تحریر:
مسز ارشاد پروین (بیگم محمد ممتاز خان ڈاہر)
خود اپنے ملک کی زبانوں
سے نفرت کرنا اور انہیں ملکی سلامتی کے خلاف قرار دینا ‘ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا۔
یہ صرف پاکستان میں ہوتا ہی۔ چنانچہ جب قومی اور لسانی بنیادوں پر سرائیکی صوبے کا
مطالبہ کیاجاتا ہے تو یہ بات زبان کے مخالفین پر بجلی بن کر گرتی ہی۔ پاکستان میں لسانی
صوبوں کی مخالفت کرنے والے دو قسم کے طبقات ہیں۔ پہلے طبقے میں وہ لوگ شامل ہیں جو
سیاسی طورپر پسماندہ اور ناپختہ ہیں۔ ان کا تاریخی شعور بہت زیادہ بلند نہیں، اگر ان
لوگوں کو سمجھایاجائے یا سیاسی عمل مسلسل آگے بڑھتا رہے تویہ لوگ لسانی بنیاد پر مجوزہ
صوبہ سرائیکستان کی مخالفت ترک کردیں گی۔ دوسرے طبقے میں ایسے لوگ شامل ہیں جو زبان‘
ثقافت اور قومیتی فلسفے کے دشمن ہیں، یہ لوگ پاکستان کی قومی زبانوں اور یہاں پر آباد
قوموں کی ثقافتی ورثے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، انہیں قائل کرنا بہت مشکل ہی۔ کیونکہ
ان کے نزدیک وطن ایک زمین کے خطے کا نام نہیں بلکہ وطن ایک فکر کا نام ہے اور وہ اپنے نظریے کے جبری نفاذ کے لیے
ہمیشہ زمینی حقائق اور فطری اصولوں سے دست و گریباں رہے ہیں۔ ان نامعقول لوگوں کی خون
آشامی اس مضمون کا موضوع نہیں۔ دوسری طرف قومی اور لسانی بنیادوں پر سرائیکی صوبہ کا
قیام ایک معقول مطالبہ ہے جو فطری اصولوں کے مطابق ہی۔ ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر
لال نہرو نے زبان کو بنیادی اصول بناکر آزادی کے بعد ہندوستان میں نئے صوبے بنائے تھی۔
دنیا بھر کے سیاستدان اور ماہرین لسانیات جواہر لال نہرو کی ذہانت اور ان کی حب الوطنی
کے معترف ہیں۔ یورپی مصنف رابرٹ ڈی کنگ نے اپنی کتاب Nehru and the Language Politics of India میں لسانی مسئلے پر نہرو کی کامیاب حکمت
عملی کو سراہا ہی۔ لہٰذا اگر فطری اصولوں اور ہندوستان کے کامیاب ترین تجربے سے استفادہ
کیاجائے تو پاکستان میں صوبہ سرائیکستان کے قیام کے ساتھ ساتھ پختونخواہ اور بلوچستان
کی بھی نئی حد بندی کی جاسکتی ہی۔ 2 اکتوبر 1998 کو اسلام آباد میں معتبر غیر پنجابی
قوم پرستوں نے صوبہ سرائیکستان کے قیام اور قومیتی بنیادوں پر صوبوں کی نئی حد بندی
پر اتفاق کیا تھا۔ اس موقع پر نیا سیاسی اتحاد پونم ( Pakistan Oppressed Nations' Movement ) معرض وجود
میں آیا۔ اور اس تاریخی حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ آج پاکستان کی تمام غیر
پنجابی اقوام لسانی اور قومی بنیادوں پر مجوزہ صوبہ سرائیکستان کی حامی ہیں۔
صوبہ سرائیکستان کا نقشہ بہت پہلے بنایا گیا تھا جس پر بہاولپور کے رہنمائوں نے بھی اتفاق کیا تھا اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ سرائیکی صوبے کا خیال اور نقشہ سب سے پہلے بہاولپور کے معروف قانون دان ریاض ہاشمی ( مرحوم ) نے پیش کیا تھا۔ میاںوالی اور رحیم یار خان کے ضلع کونسلوں نے مختلف اوقات میں سرائیکی صوبے کے حق میں قراردادیں منظور کی تھیں۔ میاںوالی اور رحیم یار خان کے لوگ اگر اپنے وسیب کے ٹکڑے نہیں چاہتے تو زبان کے دشمن کیوں اس خطے کو انتظامی ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ زبان کے مخالف تاریخ کی عدالت میں اس با ت کا جواب دیں کہ اگر ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام اپنے ہم زبانوں کے ساتھ رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ان کو کیا تکلیف ہی۔ سرائیکی قوم پرستوں نے مجوزہ سرائیکستان کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کی بنیاد زبان اور ثقافت ہی ہی، اس نقشے میں پنجاب کے 20 اضلاع خوشاب، سرگودھا، میاںوالی، بھکر، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاکپتن، ساہیوال، بہاولنگر، وہاڑی، خانیوال، جھنگ، چنیوٹ، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، لودھراں، بہاولپور، رحیم یار خان، راجن پور، ڈیرہ غازیخان اور خیبر پختونخواہ کے دو اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک شامل ہیں۔ زبان کے مخالفوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انتظامی صوبے انگریزوں کی ایجاد ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کو سرحد، اور صوبہ ملتان کو پنجاب میں شامل کیا تھا۔ زبان ثقافت اور زمین کے اشتراک سے قومیں معرض وجود میں آتی ہیں اور خونی رشتے کے بعد انسانوں کا سب سے بڑا تعلق قومی رشتہ ہوتا ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ زبانوں کی ترقی سے ملک کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوتے ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہی، زبانیں ایک دوسرے کو قریب لاتی ہیں‘ دور نہیں کرتیں۔ سرائیکی زبان کو قومی رابطے کی زبان بنانے سے پاکستان کے صوبوں کے درمیان فاصلے کم ہوںگی، زبان کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کسی یونانی مفکر نے کہا تھا کہ انسان کی تین مائیں ہوتی ہیں۔ ایک ماں وہ جو اسے اپنی کوکھ سے جنم دیتی ہی‘ اسکی دوسری ماں اس کا وطن ہوتا ہے جبکہ تیسری ماں اس کی زبان ہوتی ہی‘ چنانچہ زبان ماں کا درجہ رکھتی ہے اور جب سرائیکی زبان کی مخالفت کی جاتی ہے تو سرائیکی نوجوان اسے گالی سمجھتے ہیں۔ بیسویں صدی عیسویں نے تاریخ کے طالب علموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ قومیں اپنی لسانی اور ثقافتی ورثے سے کبھی دستبردار نہیں ہوتیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس ضروری ہے کہ فطری اصولوں کا احترام اور سرائیکستان کی لسانی بنیادوں پر صوبوں پر تشکیل کی جائے اور یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ انسان فطرت کو مسخر کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہی۔ جہاں تک سرائیکی وسیب کے لسانی اقلیتوں کا تعلق ہے تو انہیںقدیم باشندوں سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ سرائیکی قومی فلسفے کے مطابق وسیب کے غیر سرائیکی زبان بولنے والے باشندوں کو نئے صوبے میں حقِ حکمرانی سمیت تمام سیاسی حقوق حاصل ہوںگی۔ اور لسانی اقلیتوں کو اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ اور ترقی کا آئینی حق حاصل ہوگا اور تاریخ اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ سرائیکی وسیب کے قدیم باشندوں نے اپنے وسیب کے غیر سرائیکی زبانیں بولنے والے باشندوں کے ساتھ کبھی کوئی جھگڑا نہیں کیا۔
صوبہ سرائیکستان کا نقشہ بہت پہلے بنایا گیا تھا جس پر بہاولپور کے رہنمائوں نے بھی اتفاق کیا تھا اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ سرائیکی صوبے کا خیال اور نقشہ سب سے پہلے بہاولپور کے معروف قانون دان ریاض ہاشمی ( مرحوم ) نے پیش کیا تھا۔ میاںوالی اور رحیم یار خان کے ضلع کونسلوں نے مختلف اوقات میں سرائیکی صوبے کے حق میں قراردادیں منظور کی تھیں۔ میاںوالی اور رحیم یار خان کے لوگ اگر اپنے وسیب کے ٹکڑے نہیں چاہتے تو زبان کے دشمن کیوں اس خطے کو انتظامی ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ زبان کے مخالف تاریخ کی عدالت میں اس با ت کا جواب دیں کہ اگر ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام اپنے ہم زبانوں کے ساتھ رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ان کو کیا تکلیف ہی۔ سرائیکی قوم پرستوں نے مجوزہ سرائیکستان کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کی بنیاد زبان اور ثقافت ہی ہی، اس نقشے میں پنجاب کے 20 اضلاع خوشاب، سرگودھا، میاںوالی، بھکر، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاکپتن، ساہیوال، بہاولنگر، وہاڑی، خانیوال، جھنگ، چنیوٹ، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، لودھراں، بہاولپور، رحیم یار خان، راجن پور، ڈیرہ غازیخان اور خیبر پختونخواہ کے دو اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک شامل ہیں۔ زبان کے مخالفوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انتظامی صوبے انگریزوں کی ایجاد ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کو سرحد، اور صوبہ ملتان کو پنجاب میں شامل کیا تھا۔ زبان ثقافت اور زمین کے اشتراک سے قومیں معرض وجود میں آتی ہیں اور خونی رشتے کے بعد انسانوں کا سب سے بڑا تعلق قومی رشتہ ہوتا ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ زبانوں کی ترقی سے ملک کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوتے ہیں۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہی، زبانیں ایک دوسرے کو قریب لاتی ہیں‘ دور نہیں کرتیں۔ سرائیکی زبان کو قومی رابطے کی زبان بنانے سے پاکستان کے صوبوں کے درمیان فاصلے کم ہوںگی، زبان کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کسی یونانی مفکر نے کہا تھا کہ انسان کی تین مائیں ہوتی ہیں۔ ایک ماں وہ جو اسے اپنی کوکھ سے جنم دیتی ہی‘ اسکی دوسری ماں اس کا وطن ہوتا ہے جبکہ تیسری ماں اس کی زبان ہوتی ہی‘ چنانچہ زبان ماں کا درجہ رکھتی ہے اور جب سرائیکی زبان کی مخالفت کی جاتی ہے تو سرائیکی نوجوان اسے گالی سمجھتے ہیں۔ بیسویں صدی عیسویں نے تاریخ کے طالب علموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ قومیں اپنی لسانی اور ثقافتی ورثے سے کبھی دستبردار نہیں ہوتیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس ضروری ہے کہ فطری اصولوں کا احترام اور سرائیکستان کی لسانی بنیادوں پر صوبوں پر تشکیل کی جائے اور یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ انسان فطرت کو مسخر کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہی۔ جہاں تک سرائیکی وسیب کے لسانی اقلیتوں کا تعلق ہے تو انہیںقدیم باشندوں سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ سرائیکی قومی فلسفے کے مطابق وسیب کے غیر سرائیکی زبان بولنے والے باشندوں کو نئے صوبے میں حقِ حکمرانی سمیت تمام سیاسی حقوق حاصل ہوںگی۔ اور لسانی اقلیتوں کو اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ اور ترقی کا آئینی حق حاصل ہوگا اور تاریخ اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ سرائیکی وسیب کے قدیم باشندوں نے اپنے وسیب کے غیر سرائیکی زبانیں بولنے والے باشندوں کے ساتھ کبھی کوئی جھگڑا نہیں کیا۔
No comments:
Post a Comment