Friday, 20 April 2012

بانی مجلس فروغِ اردو ادب قطر و شائقینِ فن دوحہ ملک مصیب الرحمٰن کی چھٹی برسی پر دعائیہ تقریب


بانی مجلس فروغِ اردو ادب قطر  و  شائقینِ فن دوحہ  ملک مصیب الرحمٰن کی چھٹی برسی پر دعائیہ تقریب

تحریر: شوکت علی نازؔ۔قطر
 دوحہ کی معروف علمی وادبی شخصیت ملک مصیب الرحمٰن ابن الحبیب احقر ؔکی چھٹی برسی پر ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام شائقینِ فن دوحہ کے جنرل سیکرٹری جاوید ہمایوں کی رہائش گاہ پرجمعہ ۲ اپریل کی شب کیا گیا، جس میںپاکستانی کمیونٹی کی کثیر تعداد نے شرکت کی،  ملک مصیب الرحمٰن کے دیرینہ ساتھی مجلس فروغِ اردو ادب کے چیئرمین محمد عتیق نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے سلسلے میں کی گئیں ملک مصیب الرحمٰن کی کاوشوں کوسراہا اورکہا کہ ۲ اپریل ۶۰۰۲ کو مصیب کی وفات کے بعد جو ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آپڑی تھی انہوں اسے نبھانے اور اس معیار کو قائم رکھنے کی پوری پوری کوشش کی، انہوںنے یومِ پاکستان کے سلسلے میں ۷۲  اپریل کو پاکستان ایمبیسی آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے کثیر اللسانی مشاعرہ کے انعقاد کا بھی اعلان کیا اورکہا کہ سولہویں عالمی فروغِ اردو ادب ایوارڈونرزکے سلسلے کی جیوری میٹنگز جلدنئی دہلی اور لاہور میں ہونگی۔سید قنبر حسن نے ملک مصیب الرحمٰن کی بخشش، مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دعا فرمائی جبکہ علی گیلانی نے ایک نہایت خوبصورت نعت پیش کی،فرتاش سید نے دورانِ نظامت مصیب الرحمٰن کے ساتھ گزارے ہوئے دنوں کو یاد کیا۔تقریب کے نمایاں شرکاء میں سینئرپاکستانی محمد زمان خان،قاضی محمد اصغر، عدیل اکبر،اجمل چوہدری، محمد تنویر،ارشد ترین،لیاقت ملک
 انعام الرحیم ،ندیم محفوظ،شوکت علی نازؔ،سید فہیم الدین اورقیصر مسعود شامل تھے

شوکت علی ناز، (دوحہ) قطر
سورج
کیوں روز سنا جاتا ہے نوحہ کوئی سورج
اک دن تو سنا دے ہمیں نغمہ کوئی سورج
خود اپنا اٹھاتا ہے جنازہ کوئی سورج
کچھ کاندھوں پہ رکھ دیتا ہے لاشہ کوئی سورج
گفتار میں ہے صورتِ شعلہ کوئی سورج
اور رکھتا ہے شیریں لب و لہجہ کوئی سورج
ہر صبح کو مل لیتا ہے غازہ کوئی سورج
ہر شام بدلتا ہے لبادہ کوئی سورج
یہ شوخ لباسی ہمیں اچھی نہیں لگتی
ہم کو تو فقط چاہیے سادہ کوئی سورج
پھر آئے گا ، ابھرے گا کل اک شانِ نوی سی
ڈوبا ہے مجھے کرکے اشارہ کوئی سورج
اِس رات کی ظلمت میں تو دم گھٹنے لگا ہی
نازؔ آئے دکھا جائے کرشمہ کوئی سورج
شوکت علی نازؔ  ۔  دوحہ ۔قطر

شٹ اپ کال!


شٹ اپ کال!
مغربی میڈیا نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر جناب سلمان تاثیرؔ کے ایک مذہبی جنونی سرکاری ’’محافظ‘‘ کے ہاتھوں قتل پر پُر مغز تبصرہ کرتے ہوئی، اس سانحہ کو پاکستانی معاشرہ پر مذہبی شدت پسندوں کی گرفت مضبوط ترہونے کی علامت قرار دیتے ہوئے روشن خیال طبقے کیلئے کھلی ’’شٹ اپ کال‘‘ قرار دیا تھا۔ معروف ادبی شخصیت و ماہر تعلیم ڈاکٹر ایم ڈی تاثیرؔکے ہونہار فرزندسلمان تاثیرؔ کا جُرم یہ تھا کہ ُاس نے انسانی ہاتھوں سے بنے توہین رسالت کے قانون 295-C کو سالہا سال سے بے گناہوں کے استحصال کیلئے غلط استعمال کئے جانے کے باعث’کالا قانون‘ قرار دے کر اس میں ضروری تبدیلی کی بات کی تھی تا کہ اسے انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے ۔
توہین رسالت‘ کے نام سے بنایا گیا یہ قانون ہماری تاریخ کے منافق ترین جرنیل ضیاء الحق کے زمانے سے آئین کا حصہ چلا آرہا ہے لیکن شایدآج تک اس کے تحت توہین رسالت کے کسی ’’مُجرم‘‘ کو قانون میں درج موت کی سزا تونہیں دی جاسکی البتہ یہ کمزور اقلیتوں کو ڈرانے دھمکانے یا پھرمذہبی بنیاد پر Exploitationکی غرض سے خوب استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

ملک شام (Syria)


ملک شام
7اپریل:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر
تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
         بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع سرزمین شام عرب کی تاریخ میں اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتی ہی۔اسکے شمال میں ترکی ہی،مشرق اور جنوب مشرق میں سلطنت عراق ہی،جنوب میں اردن ہے اور جنوب مغرب میں لبنان اور اسرائیل کی ریاستیں قائم ہیں۔ملک شام کا کل رقبہ ساڑھے اکہتر ہزار مربع میل ہی،اس رقبہ میں جولان کی وہ پہاڑیاں بھی شامل ہیں جن پر 1967ء سے اسرائیل کی ناجائز ریاست نے قبضہ کیاہواہی۔دمشق جیسا قدیم تہذیب کاحامل شہر اس ملک کا دارالحکومت ہی،یہ  اس ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی ،تعلیمی اور ثقافتی مرکز بھی ہی۔ملک شام کی سرزمین پہاڑوں اوروسیع صحراؤں کامجموعہ ہی،علوم جغرافیہ والے اسکے صحرا کو ’’صحرائے شام‘‘بھی کہتے ہیں۔ترکی سے شروع ہونے والاایک دریا ملک شام میں داخل ہوتا ہے جو یہاں کے لیے قدرتی پانی کا واحد بڑا ذریعہ ہی،973میں حکومت نے اس دریاپر بندباندھ کر ’’اسدجھیل‘‘کے نام سے پانی کاایک بہت بڑا ذخیرہ بنالیاجسے اب متعدد مقاصد کے لیے استعمال کیاجاتاہی۔پہاڑی علاقوں میں چھوڑی بڑی قدرتی جھیلیں بھی موجود ہیں جوعلاقے کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔یہاں کا موسم خشک اورگرم ہی،پہاڑی علاقوں کی چوٹیوں پر کبھی کبھی برف باری بھی ہوتی ہے لیکن بہت کم،بارشوں کی سالانہ اوسط بھی تیس سے چالیس انچ سالانہ سے زیادہ نہیں۔ سال میں ایک دو دفعہ ریت کے ایسے طوفان بھی اٹھتے ہیں کہ آسمان سیاہ ہوجاتاہی۔962میں یہاں تیل دریافت ہوا جس کے بعد سے اب تک تیل ہی ملک شام کی سب سے نقد آور صنعت ہی۔

اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جانے کی سزا


بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حدارتداد
اسلام سے کفر کی طرف لوٹ جانے کی سزا
تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
          دین اسلام قبول کرنا اور پھر روگردانی کرتے ہوئے کفر کی طرف لوٹ جانا ’’ارتدادکہلاتاہی۔جو مسلمان ہواور پھر اﷲ تعالی کی توحید یا ختم نبوت کا انکارکردے یا دیگر ان اسلامی شعائر سے قولی و عملی واعلانیہ روگردانی کرے جواسلامی عقائدو احکامات ومحرمات کاجزولاینفک ہیں،ایسے شخص کو شریعت اسلامیہ میں ’’مرتد‘‘کہاجائے گا۔اسلام نے مذہبی آزادی کی ضمانت دی ہے لیکن عقائد اسلامیہ کے ساتھ مذاق و استہزاکی اجازت نہیں دی۔گزشتہ اقوام جنہیں عدالت خداوندی سے بالکلیہ عذاب کافیصلہ سنایاگیااورآج بھی ان کی باقیات گواہ ہیں کہ انہیں اس کرہ ارض سے نیست و نابود کردیاگیاان سب کاایک مشترکہ جرم یہ بھی تھاکہ وہ انبیاء علیھم السلام کے ساتھ اور ان کی پیش کردہ تعلیمات کے ساتھ مذاق و استہزا کیا کرتے تھی،اور اﷲ تعالی کی سنت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔اسلامی ریاست کے اندر جوبھی شخص مسلمان ہوتاہے وہ دراصل مسلمان فوج میں شمولیت اختیارکرلیتاہی،اس لیے کہ جس طرح کہاگیا کتب علیکم الصیام (تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں۔)اسی طرح قرآن مجید میں اﷲ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کتب علیکم القتال(تم پر لڑنافرض کردیاگیاہی)۔اسلامی ریاست کا فوجی بننے کے بعد دشمن سے ملنے پریعنی مرتدہوجانے پراس سپاہی کے ساتھ بھی وہی سلوک کیاجاتاہے جوپوری دنیاکی ریاستیں اور افواج کل انسانی تاریخ میںاپنے باغیوں کے ساتھ کرتی ہیں۔اسلامی قوانین میں ایسے شخص کی جان ومال وعزت و آبروکا بھرپورتحفظ ہے جو اسلامی ریاست میں غیرمسلم بن کررہتاہے لیکن مسلمان بن کرگویااسلامی ریاست کے دفاعی و حساس نوعیت کے رازوں سے آگاہی حاصل کرکے پھر کفرکی طرف لوٹ جانے والے یعنی دشمن سے مل جانے والے کے لیے اسلامی شرعی و فقہی قوانین میں کوئی رعایت موجود نہیں ہی۔

Apostasy


In the Name of Allah the Almighty
Apostasy
(irtidad)
Dr Sajid Khakwani

Freedom of religion under Islam would imply that non-Muslims are not compelled to convert to Islam, nor are they hindered from practicing their own religious rites. Apostasy (irtidad) is the act of turning away from Islam having accepted it.  This involves the rejection of oneness of Allah the Almighty and finalization of the prophet hood at Muhammad (peace upon him) and the essentials beliefs of Islam. One who accepts Islam actually joins Muslim Army, because Qital, Armed Fight is as obligatory for every Muslim man and woman as prayer of five times  and fasting of Ramzan. After acceptance of Islam when one decided to leave Islam and join Non-Muslims, Surely it is a disloyalty to Muslim state by a soldier who has a lot of strategic secrets of Islamic Country. Apostasy of an individual makes all the population unsecured and creates a strategic risks for state. 

مجھے ہے حکم اذاں


اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
’’روی شنکر‘‘نام کے ایک بھارتی مذہبی رہنما نے مارچ 2012ء پاکستان کا دوسری مرتبہ دورہ کیا اور لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ وقت گزارا اور انہیں اپنے مذہب و عقیدے کی تعلیمات سے آگاہ کیا۔’’طریق حیات‘‘RT OF LIVING(AOL)کے نام سے انہوں نے پاکستان میں ایک تنظیم بھی بنائی اور تینوں شہروں میں اس تنظیم کے مراکزکااافتتاح بھی کیا۔اس تنظیم کے بظاہر مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فاصلے کم کیے جائیں۔ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے پاکستان کی نوجوان نسل کو اپنا خاص مرکز توجہ بنانے کاعندیہ بھی دیا۔اس انٹرویوکے دوران جب ان سے پوچھاگیاکہ بھارت نے پاکستان کے پانیوں کوکیونکرروک رکھنے کاپروگرام بنایاہواہے توانہوں نے کہا کہ بھارت چونکہ ایک انسان دوست ملک ہے اس لیے وہ ایسا نہیں کرے گا،ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہندؤں کے ہاں بھی ایک ہی خدا کی پوجاوپرستش کی جاتی ہی۔جب ان سے دریافت کیاگیاکہ وہ پاکستان کس کے بلانے پر آئے ہیں تو انہوں نے چند غیر حکومتی تنظیموں(GOs)کے حوالے سے کہاکہ ان تنظیموں نے انہیں مدعو کیاہے اورحکومت نے انہیں تحفظ فراہم کیاہے جس کے باعث وہ عوام میں بھی نکل سکے ہیں جب کہ اس پہلے 2004ء میں وہ حکومتی تحفظ نہ ہونے کے باعث ہوٹلوں تک ہی محدود رہی۔انہیں انتہاپسندی،شر،مذہبی پُر تشدد رویہ اورنفرت کے رویے پاکستان میں نظر آئے ہیں اس لیے یہاں کے لوگوں کی زندگی میں پیار بھرنے کے لیے وہ بھارت سے یہاں پرآئے ہیں۔اس تین روزہ دورے میں انہوں نے بہت سے پروگراموں میں نوجوانوں کے کئی گروہوں سے ’’مفید بات چیت‘‘ کی ہے۔