اگرچہ بت
ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے
حکم اذاں لا الہ الا اللہ
تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
’’روی شنکر‘‘نام کے ایک بھارتی مذہبی رہنما نے مارچ 2012ء
پاکستان کا دوسری مرتبہ دورہ کیا اور لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں اپنے چاہنے والوں
کے ساتھ وقت گزارا اور انہیں اپنے مذہب و عقیدے کی تعلیمات سے آگاہ کیا۔’’طریق حیات‘‘RT
OF LIVING(AOL)کے
نام سے انہوں نے پاکستان میں ایک تنظیم بھی بنائی اور تینوں شہروں میں اس تنظیم کے
مراکزکااافتتاح بھی کیا۔اس تنظیم کے بظاہر مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان
اور بھارت کے درمیان فاصلے کم کیے جائیں۔ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے پاکستان کی
نوجوان نسل کو اپنا خاص مرکز توجہ بنانے کاعندیہ بھی دیا۔اس انٹرویوکے دوران جب ان
سے پوچھاگیاکہ بھارت نے پاکستان کے پانیوں کوکیونکرروک رکھنے کاپروگرام بنایاہواہے
توانہوں نے کہا کہ بھارت چونکہ ایک انسان دوست ملک ہے اس لیے وہ ایسا نہیں کرے گا،ایک
اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہندؤں کے ہاں بھی ایک ہی خدا کی پوجاوپرستش کی
جاتی ہی۔جب ان سے دریافت کیاگیاکہ وہ پاکستان کس کے بلانے پر آئے ہیں تو انہوں نے چند
غیر حکومتی تنظیموں(GOs)کے حوالے سے کہاکہ
ان تنظیموں نے انہیں مدعو کیاہے اورحکومت نے انہیں تحفظ فراہم کیاہے جس کے باعث وہ
عوام میں بھی نکل سکے ہیں جب کہ اس پہلے 2004ء میں وہ حکومتی تحفظ نہ ہونے کے باعث
ہوٹلوں تک ہی محدود رہی۔انہیں انتہاپسندی،شر،مذہبی پُر تشدد رویہ اورنفرت کے رویے پاکستان
میں نظر آئے ہیں اس لیے یہاں کے لوگوں کی زندگی میں پیار بھرنے کے لیے وہ بھارت سے
یہاں پرآئے ہیں۔اس تین روزہ دورے میں انہوں نے بہت سے پروگراموں میں نوجوانوں کے کئی
گروہوں سے ’’مفید بات چیت‘‘ کی ہے۔
بھارتی
مذہبی گرو روی شنکر کے ان بیانات سے واضع ہوتا ہے کہ وہ بظاہر عوامی لیکن حقیقتاََ
کس خفیہ مشن پر پاکستان آئے ہیں یا انہیں کس لیے یہاں بھیجاگیاہی۔دیگر وقائع نگاروں
کے مطابق وہ مسلمانوں کو ان کے مذہب سے بیگانہ کر کے تو موسیقی کے ذریعے انسانیت کی
تعلیم دیتے ہیں۔ہندو برہمن نے پہلے تو حتی الامکان کوشش کی کہ پاکستان نہ بننے پائے
لیکن جرآت مند قیادت اور قربانی دینے والی امت مسلمہ کے سپوت بالآخرپاکستان لے کر ہے
بنی۔تب آہنی قوت سے پاکستان کو نقصان پہچانے کی کوشش کی گئی اور اسے دو لخت کردیالیکن
اس ملک کے مقدس وجود کو مٹانے میں ناکام رہے ۔پاکستان کے خلاف بھارت کے عزائم اسی وقت
ہی بے نقاب ہو گئے تھے جب بھارت سے ثقافتی یلغارپاکستان برآمد کی جانے لگی اوراس کے
بعد سے پہلے نوجوانوں کو بھارتی فلموں کے ذریعے بھارتی ثقافت کا دیوانہ بنایاگیااورعریانی
و فحاشی کے بھرے ہوئے سیلاب میںانہیں ڈبونے کی کوشش کی گئی اوراب نوجوانوں کو ہی اپنے
مذہب سے بیگانہ کرنے کے لیے امن ،سکون،انسانیت اور پیارومحبت کے نام پر ارتداد کی طرف
دھکیلاجارہاہی۔
پاکستان
بنیادی طور پرایک نظریاتی مملکت ہے اور دوقومی نظریہ پاکستان کا مادر نظریہ ہی،نظریاتی
سرحدوں کی حامل اس مملکت میں یہ کیسے برداشت کیاجاسکتاہے کہ کوئی باہر سے آنے والااس
کے نوجوانوں کو مذہبی یرغمال بناتا پھری۔حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف تو
NGOsکوپاکستان
کے نصاب میں چھوٹی سی اسلامیات کی کتاب بھی چھبتی ہے اور مہینوں کے بعد اگر کوئی مولانا
صاحب لاؤڈ سپیکرپرکوئی تقریرکردیتے ہیں تووہ بھی ان سے برداشت نہیں ہوتاجبکہ بھارت
سے مذہب کی تبدیلی کے لیے خود ہی مدعو کرتے ہیں۔یہ دوغلا پن اور منافقت یقیناََ اتفاقی
امر نہیں ہے اور نہ کسی حب انسانیت کے تقاضوں کے تحت ہے بلکہ اس کے پیچھے خالصتاََ
پہلے نمبر پر اسلام دشمنی ہے اور پھردوسرے نمبرپرپاکستان دشمنی کا جذبہ کارفرما ہی۔ہمیں
وطن عزیزکے ذمہ دار اداروں سے بھرپور توقع ہے کہ وہ آئندہ اس طرح کی سرگرمیوں پر کڑی
نظر رکھیں گے اور مملکت کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کریں گی۔یاد رہے دین اسلام سے پھر
جانا اور الٹے پاؤں کفر کی طرف لوٹ جانے کو شریعت کی اصطلاح میں ’’ارتداد‘‘کہاجاتاہے
اور ایسا شخص ’’مرتد‘‘ کہلاتا ہی۔ اگر ریاست صحیح طور پر اسلامی ریاست ہو تو ایسے شخص
کے لیے قتل کی سزا تجویز کی گئی ہے اور اسے غسل،کفن اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن
کرنے سے بھی منع کردیاگیاہی،جبکہ روز محشر اسے کافر کی حیثیت سے اٹھایا جائے گا۔ان
سب امور سے قطع نظرایک سادہ مسلمان بھی یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ محمدعربی ؐ کے امتی
ہونے کاتمغہ اپنے سینے سے اتار پھینکے جب کہ ستر ہزار فرشتے صبح سے شام تک اس نبیؐکے
روضہ پر درود پڑھتے ہوں،یہ بدبختی محض ہے کہ ایک ہندو پروہت کے پیچھے کوئی مسلمان اپنے
عقیدے سے ہی ہاتھ دھو بیٹھی،حاشا و کلا و اعاذباﷲ تعالیٰ۔
گرو اور
چیلے کے رشتی، نفسیاتی بالادستی و زیر دستی اور جذباتی تعلق کا شاید خفیہ اداروں کے
مہربانوں کو اندازہ ہی نہیں۔ یاد رہے کہ روی شنکر اپنے چیلوں اور چیلیوں کا ذہن فتح
کرکے اپنے قابو میں کرتا جارہا ہی۔ صرف اسلام آباد میں اب تک ایک ہزار سے زائد چیلے
اور چیلیاں روی شنکر کو’’اپنا گرو‘‘ مان کر اس کے حلقہ اثر میں جا چکے ہیں۔ شرمناک
بات ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں’’ کلمہ گو مسلمان‘‘ روی شنکر کو ’’اپنا گرو‘‘ مان رہے
ہیں۔ کیااس طرح وہ اسلام سے کفر کی جاتے ہوئے
ارتدادکو اختیار نہیں کر رہی؟؟کیااس طرح کے لوگوں کو ایک اسلامی نظریاتی معاشرہ برداشت
کرے گا؟؟ اور کیاایسے لوگ روزمحشر اﷲ تعالی کی پکڑ سے بچ سکیں گی۔
آرٹ آف
لیونگ فائونڈیشن Art of Living Foundation بنی گالہ میں اشرافیہ
کی لڑکیاں لڑکے جنسی آسودگی میل ملاپ کے لئے جاتے ہیں۔ یوگا کا چکر بھی چلایا جاتا
ہے جبکہ چینی یوگا کو بھی تو فروغ دیا جاسکتا ہی۔ اسی طرح ’’صوفیائے اسلام کا تصوف‘‘
کسی بھی روی شنکر کی روحانیت سے بڑھ کر اور آفاقی ہی۔ بڑے بڑے عہدوں پر فائز پاکستانی
افسران قرآن وسنت سے دوری کی وجہ سے اس حلقہ اثر میں شامل ہوتے جا رہے ہیں ۔اس حلقہ
میں دین فطرت سے دور کرنے کے لیے لذت نفسانی کی وہ تمام آسودگیاں میسر ہیں جنہیں شیطان کی چالیں کہاگیاہے اور مسلمان
اپنے کھلے دشمن ابلیس کے راستے کو اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہیں سے ابھرنے والے طبقات
کو بلآخر پاکستان کی نظریاتی اساس کھٹکتی ہے اور وہ چاہتے ہیں مغربی دنیا کی طرح پاکستان
بھی سیکولرازم کے اندھیرے غار میں جا گھسے اور خاندانی نظام کی تباہی کے ساتھ ساتھ
اخلاقی اقدار کا زوال اور مسلمانوں کے شاندارماضی سے رشتہ کاٹ کراس مملکت کو بھی نودولتیہ
بنادیا جائی۔روی شنکر،اس کے پس پردہ دشمن ممالک
کے خفیہ ادارے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کے آلہ کاروں کی یہ سازشیں کبھی کامیاب
نہ ہوپائیں گی اس لیے کہ یہاں ابھی عصائے موسی کے حامل اہل ایمان اپنی آب و تاب کے
ساتھ جیتے ہیں اور یہ مملکت شہدا کی امانت اور اولیاء اﷲ کی میراث ہے اور اس مملکت
کو پوری دنیا میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کی قیادت کا فریضہ سرانجام دینا ہی،پس عبداﷲ بن
ابی ۔میرجعفراور میر صادق کی باقیات اپنے ماضی کے انجام میں ہی ذلت و رسوائی کا کفن
اوڑھے دفن ہو جائیں گی اور طلوع ہونے والا سورج نورتوحید کی کرنیں لے کر بلندہوگا،انشاء
اﷲ تعالی۔
No comments:
Post a Comment