Wednesday 7 March 2012

امریکہ ایران چپقلش اور عالمی امن

       گزشتہ دنوں واشنگٹن میں امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی سے خطاب میں امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اس کے جوہری ہتھیاروں کے منصوبے کو روکنے کے لئے پُوری امریکی طاقت استعمال کی جائے گی۔ جب کہ دوسری جانب صدر اوباما نے ایران پر بلا ضرورت جنگ مسلط کرنے کے منصوبے پر کڑی تنقید کی اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ۔ انہوں نے کہا کہ عالمی دبائو ایران کو مذاکرات پر مجبور کردے گا اس وقت ایران امریکہ کی کوششوں سے سخت دبائو میں ہے اس کو تنہا کردیا گیا ہے اس کی قیادت تقسیم ہوگئی ہے اور ایران کا دوست شام لڑکھڑا رہا ہے امریکی صدر نے کہا مسئلے کے حل کے لئے سفارت کاری کا موقع ابھی باقی ہی۔ پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران ایران پر جنگ مسلط کرنے کے حوالے سے گفتگو ہورہی ہے ان باتوں سے صرف ایران کو فائدہ ہوا اور تیل کی قیمتیں اُوپر چلی گئیں جس پر ایران کے جوہری پروگرام کا دارومدار ہے انہوں نے اس موقع پر اسرائیلی صدر کو امریکہ کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز صدارتی میڈل برائے آزادی بھی دینے کا اعلان کیا۔ جہاں تک تقریری یا تحریری پالیسیوں اور اُصول و ضوابط کا تعلق ہے تو امریکہ کی باتیں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں ان سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا ایک قید خانہ ہے اور امریکہ اسے آزادی دلوانی، انسانی حقوق کی بحالی اور عالمی امن و سلامتی کے لئے برسر پیکار ہی۔ لیکن اس کے باوجود پتہ نہیں کیوں دُنیا اُسے قابل اعتماد نہیں سمجھتی اور اپنی ڈرائیونگ سیٹ اُس کے حوالے کرنے پر تیار نہیں۔ جس کی وجہ سے اسے کئی ملکوں کو سبق سکھانے اور درست راستہ دکھانے کے لئے نہ صرف پچاس گنا زیادہ مالی اور فوجی وسائل ضائع کرنے پڑتے ہیں بلکہ جو کام اتنے وسائل خرچ کرنے کے بعد چھ ماہ میں ہو جانا چاہیئے اس پر سالوں ضائع ہو جاتے ہیں اور آخر میں نتیجہ صفر بٹا صفر بلکہ شرمندگی اور شکست کی صورت میں سامنے آتا ہی۔ دنیا میں امریکہ کے لئے یہ بے اعتمادی کی فضا اور انسانیت کو اس سے ڈر اور خوف بلا وجہ نہیں ہی۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کو امن و سلامتی کا درس دینے والے امریکہ نے ہی اب تک جوہری ہتھیار پرامن مقاصد کی بجائے انسانیت کی تباہی کے لئے استعمال کئے ہیں بلکہ مختلف دیگر خطرناک ہتھیاروں اور جنگوں کے ذریعہ سب سے زیادہ عالم انسانیت کا قتل عام بھی کیا ہے اگر امریکہ یہ تمام وسائل اور سرمایہ واقعی انسانی بھلائی اور عالمی سلامتی کے لئے استعمال کرتا تو اب تک انسان خلا ء میں اپنی بستیاں تعمیر کرچکا ہوتا۔امریکہ نے اپنے عمل و کردار سے دوسروں کو ہمیشہ تقصان میںپہنچایاہے خواہ وہ اس کا دوست ہو یا دشمن۔ اپنے توسیع پسندانہ اور
 دوسروں کی مال و دولت پر غاصبانہ قبضے کے ناپسندیدہ عزائم اور دنیا پر زبردستی اپنی تہذیب و ثقافت مسلط کرنے کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا امریکہ نے اس سے قبل بھی کئی ملکوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ جنگیں مسلط کیں لیکن آج تک اُسے اخلاقی فتح کبھی نصیب نہیں ہوئی ۔ اپنی بیمار اور کمزور سوچ کی وجہ سے اس نے اپنے کئی دوستوں کو بھی دشمن بنا لیا ہے ۔ دشمن بے شک کمزور ہیں لیکن وہ اس کے اردگرد رہتے ہوئے اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں جیسے ہی انہیں موقع ملے گا وہ امریکہ کو نقصان ضرور پہنچائیں گے امریکہ نے اسرائیل کے ذریعہ اور عراق ایران جنگ کے ذریعہ پہلے بھی بالواسطہ طور پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے دیکھ لیا ہے ۔لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ امریکہ ایران کی اندرونی قیادت میں عارضی اور وقتی تقسیم پر بغلیں بجا رہا ہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ شائد اب اس کاکام آسان ہو گیا ہے لیکن اُسے نہ صرف ایران کی گزشتہ اڑھائی ہزار سالہ تاریخ کو سامنے رکھنا چاہیے بلکہ دنیا بھر میں اپنی ریشہ دوانیوں اور اس طرح کی اپنی منافقانہ چالبازیوں کی ناکامی کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہی۔ اب جب کہ اس کا کہنا ہے کہ وہ پوری امریکی طاقت سے ایران کے جوہری پروگرام کو روکے گا۔ تو جب پوری امریکی طاقت ایران کی طرف متوجہ ہوجائے گی تو کمزور دشمنوں کو امریکہ سے اپنا بدلہ لینے کا موقع مل جائے گا۔ ادھر ایران کے خلاف اس کی جارحانہ اور غیردوستانہ شرپسندی کو علاقائی اور ہمسایہ ممالک چین، پاکستان، افغانستان اور روس کی حمایت کبھی حاصل نہیں ہوسکے گی کیونکہ یہ ممالک اپنا علاقائی امن تباہ کرنے کی کسی کو ہرگز اجازت نہیں دیں گی۔ بلکہ درپردہ کچھ ممالک کی خفیہ کارکردگی امریکہ کو پچاس سال پیچھے دھکیل سکتی ہی۔ اس وقت امریکہ اپنے عروج کی انتہائی بلندی پر ہے لیکن خدشہ ہے کہ اس کی اپنی پالیسیوں اور اصولوں پر عمل نہ کرنے بلکہ ان کے خلاف چلنے کی وجہ سے وہ ڈھلوان کی طرف لڑھکنا نہ شروع کردی۔ کیونکہ ایکpeak) چوٹی کے بعد تو یا پھر قرار کی منزل ہے یا اپنے غیر متوازن ہونے کی صورت میں دوسری طرف لڑھکنا  ہی ہی۔ اگر عدل و انصاف کو عملاً پوری ایمانداری سے خود پر صادر کر لیا جائے تو یہ نہ صرف امریکہ اور اسرائیل کے لئے مزید بلندی اور کامیابی کا سبب بنے گا بلکہ دنیا بھر میں امن و سلامتی قائم ہوسکے گی۔ اللہ تعالیٰ اور ہم انسانیت کی فلاح اور بھلائی چاہتے ہیں یہ انسان خواہ امریکہ اور اسرائیل میں بستے ہوں ۔ خواہ افغانستان ، پاکستان ، انڈیا، چین ، روس اورایران اور ساری دنیا میں جہاں بھی رہتے ہوں  ۔  When you really want peace and love you will find it waiting for you)       
اس لئے امید ہے امریکہ بھی مذاہب کے اختلافات دلائل اور مکالمے سے حل کرنے کا راستہ اپنا کر ہر قسم کے امتیازات سے بالا تر ہوکر جنگ کے بجائے دنیا کے انسانوں کو امن اور دوستی کا تحفہ دے گا۔ 

No comments:

Post a Comment