مر مٹے ہم کہ محمدؐ نام ہی کچھ ایسا
ہی
جھولی کو میں نے خود خالی رکھا زندگی
بھر
در مصطفٰے کے لئے کہ وہ در ہی کچھ
ایسا ہی
سب دیکھتے رہ گئے سدرۃ المنتہٰی سے
آگے آپ کو
بات یہ ہے کہ محب کا محبوب ہی کچھ
ایسا ہی
وہ جو کعبے کا کعبہ بن گیا جو کعبہ
بھی پتھر ہی
چاہے کوئی بھی ہو احمد مجتبٰیؐ سے عشق
ہی کچھ ایسا ہی
بڑے بڑے عاشق مرمٹتے ہیں در پہ تبسّم
میری سانس بھی نکل گئی کہ وہ در ہی
کچھ ایسا ہی
(صد یقہ نورین تبسّم مصریال)
No comments:
Post a Comment