نعت خوانی اور اس کے تقاضی
سرکارِ
دوعالم جناب احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی ذاتِ اقدس پردرور پڑھنا نعت رسول پڑھنا
اور سننا ایک بہترین عبادت ہی نہیں بلکہ سنت خداوندی ہے جیسا کہ قرآنِ پاک کی اس آیت
کریمہ سے واضح ہے ’’ اِنَّ اللہ َ وَمَلٰءِکَتہ
یُصَلَّونَ عَلَی النَّبِی یَا اَیُھَّاالَّذِینَ اٰمَنُو صَلُّو عَلَیہِ وَسَلِّمُو
تَسلِیمَا۔ ‘‘ "ترجمہ: اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتے
درود بھیجتے ہیں، نبیؐ کی ذات پر اے ایمان والو تم بھی درود بھیجو اور سلام بھیجو نہایت
ادب کے ساتھ نبی برحق محمد رسول اللہ ؐ کی ذات پر‘‘
اللہ جل
شانہ کے اس فرمان پر نبی پاک صاحب لولاک نے
خود عمل کرانے کیلئے اپنے مقرب صحابی شاعر دربارِ رسالت حسان بن ثابت ؓ سے اپنی نعتیں
سنیں اور نعت پڑھنے والے کی حوصلہ افزائی کی اور اس پر اظہارِ مسرت کیا ان دونوں حوالوں
سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر ایک طرف نبی پاک ؐ کی ذاتِ اقدس پر درود بھیجنا (یا نعت کی صورت میں تعریف کرنا) سنت ِ خداوندی
ہے تو دوسری طرف نعت سننا اور نعت خوان کی حوصلہ افزائی کرنا سنت نبویؐ ہی۔
نعت محمد
ؐ پڑھنے والے کے لئے جن بنیادی امور پر زیادہ توجہ دینی چاہئے ان میں خوش گلوئی، آواز
کا مناسب اور بروقت اتار چڑھائو، لَے میں ہم وزن ٹھہرائو شامل ہیں۔ اور جن باتوں سے
نعت پڑھنے والے کو گریز کرنا چاہئے وہ یہ ہیں۔ غُنا ںّ پَن (یعنی ناک سے آواز کا نکلنا)
مخارج والے حروف کو میانہ روی سے ادا کری، فارسی اور اردو نعت پڑھتے وقت قرأۃ کی طرح
گہرے مخارج کی ادائیگی سے پرہیز کرے ہاں البتہ عربی نعت پڑھی جائے تو اس میں مخارج
کی ادائیگی کا بھرپور حق ادا کری، نعت خوان کی آواز میں دھڑک، کُھردرا پن، کپکپی اور
بے سُری نہ ہو ان تمام نقائص سے بچنے کیلئے نو آموز نعت خوان کا اساتذئہ فنِ نعت خوانی
سے نعت پڑھنے کے رموز کو سمجھنا اور پھر ان کی مشق کرنا از بس ضروری ہی۔
نعت خوانی
کے آداب میں یہ باتیں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں۔
1۔ نعت خوان
با وضو ہو اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عشق رسول اللہ ؐ کو دل میں جاگزیں کرکے خلوص
و محبت سے سرشار ہو کر نعت رسول مقبول ؐ پڑھی۔
2۔ نعت خوانی
اور گانا گانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے گانا گانے والا نفسِ اَمارہ کی پرورش کے
لئے عمل نبھاتا ہی، جبکہ نعت پڑھنے والے کے
دل میں اللہ کے رسول ؐ کی محبت جلوہ گر ہوتی ہی، اس لئے وہ جتنی دیر نعت خوانی میں
مصروف رہی۔ خود کو عبادت الٰہیہ میں مصروف و مگن تصور کرے اور نعت کی ادائیگی کا حق
ادا کرتے ہوئے خوش گلوئی اپنائے ، اپنی آواز کو بے ہنگم زیر و بم سے بچائی۔ فالتو راگوں
سے پرہیز کری۔
فن تجوید
و قرأۃ کی طرح نعت خوانی بھی فی زمانہ ایک پاکیزہ فن کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی
ہے مگرنعت خوانی کو کاروبار یا دھندہ بنا لینا فن کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف
ہی۔ چہ جائے کہ نعت خوانی کو وسیلۂ روزگار بنا لیا جائی۔ اور اس ضمن میں ہر وہ جائز
و نا جائز طریقہ اپنا کر اس سے منافع کمانے کے حربے استعمال کئے جائین۔ اگر کوئی ایسا
کرتا ہے تو وہ نہ فن نعت خوانی سے مخلص تصور کیا جاتا ہے اور نہ ہی اللہ اور رسول
ؐ کی سچی محبت و عقیدت سے سرشار گردانا جاتا ہی۔ ایسے نعت خوان کے لئے لازم ہے کہ وہ
تقدسِ شانِ رسول ؐ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس کے محاسن کو پہچانے جس طرح نعت گوئی
میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ نے حقِ شانِ محمدؐ ادا کرتے ہوئے نعتیں رقم کی
ہیں اسی طرح نعت خوان کو بھی اداب و احترام سے نعت کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔
وَرَفَعنَا لَکَ ذِکرَک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے تراذکر ہے اونچا ترا
اللہ تعالیٰ
نے خود نبی پاکؐ کے ذکر پاک کا بول بالا کیا ہی۔ اس لئے نعت گو حضرات میں سے ایسے صاحبانِ
علم کی لکھی ہوئی نعتوں کو پڑھنا چاہئے کہ جن کے کلام میں ادب و احترام کے تقاضے بھی
پورے کئے گئے ہوں۔ اور مبالغے سے بھی پرہیز کیا گیا ہو، اللہ تعالیٰ ہمیں شانِ رسالت
مآب کے سمجھنے کی اور دربارِ رسالت میں ہدیۂ عقیدت احترام کے ساتھ پیش کرنے کی توفیق
عطا فرمائی۔ آمین
فی زمانہ
اکثر مشاہدہ میں آیا ہے کہ کچھ لوگ سگریٹ جیسی بدبودار مکروہ شے سے لطف اندوز ہونے
میں پنڈال میں پھر رہے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی سٹیج سے نام پکارا گیا اُچک کر پہنچ گئے اور
نعت پڑھنا شروع کر دیا یہ سخت گناہ ہی۔ اللہ جل شانہ کے محبوب کریم کی شان بیان کرنے
والے کو تو کبھی بدبودار چیز کا استعمال ہی نہیں کرنا چاہئی۔ ادب و آداب کے تقاضے پورے
کر کے جو بھی نعت خوان نعت پڑھے گا یقین جانئے اس کی آواز میں اللہ تعالیٰ لحنِ دائودی
والا اثر ڈال دیگا اور اس کی نعت گوئی سننے والوں کے دِلوں پر اثر کرے گی۔ جو نعت خوان
ادب آدابِ نعت خوانی کو بروئے کار نہیں لا سکتا اس کیلئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ نعت گوئی
یا نعت خوانی جیسے مقدس عمل سے دور رہی۔
اہلِ ذوق
اور عُشاقانِ رسول مقبولؐ کے اس تقوے کو مشعلِ راہ بنا کر نعت گوئی یا نعت خوانی کی
جائے تو سبحان اللہ! جو مراتب میسر آئیں گے وہ روحانیت کی معراج ہوں گی۔ فارسی میں
یہ شعر ہے ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ شاعر نے کس تقوے کا اظہار کیا ہی۔ فرماتے ہیں:۔
ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام چہ گفتن کمال بے ادبی سیت
ترجمہ: عطر و گلاب سے اگر ہزار بار بھی اپنا منہ دھوئوں
یا کلیاں کر لوں پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ سرکار کا نام لوں تو کہیں بے ادب نہ ٹھہرایا
جائوں۔
اسی تقوے کا جن لوگوں نے خیال رکھا ان کو اپنی
زندگانی میں سرکارِ دو عالم ؐ نے اپنے دیدار سے نوازا حضرت امام شرف الدین بوصیریؒ
کی مثال اور حضرت مولانا جامیؒ کی مثال اور دیگر بے شمار مثالیں ہمارے سمجھنے کیلئے
بہت ہیں۔ ان کو یہ مراتب نبی پاکؐ کے ادب و احترام اور تعریف کرنے کے صلے میں ملی۔
روایت ہے
کہ مولانا عبدالرحمن جامیؒ نے مکہ معظمہ میں حج سے فارغ ہو کر جب مدینہ منورہ جانے
کا عزم کیا تو اسی رات گورنر مکہ کو خواب میں زیارت کراتے ہوئے رسولِ مقبولؐ نے فرمایا
کہ حجاجِ کرام میں عبدالرحمن جامی نام کا ایک شخص ایران سے آیا ہوا ہے اسے مدینہ میں
آنے سے روکنے کی کوشش کرو۔ اگر وہ وجہ دریافت کرے تو اسے میرا یہ پیغام دو کہ ’’تمہاری
نیلی واسکٹ کی جیب میں جو نعت تمہاری لکھی ہوئی ہے اگر تم نے وہ نعت میرے روضے پر آکر
پڑھ دی تو مجھے مجبوراً شرعی حدود و قیود پار کرکے قبرِ اطہر سے ہاتھ نکال کر تم سے
مصافحہ کرنا پڑے گا۔ میں چاہتا ہوں تم سے ایران میں ہی ملاقات کروں۔ اس کیلئے تمہیں
ہر جمعرات کو سو مرتبہ درود شریف اور گیارہ مرتبہ یہ نعت پڑھ کر سوجانا ہوگا تمہیں
میری زیارت ہوجایا کرے گی۔ ‘‘
گورنر مکہ کی زبانی سرکارِ دوعالم محبوبِ رب
العالمین ؐ کے بموجب فرمان ہر جمعرات کی شب یہ عمل کرتے اور زیارت ِ مصطفی ؐ سے مستفیض
ہوتی۔ زندگی بھر انہوں نے یہ عمل جاری رکھا اور محبوبِ کریم رئوف الرحیم کی زیارت کا
شرف حاصل کرتے رہی۔ اسی بناء پر ہر جمعہ کو آپکے جسم سے بڑی لطیف خوشبو آیا کرتی تھی
یہ سب فیضان تھا سرکارِ دوعالم نورِ مجسمؐ کی زیارت کا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسی نعمت
ِ عظمیٰ سے نوازی۔ آمین (ماخوذ قصص الاولیائ)
حضرت مولانا
جامیؒ کی اسی نعت کا ایک شعر درج ہی۔
تنم فرسودہ جاں پارہ زہجراں یا رسول
اللہ
دِلم پژمُردہ آوارہ زِ عِصیاں یا رسول
اللہ
ترجمہ: میرا جسم نا کارہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے آپ
کی جدائی میں اے اللہ کے پیارے رسول ؐ آپ کی زیارت نہ ہونے کی وجہ سے میرا دل بھٹک
رہا ہے اور گناہوں کے بوجھ سے دل کا پھول مُرجھا چکا ہے اے اللہ کے پیارے نبی ؐ ۔
دیکھ لیجئے
نعت خوانی اور نعت گوئی کے ادب آداب کیا ہیں۔ اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔ اور اگر ان
تقاضوں کو پورا کر دیا جائے تو کیسے کیسے معجزے رونما ہوتے ہیں اور کیسے کیسے انعامات
کی بارش ہوتی ہی۔
نعت ِ رسولِ مقبولﷺ
کلام: ابنِ کلیم احسنؔ نظامی
اَے حبیبِ خدا ہجر میں آپ کے، بن کے بسمل تڑپتا ہوں میں ہر گھڑی
اَب مدینےؔ میں مجھ کو بُلا لیجئے، ساتھ
دے گی کہاں تک مری زندگی
زِیست میں امنِ عالم بھی مَفقُود ہے،
چشم اَفلاک بھی قہر آلُود ہے
اپنے اَحوالِ غم کا بجز آپ کے، کوئی
پُرساں نہیں یا نبی!، یا نبیﷺ
ہے مدینہؔ تصور میں با لواسطہ، قلب و
لب ہیں دُرودوں سے آراستہ
عشقِ احمدؐ میں جی کر مروں، پھر جیو
ٔں، بس یہی ہو ابد تک مری بندگی
میرے آقا مجسم ہی نور آپؐ ہیں، ربِ اکبر
کا شانِ ظہور آپؐ ہیں
شافعِ روز محشر بھی اِعزاز ہے، شان نبیوں
میں سب سے بڑی آپکی
اپنا محبوبؐ دے کر ہمیں برملا، رب نے
احسان ہم کو ہے جتلا دیا
وہ سمجھتا مَراتب ہے سب آپکے، جو ہے
سچا محب آپؐ کا یا نبیؐ
ہے یہ احسنؔ نظامی فقیر آپ کا، دِل میں
رکھتا ہے ہر دم یہی مُدعا
ہو دُرودوں کی لب پر حسیں نغمگی، جب
مرے بھی اَجل سامنے ہو کھڑی
اے حبیب خدا ہجر میں آپ کے، بن کے بسمل
تڑپتا ہوں میں ہر گھڑی
اب مدینے میں للہ بُلوائیے، ساتھ دی
گی کہاں تک مری زندگی
No comments:
Post a Comment