رحیم یار خان میں سرائیکی صوبہ تحریک کا
ارتقا ء
تحریر: محمد ممتاز خان ڈاہر |
تاریخ اس بات
کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ضلع رحیم یار خان میں سرائیکی صوبہ تحریک کی جڑیں بہت
گہری ہیں اور اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ سرائیکی صوبے کا خیال سب سے پہلے
خان پور ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ
نے پیش کیا۔ انہوں نے A Brief
for Bahawalpur Province کے نام سے کتاب لکھی جس میں
سرائیکی صوبے کا نقشہ شامل کیاگیاتھا۔ ریاض ہاشمی نے بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ،
قاری نور الحق قریشی، سیٹھ محمد عبد الرحمٰن، مظفر مگسی، سردار عبدالطیف کھوسہ
(موجودہ گورنر پنجاب ) حسن رضا گردیزی، اسد اللہ خان لنگاہ، منیر فاطمی، عارف
محمود قریشی، ہاشم خان بابر، مظہر موہل، اشفاق احمد خان، اسلم رسول پوری، محمد
حیات بھٹہ، ایم شفیع اختر، محمد علی مہدی گردیزی، ایم اے بھٹہ، سردار احمد کاظمی
اوردوسرے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر 5 اپریل 1984 کو ملتان میں سرائیکی صوبہ کی
بنیاد رکھی۔ ریاض ہاشمی اس محاذکے اولین سینئر نائب صدر منتخب ہوئی۔ ریاض ہاشمی نے
1988 میں وفات پائی اور بہاولپور کے قبرستان سعدی شیرازی میں پیوند خاک ہوئی۔ ریاض
ہاشمی کے بعد رحیم یار خان کے جس ممتاز سیاسی رہنما نے سرائیکی صوبے کا مطالبہ
کیا۔ ان کا نام عبدالمجید خان کانجو نے 6 مئی 1988 کو بہاولپور میں رائو مہروز
اختر کی صدارت میں اے این پی کا اجلاس ہوا۔ جس میں عبدالمجید خان کانجو، مرزا
اعجاز بیگ ایڈووکیٹ، کامریڈ بوٹا، اکرم ناصر، عطا محمدخالطی اور دوسرے رہنمائوں نے
شرکت کی۔ اس اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی سرائیکی صوبہ تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ
کیا گیا۔ 17 مارچ 1989 کو عبدالمجید خان کانجو بہاولپورمیںاے این پی سرائیکستان کے
اولین صدر مرزا اعجاز بیگ ایڈووکیٹ سیکرٹری جنرل جبکہ راقم الحروف جوائنٹ سیکرٹری
اور ممبر سنٹرل کمیٹی منتخب ہوئی۔ انتخابی اجلاس میں ایم اے بھٹہ، اسلم راشدی،
اسماعیل چیمہ اور دوسرے رہنما شریک ہوئی۔ خان پور ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے
والے سرائیکی قوم کے نامور فرزند ظہور احمد دھریجہ نے سرائیکی صوبہ تحریک میں غیر
معمولی کردار ادا کیا ہی۔ انہوں نے 11جون990کو خان پور سے پہلا سرائیکی اخبار
’’روزنامہ جھوک ‘‘جاری کیا 17نومبر993کو یہ اخبار ملتان سے شائع ہونا شروع ہوا۔
حال ہی میں جھوک ا خبار نے ڈیرہ اسماعیل خان سے اپنی اشاعت کا آغاز کیا ہی۔ ظہور احمد
دھریجہ نے تاریخ کو یہ پیغام دیا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان، ملتان اور بہاولپور ایک
ہی وسیب کے حصے ہیں۔ کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان کے سرائیکی کارکن ریاض حسین کھرل
سرائیکی صوبہ میں بہت فعال ہیں انہوں نے 1997میں مردم شماری کے مسئلے پر پاکستان
سرائیکی پارٹی میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ رحیم یار خان کی معروف شخصیت سید خلیل احمد
بخاری نے 1982میں ساتھی طالب علموں کے ساتھ مل کر سرائیکی ادبی سنگت کی بنیاد
رکھی۔ بعد میں وہ سرائیکی لوک سانجھ کے سیکرٹری نشرواشاعت مقرر ہوئی۔ 7مئی005کو
سید خلیل احمد بخاری نے قاضی عبدالوحید اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر رحیم یار
خان میںپتن منارہ کانفرنس منعقد کی 15اگست008کو سید خلیل احمد بخاری نے سرائیکی
صوبہ تحریک کے متعلق عوام میںآگاہی کے فروغ کے سلسلے میں ایک سیمینار منعقد
کرایا۔مئی005کو سید جاوید حیدراور ارشاد امین نے رحیم یار خان میں سرائیکی قومی
حقوق پر ایک سیمینار منعقد کرایا جس سے عبدالمجید خان کانجو، تاج گوپانگ، مجاہد
جتوئی اور دوسرے رہنماؤں نے خطاب کیا۔ سرائیکی صوبہ تحریک کے ایک اور کردار قاضی
عبدالوحید 1999میں انور خان ڈاہر، ذوالفقار عباسی، وزیر احمداور ملک محمود کے
ہمراہ سرائیکی پارٹی میں شامل ہوئی۔ 30دسمبر011کو قاضی عبدالوحید سید خلیل احمد
بخاری ،شاکر حسین، ریاض حسین کھرل اور ضلع رحیم یار خان کے دوسرے سرائیکی قوم
پرستوں نے بہاولپور میں دریائے ستلج پرپاکستان سرائیکی پارٹی کے احتجاجی دھرنے میں
شرکت کی۔ 23نومبر011کو خان بیلہ ضلع رحیم یار خان میں سرائیکی صوبہ کی حمایت میں
ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا جس میں اندازہ ہے دس ہزار افراد نے شرکت کی۔ خیال ہے
کہ سرائیکی صوبہ تحریک کے دوران یہ سب سے بڑا اجتماع تھا اس کا اہتمام رحیم یار
خان کی ممتاز شخصیت مخدوم زادہ مبین احمد نے کیاتھا۔ اس جلسے سے ڈپٹی سپیکر قومی
اسمبلی فیصل کریم کنڈی، جمشید احمد خان دستی، تاج محمد خان لنگاہ، مخدوم احمدعالم
انور، محمد احمد خان کانجو، ظہور احمد دھریجہ، خواجہ غلام فرید کوریجہ، غضنفر عباس
لنگاہ، میاں محمد شفیع، شہزادخان جتوئی، نذیر خان چانڈیو،محمد اکبر انصاری، رانا
فراز نون، ساجدہ احمد خان لنگاہ اور کچھ دوسرے مقررین نے خطاب کیا۔ رازش لیاقت
پوری سرائیکی صوبہ تحریک کے ایک اہم اور فعال کردارہیں۔ معروف سرائیکی قوم پرست
شاعر مجاہد جتوئی کا تعلق بھی ضلع رحیم یار خان سے ہے مرید حسین راز جتوئی نے
سرائیکی صوبے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔
No comments:
Post a Comment