Monday 26 March 2012

اولڈ راویئنز کی عظمت کو سلام

 اولڈ راویئنز کی عظمت کو سلام

ہم نے کہنے کو تمہیں دل سے بھلایا ہوا ہے
بس یہی  داغ سینے  میں چھپایا  ہوا  ہے

یہ مشاعرہ اسلام آباد کی تقریبات میں ایک منفرد اہمیت اور حیثیت کا حامل تھااس کے مہمان اعزاز نامور شخصیت، ہمارے ملک ، ہماری ثقافت، ہماری عظمتوں اور روایات کی پہچان افتخار عارف تھے ان کا خوبصورت کلام تھا۔
ہر اک ساحل بلا ایک ایک شناور سامنے ہی
کنارہ  ہوں مگر سارا  سمندر  سامنے ہے
مشاعرہ کیا تھااولڈ راویئنز کے ایک جگہ جمع ہو کر اپنی گزشتہ یادیں تازہ کرنے کا بہانہ تھااس وقت اولڈ راویئنز نہ صرف اپنے وطن میں بلکہ دنیا بھر میں اہم ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں ان کے لئے ایک رنگوں اور روشنیوں بھری شام، کلام اور طعام کا اہتمام تھا۔ انہوں نے علمی و فکری ورثے کی حفاظت کی روایات کوبرقرار رکھتے ہوئے اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج لاہور کی علمی عظمت اور اعلیٰ قدروں کو ہمیشہ سر بلند و سرفراز رکھا۔اس گہوارہء علم نے نگار ہستی کو ایسی قد آورشخصیات سے نوازا جو اس وقت دنیا بھر میں ہر شعبہء زندگی میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے ساتھ اپنی مادر علمی کا نام روشن کرنے میں بھی مصروف عمل ہیں ۔ وہ لو گ کتنے خوش قسمت ہیں جو بڑے فخر سے اپنے آپ کو اولڈ راویئنز کہتے ہیں۔ اور دوسرے لوگ انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔  پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ میں بھی اولڈ راویئنز کی ایک خاصی تعداد قومی و ملی خدمات سرانجام دے رہی ہے ۔ شریک مشاعرہ شعراء کی سخن وری کے چند نمونے قارئین کے ذوق مطالعہ کی نظر ہیں۔
جنید آذر
کھلی آنکھوں سے سونے کی اذیت مار دیتی ہی
ہمیں  تو نیند کی بے  معنویت  مار  دیتی ہے
عاطف سعید
نہ  رعایا نہ کوئی  سلطان ہونا چاہئیی
ہر کسی کو بس یہاں انسان ہونا چاہئیی
رخسانہ سحر
محبت کے فسانے سے کہانی مانگ لیتے ہیں
نئے موسم سے کچھ یادیں پرانی مانگ لیتے ہیں
اختر رضا سلیمی
یہ جو کچھ ہے میرا حسن بیاں ہی
وہ اتنا خوبصورت بھی کہاں ہے
رخشندہ نوید
کہا نیاں نہ ختم ہوں گی اختتامیوں کے ساتھ
مجھے قبول کر میری  تمام  خامیوں کے ساتھ
اقبال سہوانی
تیری  یادیں  اور  کھلا  در  باقی ہے
ان آنکھوں میں خواب کا منظر باقی ہے
ڈاکٹرانعام الحق جاوید
منزل درست ہے نہ عقیدہ درست ہے
ہر دیدہ ور کا ایک ہی دیدہ درست ہے
غضنفر ہاشمی
ہوا  کے ساتھ  لڑنے کا  ارادہ  کر لیا ہے
کہ ہم نے اب دیئے سے اک وعدہ کر لیا ہے
طارق سبزواری
آیا تو  بار  بار بلاوہ  امیر  کا
ہم سے مگر ہو نہ سکا سودا ضمیر کا
طارق نعیم
ہوتی اگر نہ کوئی گواہی میرے خلاف
پھر بھی امیر شہر تو تھا ہی میرے خلاف
سرفراز شاہد
پڑھائی چھوڑ کر کرکٹ میں نام پیدا کر
تعلقات حسینوں  سے  عام  پیدا  کر
تو بن  شعیب ملک ثانیہ  سے کر شادی
دیار  عشق  میں  ا پنا  مقام  پیدا  کر
اعتزاز احسن
نہیں ہے  دعویٰ  سخن  وری  کا
نہ حسن  لفظوں کی کاٹ میں ہے
بہار النساء بہار
ہجوم  یاس نے  ھیرا تو کیسے مسکرائو گے
جو ابر اشک آبرسا کہاں اس کو چھپائو گی
انور شعور
صبح کی آنکھ میں جو لالی ہے
روشنی قتل ہونے والی ہے
محمد اظہارالحق
تو بہت روکے گی لیکن میں جدا ہو جائوں گا
زندگی اک روز میں تجھ سے خفا ہو جائوں گا
یہ  مانا جسم مٹی کے جہانوں میں  بنے ہیں
مگر رخسار و لب کن کارخانوں میں بنے ہیں
فاضل جمیلی
ائے درختو تمہیں کاٹ دیا جائے گا
اور تم سوکھ کے لکڑی میں بدل جائوگی
مسعود عثمانی
ہر روز امتحاں سے گزارا تو میں گیا
تیرا تو کچھ گیا نہیں مارا تو میں گیا
اس عظیم الشان مشاعرے میں ورد بزمی، راشد ہ ماہین، صغیر انور ، احمد حسین مجاہد، شکیل جاذب۔ حسن عباسی، نصرت مسعود، خرم خلیق، عنبرین صلاح الدین، شائستہ نزہت، طارق نعیم ، محبوب ظفر، حسن عباس رضا، احمد باقی پوری، علیم قریشی، عباس تابش اور نصرت زیدی نے بھی اپنا منتخب کلام سنا کر سامعین سے داد تحسین وصول کی۔
شاعروں اور شاعرات نے اپنے تئیں عشق و محبت کے جذبات سے لبریز اور ہلکے پھلکے مزاح سے معطر اشعار سناکر محفل کو زعفران زار بنائے رکھا۔ اس پُررونق تقریب کی کامیابی میں یقینا محمد اقبال شیخ، تیمور عظمت عثمان، ذوالفقار احمد چیمہ، عاقل عثمان ملک ، میاں اسلم فرید، احسان صادق اور توقیر ناصر کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈاکٹر مئودت رانااور کلیم الرًحمٰن کا تعاون شامل تھا۔ پیارے وطن میں اس طرح کی رنگا رنگ شامیں عوام الناس کے دکھوں اور محرومیوں پر مرہم رکھنے کے مترادف ہوتی ہیں درد مند شعراء کا فکر انگیز کلام ہمارے حکمرانوں کی سوچ بدلنے کا بھی ذریعہ ثابت ہو سکتا ہی۔ جس سے سیاسی، معاشرتی اور علمی تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہی۔ اور پھر قوم کی بیداری  اور ترقی کے رستے ہموار ہوتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment