Friday, 23 March 2012

خدا کی شان دیکھیں گے ہم انگلستان دیکھیں گے

خدا کی شان دیکھیں گے ہم انگلستان دیکھیں گے

محمد اقبال اختر ۔ڈنمارک
تحریر: محمد اقبال اختر (ڈنمارک)
          وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے ۔ ومپکیس سٹور ۔ بزمِ فکرِ نَو کا مرکز شاعروں اور ادیبوں کا قدیم ٹھکانہ فروخت ہوا تو یار لوگوں کو تشویش ہوئی ۔ خدا مسبب الاسباب ہے ۔ جلد ہی اردو ادبی فورم کے دوستوں کو فواد کرامت صاحب کے برابر میں ایک کمرہ دستیاب ہوگیا ۔ ہر ماہ کے پہلے ہفتے کی شام سبھی اہلِ قلم دوست گپ شپ کیلئے وہاں مل بیٹھتے ہیں ۔ ستمبر کی خوشگوار شام تھی ۔ شعری نشست کے بعد دوستوں نے تفریح کیلئے کوپن ہیگن سے باہر انگلستان جانے کا پروگرام بنایا ۔ ابو طالب، کامران اقبال اعظم ، شبیہہ الحسن ابتدا ہی میں چھٹی کا بندوبست نہ ہو سکنے کے سبب ساتھ چھوڑ گئے ۔ اب صفدر علی آغا ، فواد کرامت ، اشرف سندھو اور راقم الحروف ہی انگلستان دیکھنے کے خواب سجائے بیٹھے تھے ۔ اسے آنکھوں سے دیکھنے اور دھڑکنوں سے محسوس کرنے کیلئے وارفتگی کے ساتھ آمادئہ سفر تھے ۔ فواد انٹرنیٹ پر بیٹھ گئے ۔ بائی ائیر ٹکٹ کی بکنگ اور لندن میں رہائش کیلئے ہوٹل تلاش کرنے لگے ۔ ڈنمارک میں ابھی ٹھنڈک تھی  لیکن خبروں کے حوالے سے لندن کا ٹمپریچر چوبیس پچیس سینٹی گریڈ تھا۔ چشمِ تصور میں ہی لندن کا گرما گرم موسم اور نیلے آسمان میں تیرتے ہوئے سرمئی بادلوں کی چہل پہل لطف دے رہی تھی ۔ فواد ٹکٹ اور ہوٹل کی بکنگ سے فارغ ہوئے تو ہم نے نعرئہ مستانہ لگایا ۔ اور علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا۔
لکھی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت
ہونگی اے خوابِ جوانی تیری تعبیریں بہت
             گیارہ بجے ہم کوپن ہیگن ائیر پورٹ پہنچ گئے ۔ صرف ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تھا ۔ فواد نے جہاز سے چھوٹی بہن جو لندن میں ڈاکٹری پڑھ رہی ہیں کو ائیر پورٹ پر بڑی ٹیکسی بھجوانے کیلئے ایس ایم ایس بھیج دی تھی ۔ ہم پلیٹ فارم نمبر دو کی انفارمیشن پر پہنچے تو ٹیکسی ڈرائیور سے رابطہ ہوگیا۔ ہیتھرو کی بین الاقوامی ائیر پورٹ کشادہ اور امپرللیو تھی ۔ ترقی یافتہ ممالک میں ائیرپورٹس اور فضائی صنعت کی اعلیٰ کارکردگی ، مسافروں کو مہیا کی گئی سہولتوں ، مربوط حفاظتی نظام اور ٹیلی مواصلات کی آسائش اور ٹورسٹوں کی دیکھ بھال کا بہتر معیار انتظامیہ کی خاص توجہ اور دھیان کے سبب میسر ہے ۔ یورپین قومیں اپنے اداروں میں کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ہر شعبوں میں مہارت رکھنے والے کارکنوں کو ترجیح دیتی ہیں ۔ ہماری ٹیکسی شہر کی جانب بڑھ رہی تھی ۔ گرد و نواح کا جائزہ لیتے ہوئے خوشگوار حیرت ہورہی تھی ۔ سڑکیں کھلی اور صاف ستھری ، کاریں ، بسیں اور دیگر سہولتیں قابل رشک حد تک نمایاں اور اُجلی تھیں ۔ تقریباً نصف گھنٹے میں ہم کروم ویل روڈ پہ واقع ایڈیشن ہوٹل کے سامنے پہنچ گئے ۔ ہم نے دو کمرے بُک کروائے تھے ۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے ہمیں وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا ہمارا سامان کمروں میں پہنچادیا ۔ دونوں کمرے دو سنگل بیڈ ، ٹی وی ، ٹیلیفون اور باتھ روم وغیرہ سے آراستہ تھے ۔ ہم پندرہ بیس منٹ میں تازہ دم ہو کر سیر و تفریح کیلئے باہر نکل گئے ۔
                   لندن میں ادھر ادھر سفر کیلئے انڈر گرائونڈ ٹرین ، اومنی بسیں ٹورسٹس کو سیر کروانے والی اسپیشل اوپن ائیر ڈبل بسیں بکثرت دستیاب ہیں ۔ شہر میں جگہ جگہ سر سبز و شاداب باغ ہیں۔ پیدل چلنے میں مزا آتا ہے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اسقدر ٹریفک کے باوجودسڑکوں پر گرد و غبار نام کو نہیں ۔ پہلے دن تو ہم نے ٹورسٹ بس میں سیر کی ۔ بس میں گائیڈ مسافروں کو شہر کے مشہور اور قابل دید مقامات کا تعارف کرواتا چلاجاتا ہے ۔ بس دو تین گھنٹے کی مسافت کے بعد واپس اُسی جگہ پہنچ گئی جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا ۔ ویسے فواد ہمارے گائیڈ تھے ۔ چونکہ نقشہ ان کے ہاتھ میں ہوتا ۔ وہ حسبِ ضرورت نقشہ پڑھتے اور اس علاقے کا اور سڑک کا نام بتا دیتے ۔ پہلے دن تو تمام سڑکیں ایک جیسی ہی لگتی تھیں ۔ صرف نئے نئے نام بدل رہے تھے ۔ اس وقت ہم ملکہ الزبیتھ کے بکنگھم پیلس کے باہر پارک کے گھنے درختوں کی جھاڑیوں میں فٹ پاتھ کے پختہ راستوں پر قہقہے لگاتے ، ہنستے ، مسکراتے جا رہے تھے ۔ دن ہنسی خوشی گذر گیا ۔ شام ڈھلی تو وہاں سے بس لے کر کسی دوسرے علاقے کی طرف روانہ ہوئے ۔ فواد نے بتایا کہ ہم پکاڈلی چوک سے گزر رہے ہیں ۔ راستے روشنیوں سے جگمگا رہے تھے ۔ اطراف میں لوگوں کی ہنستی آوازیں ترنم ریز تھیں ۔ پورا ماحول پُر رونق لگ رہا تھا ۔ حسین چہرے مسکراہٹ کی چمک کے باعث زیادہ جازب نظر محسوس ہو رہے تھے ۔ ینگ کپل گاتے جھومتے مستی کے نشے سے سرشار موسم کو حسیں بنا رہے تھے ۔ علامہ اقبال نے بجا کہا ہے ۔
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
          علی الصبح نماز سے فارغ ہو کر اشرف سندھو صاحب کو آواز دی ۔ آواز دے کہاں ہے دنیا مری جواں ہے ۔ میری مترنم آواز پر وہ چونکے ۔ کیونکہ وہ میرے روم میٹ تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ کل دن بھر کی تھکاوٹ کے باعث آج خوب نیند آئی ۔ ہم دس بجے اُٹھ کر باہر سے ناشتے کا سامان لاتے اور اپنے کمرے میں چائے تیار کرتے ۔ گیارہ ساڑھے گیارہ بجے دوبارہ سیر کو نکل کھڑے ہوتے ۔
          انگریز مصنف فرانس بیکن نے کہا تھا اگر ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہو گا تو ملک میں خوشحالی ، معاشی اور معاشرتی انصاف، شخصی آزادی ، تحفظِ انسانی اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ صفدر علی آغا نے کہا مغربی مفکر اپنی ادبی اور ثقافتی بات کو وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں تک اُسے یونانیوں اور رومیوں نے پہنچایا تھا ۔ فواد کرامت کہنے لگے کہ کبھی دنیا میں عرب کی اسلامی اور ایران کی ادبی اور ثقافتی روایات کا بڑا چرچا تھا ۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ۔ انہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی پیش رفت نہ کی ۔ آج ایک دنیا مغربی ٹیکنالوجی سے فیضیاب ہو رہی ہے ۔ لندن میں اس قدر گہما گہمی ترقی اور رونق جدید ٹیکنالوجی کا ثمر ہے ۔ لیکن اپنے ملک پاکستان کا بھی جواب نہیں ۔ پاکستان ایک نو زائیدہ ملک ہی۔ پچاس ساٹھ سال قوموں کی تاریخ میں زیادہ عرصہ نہیں ہوتا ۔ اسے قدرت کا ایک کرشمہ سمجھئے کہ اتنی قلیل مدت میں پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن کر ابھرا ۔ یہ حقیقت کم قابل رشک نہیں ۔ لندن خوبصورت سہی لیکن ناصر کاظمی نے کیا خوب شعر کہا ہے ۔
شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
          یورپ کے کھلے معاشرے میں آزاد فضا میں جہاں عوام کے ذہنوں پر بے جا دبائو نہ ہو وہاں کسی گھٹن کا احساس نہیں ہوتا ۔ سوسائٹی اور معاشرہ اس آزادان روش کے باعث ماحول میں جمہوری روایات کی تازہ فضا رکھتا ہے ۔ حکومتوں کی پالیسیوں میں اعتماد کے ساتھ ساتھ تسلسل برقرار رہتا ہے ۔ عوام کو اظہارِ رائے اور عمل کی آزادی حاصل رہتی ہے ۔ جانبداری اور غیر منصفانہ رویہ اختیار نہیں کرنا پڑتا ۔ برطانیہ میں ہر ملک کے لوگ بکثرت آباد ہیں ۔ اسی لئے اسے کثیر الثقافتی ، سیاسی اور مذہبی ملک کا درجہ حاصل ہے ۔ لندن میں نواز شریف ، شہباز شریف ، الطاف حسین اور بے نظیر بھٹو بسلسلہ سیاسی پناہ قیام پذیر ہیں ۔ یہ سب برطانیہ کا جمہوری کلچر کا فیضان ہے ۔ ادھر پاکستان میں تو فوجی حکمرانوں کا راج ہے ۔ اشرف سندھو صاحب کے شہر سیالکوٹ کے مشہور شاعر فیض احمد فیض نے کہا تھا ۔
تیرگی ہے اُمڈتی ہی چلی جاتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
          بزمِ حیات میں معصوم لوگوں کی پیشانی پر خون کے چھینٹے ہیں ۔ بے بس و نا چار انسان زرکار کے دست ستم کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ جانِ حزیں صدموں سے دم توڑ رہی ہے ۔ گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر بلا جواز حملہ کردیا تھا ۔ تاحال وہ ستم کی آگ بجھی نہیں ۔ اب وہاں نیٹو فورسز بر سرِ پیکار ہیں ۔ اور پھر امریکہ نے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو نظر انداز کرکے عراق پر حملہ کردیا ۔ یہ سب حربے ان کی زرسیال اور معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کی ایک چال ہیں ۔ لاکھوں عراقی اپنے ملک کی سلامتی کیلئے قربان ہو گئے ۔ یہ خودکش حملے اپنی اور آئندہ نسلوں کی آزادی کیلئے کر رہے ہیں ۔ مر رہے ہیں ۔ وہ بھلا اپنے وسائل پر دوسروں کو کیسے قبضہ کرنے دیں گے ۔ امریکنوں کی اجارہ داری کیونکر قائم ہونے دیں گے ۔ آج کل امریکن فوجی اور ان کی حامی پولیس فورس حملوں کی زد پہ ہے ۔ صدر بش نے اسی صورتِ حال کے پیشِ نظر کہا ہے کہ اب عراق ویت نام بن گیا ہے ۔ دراصل امریکہ اور اسکے اتحادی نیٹو فورسز عراق اور افغانستان کی جنگی دلدل میں بُری طرح پھنس چکے ہیں ۔ مسلم اُمہ کو اسوقت انتہائی تدبر سے چلنے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ سپر پاور بننے کے بعد یہ بھول گیا تھا کہ کائنات میں سب سے بڑی سپر پاور تو صرف اللہ ربُ العزت کی ذات پاک ہے ۔
لندن میں آکسفورڈ روڈ ، بیکرڈ سٹریٹ ، پیلس گارڈن ، ہوڈ پارک ، گرین پارک ، تھری فلک سکیر ، ریجنٹ پارک ، روز تھامس ، واکس ہال نئے نئے علاقوں کی سیر کی ۔ ہمارے لندن کے قیام کے دوران فیضان عارف صاحب ہر شام ہمارے ساتھ گزارتے ۔ اگرچہ وہ ملازمت کی وجہ سے مصروف بھی تھے لیکن ان کی بے لوث محبت اور پُر خلوص دوستی تھی کہ وہ ہر روز رات بارہ ایک بجے گھر واپس جاتے ۔ ایک شام ہم ان کے شہر دعوتِ شیراز پر مدعو تھے ۔ ہماری بھابھی صاحبہ نے بہت پُر تکلف اور لذیز کھانوں سے ہمیں محظوظ کیا ۔ فیضان صاحب بہت ہی پیارے شاعر ممتاز ادیب اور صحافی ہیں ۔ اس سے بھی کہیں بڑھ کر اچھے ساتھی اور انتہائی مخلص انسان ہیں ۔ اس نفسا نفسی کے دور میں ایسے بھلے انسان آج کل نایاب ہیں ۔ وہاں ان کے دو معصوم پیارے پیارے بچے دانیال اور ضوبیہ کو دیکھا ۔ ان کے گھر پہ لندن کے مشہور شاعر ساقی فاروقی کے جگری دوست ڈاکٹر جاوید تشریف لائے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب شریف النفس انسان اور شستہ ادبی ذوق رکھنے والی شخصیت ہیں ۔
          سویرے سویرے تازہ دم ناشتے کے ٹیبل سے اُٹھے تو آغا صاحب چہکنے لگے انہوں نے اپنے شہر کے حوالے سے مجید لاہوری کا شعر سنایا ۔
دیکھتا ہوں کبھی گجرات میں ساری دنیا
ساری دنیا کبھی گجرات نظر آتی ہے
          آغا صفدر صاحبِ نظر آدمی ہیں ۔ چشم بینا کے سامنے فاصلے سمٹ جاتے ہیں ، سکوت ہمکلام ہوتاہے ۔ اس سے پہلے کہ کمرہ گجرات میں بدل جاتا ہم رنگ رنگ کے جلوے دیکھنے کیلئے باہر ہوٹل کے ارائیول ہال تک آگئے ۔ فیضان صاحب آج فری تھے ، تشریف لا چکے تھے ۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے سبھی کہتے ہیں کائنات مرقعِ جمال ہے ۔ فیضان بتارہے تھے کہ لندن سے ذرا دور دوسرے شہروں میں پوری کمیونٹی ہی دوسرے ملکوں کی آباد ہے ۔ ریجنٹ پارک کی اس طرف عربوں کی اکثریت آباد ہے ۔ لندن سے قریب سائوتھ ہال میں انڈین مقیم ہیں اور گرین سٹریٹ میں زیادہ تر پاکستانی رہتے ہیں ۔ ان علاقوں میں پہنچ کر آپ کو کوئی گورا نظر نہیں آتا ۔ اتفاقاًکوئی ایک آدھ ادھر سے گزر رہا ہو تو ٹورسٹ محسوس ہوتا ہے ۔ ہر طرف اپنے لوگ آباد ہیں ۔ یہ گلیاں یہ علاقے مانوس مانوس لگتے ہیں ۔ لیکن حیرت ہے کہ کوڑے کرکٹ کے انبار نظر نہیں آتے ۔ غالباً صفائی کا کنٹرول برطانیہ والوں نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے ۔ ورنہ غیر ملکیوں نے ولایت کا کنسپٹ تبدیل کردیا ہوتا ۔ یہ ذرا ہاتھ بھی چھو جانے پر ’’ساری سر ‘‘ کہنے کی روایت تبدیل ہوچکی ہوتی ۔ ہمارے ہاں مردوں کا ڈومینیٹنگ معاشرہ عورتوں کی اس طرح آزادانہ چلت پھرت پر ضرور نظر رکھتا ۔ ولائت اور ولائیتوں کے روّیہ میں کچھ تبدیلی ضرور کرتے ۔ لیکن یورپین ممالک میں تعلیم و تربیت کا عوام پر گہرا اثر ہے ۔ ماحول ، رہائش ، تعلیم ، صحت اور صفائی کا بہتر معیار حکمرانوں کی اصول پرستی ، صلح رحمی اور بہتر انتظام پر منحصر ہے ۔ فیضان صاحب نے کینسنگٹن گارڈن ، کینسنگٹن پیلس ، اسلامک برٹش کلچر میوزیم ، برٹش میوزیم اور پارلیمنٹ ہائوس بہت سے قابل ذکر مقامات کی سیر کروائی ۔ ظہر کی نماز ہم نے ریجنٹ پارک کے پاس عرب بھائیوں کی خوبصورت مسجد میں ادا کی ۔ مغربی دنیا نے ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کی ہے ۔ لیکن مادہ پرست دنیا نے لوگوں کو نمائش و آسائش کا دلدادہ بنا دیا ہے ۔ وہ اپنے برتائو اور رویے میں بے حس ہو گئے ہیں ۔ احساسِ مروّت کو کچل دینے میں آلات انسانی شعور جتنا قوی ہوگا ۔ سوچ جس قدر مثبت ہوگی اسی قدر بندہ دنیاوی ہوس اور لالچ کو نظر انداز کر کے اللہ تعالیٰ کی عظمت و رفعت کا قائل ہوتا ہے ۔ انسان بندگی کا سلیقہ اور زندگی کا شعار ، رب کی انکساری اور شکر گزاری کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ انسانی زندگی سنوارنے میں خیالات ، اخلاق ، عادات ، معاشرت ، تمدن ، سیاست، غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہوتا ہے ۔
 آج بارہ بجے سے پہلے پہلے ہم نے ہوٹل کے کمروں کی چابی واپس لوٹانی ہے ۔ اور واپسی کیلئے رختِ سفر باندھنا ہے ۔ جلدی جلدی تیار ہو رہے تھے ۔ ٹیلیفون بیل ہوئی ۔ فیضان بھائی بول رہے تھے ۔ انہوں نے سرحدی کا شعر سنایا ۔
وہ آگئے تو قلب کو تالیف ہوگئی
رخصت ہوئے تو پھر وہی تکلیف ہوگئی
          یہ شعر ہمارے جذبات کا عکاس تھا ۔ اس دن محسوس ہوا کہ چھٹیاں گزارنے سیر و تفریح کے لیے آدمی وہاں جائے جہاں کوئی قریبی دوست نہ ہو ۔ ورنہ جہاں اسے مل کر خوشی نصیب ہوتی ہے ۔ بچھڑتے ہوئے پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ ہوٹل سے فراغت کے بعد ایک جگہ ہم نے ڈنر کیا ۔ پھر ٹرین لی اور اپنے اپنے بیگ کے ساتھ لندن کی حسین و جمیل یادوں کا تحفہ سمیٹا اور ہیتھرو ائیر پورٹ روانہ ہوئے ۔ جہاز بروقت تھا ۔ بفضل باری تعالیٰ بخیر و عافیت گھر پہنچ گئے ۔ دورانِ سفر جو ہم پہ گزری سو گزری ۔ لیکن بقول شوکت واسطی
بیٹھ کر گھر میں سیرِ دنیا کی
یہ تماشا کتاب میں دیکھا

No comments:

Post a Comment