Friday, 20 April 2012

شٹ اپ کال!


شٹ اپ کال!
مغربی میڈیا نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر جناب سلمان تاثیرؔ کے ایک مذہبی جنونی سرکاری ’’محافظ‘‘ کے ہاتھوں قتل پر پُر مغز تبصرہ کرتے ہوئی، اس سانحہ کو پاکستانی معاشرہ پر مذہبی شدت پسندوں کی گرفت مضبوط ترہونے کی علامت قرار دیتے ہوئے روشن خیال طبقے کیلئے کھلی ’’شٹ اپ کال‘‘ قرار دیا تھا۔ معروف ادبی شخصیت و ماہر تعلیم ڈاکٹر ایم ڈی تاثیرؔکے ہونہار فرزندسلمان تاثیرؔ کا جُرم یہ تھا کہ ُاس نے انسانی ہاتھوں سے بنے توہین رسالت کے قانون 295-C کو سالہا سال سے بے گناہوں کے استحصال کیلئے غلط استعمال کئے جانے کے باعث’کالا قانون‘ قرار دے کر اس میں ضروری تبدیلی کی بات کی تھی تا کہ اسے انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے ۔
توہین رسالت‘ کے نام سے بنایا گیا یہ قانون ہماری تاریخ کے منافق ترین جرنیل ضیاء الحق کے زمانے سے آئین کا حصہ چلا آرہا ہے لیکن شایدآج تک اس کے تحت توہین رسالت کے کسی ’’مُجرم‘‘ کو قانون میں درج موت کی سزا تونہیں دی جاسکی البتہ یہ کمزور اقلیتوں کو ڈرانے دھمکانے یا پھرمذہبی بنیاد پر Exploitationکی غرض سے خوب استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
نظریۂ پاکستان کے علم بردارمذہبی جنونیوں کی اِسی شٹ اپ کال کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے آج کے ہر طرف اور ہر طرح سے ’’ آزاد‘‘ جج نہ صرف سلمان تاثیرؔ کے قاتل قادری کو اعترافِ جرم کے باوجود سزا سنانے کی جرأ ت نہیں کرسکے بلکہ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں کچھ عرصہ قبل ہونے والے قاتلانہ حملہ کے ماسٹر مائنڈ ایک اور قادری کوبھی ضمانت پر رہا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اِن جیسے بہت سے دہشت گردوں اور مذہبی قاتلوں کو منطقی انجام تک نہ پہنچاسکنے کا ذمہ داروہ کمزور پراسیکیوشن یعنی براہِ راست حکومت وقت کو ٹھہراتے ہیں۔ سرکارکے زیر اثریہ کمزورپراسیکیوشن حالانکہ انہیں منتخب وزیر اعظم جیسے حکمرانوں کے خلاف عدالتی ریمارکس کی صورت میں سخت ترین فیصلے سنانے سے تو کبھی نہیںروک سکی۔
قارئین گرامی! سلمان تاثیرؔمرحوم کے قتل پرمغربی میڈیا کی طرف سے ’’شٹ اپ کال‘‘ کا با معنی تبصرہ ہمیں ایک تازہ ترین ’’شٹ اپ کال‘‘پر یاد آیا۔لیکن اس بار یہ شٹ اپ مذہبی جنونیوں کی طرف سے نہیں بلکہ ہماری بہادر افواج کے ’’غیر متنازعہ‘‘ سپہ سالار جنرل کیانی کی طرف سے ہے اورمخاطب البتہ اس بار بھی موجودہ ’’نا اہل ترین ‘‘حکمران پارٹی ہی ہی۔ہاں ہماری ’’غیر جانبدار‘‘عدلیہ نے فوری اثر لیتے ہوئے مہران بینک سکینڈل کے صدیوںپرانے کیس پر اُس کارروائی میں ’’ضروری‘‘حکمت عملی اختیار کرلی ہے جوکپتان خان کے بصد اصرارپر فیس سیونگ کیلئے ہی بمشکل شروع ہو پائی تھی۔ حالانکہ کیس کے مدعی ائیر مارشل اصغر خان عالم مایوسی میں یہ کہتے ہوئے کچھ عرصہ سے بالکل خاموشی اختیار کرچکے تھے کہ ’’لگتا ہے عدالتی فعالیت 16سال سے زیر التوا یہ کیس کھولنے کیلئے میرے مرنے کا انتظار کر رہی ہی!‘‘
’’محافظِ اعلیٰ‘‘ کی جانب سے تازہ شٹ اپ کال کے بعد لگتا ہے کہ یہ کیس ایک بار پھر آئیندہ6سال کیلئے التوا میں جانے کو ہے یا پھر ہمارے منصفین پنجاب حکومت کو دی جانے والی بارہا وارننگز کی طرح ’’محافظ‘‘ ایجنسیوں کیلئے ’’سخت ترین وارننگ‘‘ جاری کرکے اِس کیس کو بالکل اُسی طرح تیکنیکی بنیاد پر نمٹا دیں گے جیسے وہ میاں برادران کے خلاف متعددکیسوں کو نمٹا دینے کا منصفانہ ریکارڈ رکھتے ہیں!!
l            ویسے اس منصفانہ حکمت عملی کا آغازتو اُس وقت ہی ہوگیا تھا جب منصف اعلیٰ نے حسب معمول ایک اخباری خبر پراپنی فیورٹ پنجاب حکومت گرانے کے الزام پر سول ایجنسی ’’آئی بی‘‘ کے خلاف سوئیو موٹو لیتے ہوئے اس ’’ازخوداختیار کردہ کیس‘‘ کو مہران گیٹ کا ناگزیر حصہ بنانے کا اعلان کیا۔تازہ ترین عدالتی ریمارکس ملاحظہ فرمائیے کہ’’ اگر آئی ایس آئی جیسی عزت دار ایجنسی کے خلاف تنقید ہوسکتی ہے تو آئی بی جیسی سول ایجنسی کس کھیت کی مولی ہی؟‘‘(قومی اخبارات مورخہ 31مارچ 2012)۔اسی خبرکے مطابق ’’ہم‘‘ اپنی حکمت عملی کو رُ و با کار لانے میں مدد کرنے پر اخبار کے چیف ایڈیٹر اور رپورٹر کا شکریہ اد اکرنا نہیں بھول پائی۔مہران کیس میں جب لینے اور دینے والے دونوں فریق ہمارے دوست ٹھہرے تو کیس کا نزلہ تو کہیں اور( یعنی ناپسندیدہ مرکزی پارٹی پر) ہی جا گرنا تھا۔ بیشک مدعی اصغر خان کی پیٹیشن کے مطابق اس سکینڈل میں مظلوم فریق یہی مرکزی پارٹی ہی ٹھہرتی ہو۔ ہما را ریکارڈ گواہ ہے کہ ہم ایسے ہر کیس میں ہمیشہ پیٹیشن کی حدود سے ماورا جا کر ہی ’’ریلیف‘‘دیتے رہے ہیں۔ بھلے وہ آمر مشرف کو بلا مانگے آئینی ترامیم سمیت 3 سال کا حق اقتدارہو، اسی مشرف کو صدارتی انتخابات میں وردی سمیت حصہ لینے کی اجازت ہو یا این آر او کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے بند کیسزکھولنے کا حکم نامہ ہو، ان میں سے کون سی ایسی ’’ریلیف‘‘ ہے جو پیٹیشنر نے مانگی تھی ہم سے ؟؟
ہاں تو صاحبوسنتے جائیے کہ یہ تازہ ’’شٹ اپ کال‘‘ آخر ہے کیا؟ فرمان جاری ہوا کہ ’’مہران کیس کو کھولنا تاریخ سے جنگ کرنے کے مترادف ہی‘‘، لہٰذا قطعی غیرضروری!(یہ سوال پوچھنے کی ہمت کم از کم ہم میںتو نہیں کہ 11بس تک جیل کی سزا پانے والے منتخب صدر کے خلاف آئین کی کھلی کتاب میں واضح طور پر درج استثنیٰ کونام نہاد تشریح کے ’’ازخود اختیار‘‘ کے تحت تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے تقریباََ اتنا ہی پرانا سوئس کیس دوبارہ کھولنے پر اتنا اصرار کہ منتخب چیف ایگزیکٹو کو مجرم بنا ڈالا گیا،کیا تاریخ سے دوستی کا تقاضا ہی؟؟) ۔ شٹ اپ کال کا اہم ترین حصہ دوستو! یہ ہے کہ قومی کی سلامتی کے نام پر کچھ بھی کر گزرنے کا استثنائی اختیار رکھنے والی ہماری ’’سٹریٹجک‘‘ایجنسیوں کی’’ معمولات‘‘ کو بدلنی(بلکہ زیر بحث لانی) کی اجازت نہیں دی جاسکتی(کجا یہ کہ انہیں اپوزیشن سیاست دانوں اور صحافیوں میں قومی دولت کی بندر بانٹ کے ذریعے منتخب حکومتوں کے خلاف، مجاہدمنصوری کے ’’آئین نو‘‘ کے مطابق، قومی مفاد پر مبنی ’’مثبت مداخلت‘‘ پر کوئی سزا دینے کی جرأت کی جاسکی)!!
مہربانو!  دیکھنا اب یہ ہے کہ’’میمو گیٹ‘‘ بارے ہمارے ’’محافظِ اعلیٰ‘‘ کے مؤقف پر ایمان لانے والے ہمار ے ’’منصفِ اعلیٰ‘‘اس تازہ ترین فرمان کے بعد ’’مہران گیٹ‘‘ سے کیسے نمٹتے ہیں؟ یہاںمیمو کیس کی ابتدائی سماعت کے دوران اس سرکاری مؤقف پر،کہ ’’میمو کیس میں کوئی صداقت نہیں‘‘یہ عدالتی ریمارکس یاد کیجئے کہ ’’لیکن آرمی چیف کہہ رہیں کہ یہ کیس سچا ہی، اسلئے ہم اس کی تہہ تک پہنچے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں (منصور اعجاز کے ابتدائی الزامات کودست ثابت کرنے یا آرمی چیف کو سچا ثابت کرنے کیلئے ہی شایدایک ماہ کیلئے تشکیل دئے گئے میمو کمیشن کو اب دوسری بار توسیع دیتے ہوئے مدت ساڑھے چار ماہ تک بڑھا دی گئی ہی)..اسے کہتے ہیںتیری آواز مکے مدینی!!

No comments:

Post a Comment