کُوں آندی ہِے پَئی لولِی
لارَیب ہِے اُو خَواجہ سَئیںؒ دی مِٹھڑی سَرائیکی ٻولی
سرائیکی زبان میں تشبیہات اور اِستعارات کی چاشنی، خیالات کی خوشبو، کلاسیکل رِدَم، نَرم خُوئی کے باعث کانوں میں رَس گھولتی شیرینی، الفاظ و معانی کی وُسعت اور فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر موجزن ہے۔ لیکن جب ہم احساسِ کمتری یا روایتی بے توجّہی کے باعث اَپنی مادری زبان کو اپنے بچوں کے ساتھ گریز کی پالیسی اَپنائیں گے تو اپنی آنیوالی نسلوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم کریں گے۔ 
حضرت سلطان باہوؒ کا صوفیانہ کلام فیض مدام سرائیکی زبان کے جھنگوی لہجے کا بے مثل شاہکار ہے۔ اِسی طرح حضرت بابا فرید شکر گنجؒ کا کلام سرائیکی کے پنجابی لہجے کا، تو تاجدارِ سرائیکی حضرت خواجہ غلام فریدؒ (کوٹ مٹھن) کا عارفانہ کلام جو کہ ‘‘دیوانِ فرید’’ کی صورت میں یکجا کیا گیا ہے سَرائیکی زبان کے ملتانی، ڈیروی اور ریاستی (بہاولپوری) لہجوں  کے اِشتراک کا عظیم شاہکار ہے جو کہ سَرائیکی زبان کی صورت میں یَکجا کیا گیا ہے سَرائیکی زبان کے ملتانی، ڈیروی اور ریاستی (بہاولپوری) لہجوں کے اشتراک کا عظیم شاہکار ہے جو کہ سرائیکی زبان کی اصل معراج ہے یہ بات اَغلب ہے کہ خواجہ صاحب کے کلام میں سرائیکی کا قدیم ملتانی لہجہ غالب ہے جبکہ ان کے استعارے سابق ریاست بہاولپور کے خطہ روہی، تھل وغیرہ کے معروف و مذکور ہیں۔ 
زیرِ مطالعہ قرآن پاک ہٰذا کا سرائیکی ترجمہ بہاولپوری (ریاستی) لہجہ کی سرائیکی کا نمائندہ ہے جو کہ نہایت سہل اور سَادہ انداز کا بھی حامل ہے۔ پروفیسر دِلشاد کلانچوی (مرحوم) نے حَتُی الاِمکان ترجمے کا حق اَدا کرنے کی اپنے تئیں پُوری کوشش کی ہے۔، مترجم کی سرائیکی زبان و اَدب سے والہانہ محبت یہ بات ثابت کرتی ہے کہ انہوں نے متذکرہ بالا صُوفیاءِ کرام کے رُوحانی تصّرف کو اپنے وِجدان کے ذریعے آشکار کیا ہے، اور تمام پاکیزہ جذبوں کو یکجا کر کے  کلامُ اللہ کے ترجمے کا فریضہ سر اَنجام دیا ہے۔ جو طریقہ راقم نے قبل ازیں لکھ دیا ہے اگر اُسے پیشِ نظر رَکھ کر پڑھیں تو مجھے یقینِ کامل ہے کہ ہر خواندہ شخص اس ترجمے کو بآسانی پڑھ کر قرآنِ کریم کے مفہوم و مطالب کو سمجھ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک پڑھنے اور اسے صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق و استطاعت نصیب فرمائے۔ (آمین ثُمَّ آمین)۔ 
تحریر: ابنِ کلیم احسنؔ نظامی (مرحوم)، (پبلشر قرآن پاک۔ ۵ جنوری ۲۰۰۰ء)