Saturday, 10 March 2012

بیاد سید ضمیر جعفری

بیاد سید ضمیر جعفری
اردو ادب کی عہد ساز شخصیت ، جناب سید ضمیر جعفری کی یاد میں ایک  ہنستی مسکراتی تقریب
قارئین کرام،ارض وطن پاکستان  کے منفرد اور صاحب طرز مزاح نگار، شاعر اور ادیب جناب سید ضمیر جعفری  کا تیرھواں یاد وصال کچھ اس طور سے منایا گیا، کہ روح ضمیر جعفری بھی یقیناّ خوشی سے جھوم اٹھی ہو گی کہ آج کی اس محفل کو کچھ ایسی ہی میٹھی یادوں سے آراستہ کیا گیا تھا - غموں کے بادلوں کو مسکراہٹوں اور قہقہوں سے تحلیل  کرنا ہی ساری زندگی ان کا متمع ` نظر رہا اور یہی ان کی شاعری کا اچھوتا اسلوب بھی تھا .
جدہ میں سعودیہ سٹی کے تفریحی مقام پر نیلگوں تالاب کنارے مسکراتی ہوئی شام سید ضمیر جعفری کی خوشگوار یادیں اور لطافتیں دامن میں لئے مدعوین کا استقبال کر رہی تھی.
 تقریب تو یقیناّ ان کے وصال کے حوالے سے ہی تھی، مگر حقیقتاّ ان کی لطیف اور شگفتہ یادوں سے ملن کی شام تھی. دلیل یہ تھی کہ آغاز سے انجام تک ہر مہمان کے چہرے پر ایک لطیف مسکراہٹ شاعر خوش مقال کو سپاس محبت و عقیدت پیش کرتی رہی.
مہمانوں کا استقبال ڈاکٹر توقیر حیدر اور ان کی اہلیہ محترمہ نے کیا.ڈاکٹر توقیر حیدر ضمیر جعفری کے سگے بھتیجے بھی ہیں اور یہ محفل انہوں نے ہی جعفری صاحب کی تیرھویں برسی کی مناسبت سے سجائی.  

. جدہ میں تعینات پاکستان کے علم وادب دوست قونصل جنرل جناب عبدالسالک خان کرسی` صدارت پر متمکن تھے جبکہ شہر کی معروف سماجی شخصیت اور پاکستان کے سابقہ وفاقی وزیر جناب چوہدری شہباز حسین مہمان خصوصی کی مسند پر تشریف فرما تھے اور ان کے ساتھ جدہ میں مقیم پاکستان کے معروف شاعر جناب قمر حیدر قمر مسند اعزاز پر رونق افروز تھے. دیگر مہمانوں میں تقریبا ہر طبقہٴ فکر سے تعلق رکھنے والے معززین جن میں جناب مجاہد سید، ریاض بخاری، عمران صدیقی (وائس قونصل جدہ)، جہانگیر ورک (قونصل ویلفئیر جدہ)، محمد مختارعلی، مطاہر رضوی ،حامد اسلام، عامر خورشید،زمرد سیفی، محمود حیدر، شاہین رضا جعفری، عبدالقیوم واثق، انوار حسین، ناصر برنی، فیصل طفیل،وقار آصف،فاروق بٹ، موسیٰ رضا اور دیگر ا حباب بمعہ بیگمات کے موجود تھے
. نظامت کے فرائض جناب محمد اشفاق بدایونی کے سپرد تھے. جو انہوں نے خوب نبھائے، جعفری صاحب کی زندگی کے پر مزاح واقعات اوراشعار کی پھلجھڑیوں سے انہوں نے قارئین کے چہروں کو مسکراہٹوں سے خوب سجائے رکھا .
 تقریب کا باقائدہ آغاز تلا وت کلام پاک سے ہوا، ضمیر جعفری ہی کی لکھی ہوئی مترنم نعت رسول مقبول مقامی شاعر جناب انوار حسین نے اپنے دلآویز لحن  میں پڑھی. یہ نعت شریف١٩٧٧ میں مدینہ منورہ حاضری پرنماز فجر کے فوراّ بعد روضہٴ رسول کی جالی کے سامنے بیٹھے ہوئے کہی گئی . چند اشعار ملاحظہ ہوں،
رسول اللہ کے روضے کی جالی سامنےمیرے
مجسم ہے میری خلد خیالی سامنے میرے
تمنا جس سکون قلب کی رہتی ہے جینے میں
وہ دولت عام ملتی ہے محمد کے مدینے میں
جدہ میں مقیم دبستان ادب ہندوستان سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر، دانشور اور ادیب جناب مجاہد سید نے ضمیر جعفری کی سنجیدہ شاعری کے حوالے سے ایک مقالہ بہ عنوان "عصمت لوح و قلم کا پاس رکھنے والے شاعر سید ضمیر جعفری کی سنجیدہ شاعری میں حیات و کائنات کی جھلکیاں - "آگ اکتارہ کا تنقیدی مطالعہ" بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا. جو سا معین نے نہایت انہماک سے سنا اور سراہا. "آگ اکتارہ" سید ضمیر جعفری کی سنجیدہ غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے .
جناب مجاہد سید کہتے ہیں " زمانہ ` دراز تک سید ضمیر جعفری کی حس مزاح نے اقلیم شعر کو زعفران زار بنائے رکھا اور آئندہ زمانوں میں بھی انہیں مزاحیہ شاعری کے امام کی حیثیت حاصل رہے گی . لیکن ان کی سنجیدہ شاعری بھی اس قابل ہے کہ اسے توجہ سے پڑھ کر اس میں پنہاں حیات و کائنات کی جھلکیاں دیکھ لی جائیں اور مسرت سے بصیرت تک کا سفر مکمل کر لیا جائے" ،
 .منتخب نمونۂ کلام ملاحظہ ہو،
دشت بے باراں میں رہنے والے پیا سے ساتھیو!
لفظ تو اتنی بھری برسات والے مت لکھو
عصمت لوح و قلم کا پاس کچھ تو چاہیے
کم سے کم اندھے اندھیروں کو اجالا مت لکھو

آدمی اور زندگی کا بھی عجب سنجوگ ہے
پار کرنا ہے سمندر اور کنارہ بھی نہیں  
حسرتیں تو اب بھی ہیں لیکن طلاتم کی بغیر
یعنی دریا بہہ رہا ہے اور کنارہ بھی نہیں

بہت مقروض ہیں ان مہرباں پیڑوں کی چھاؤں کے
کہ اک پتے کی قیمت بھی ادا ہوتی نہیں ہم سے

زمیں پر کس جگہ درویش کا بستر نہیں ہوتا
زمانہ اس کا گھر ہوتا ہے جس کا گھر نہیں ہوتا
تماشا زندگی کا ہم نے دیکھا ہے بہت لیکن
سر مقتل جو ہوتا ہے سر منبر نہیں ہوتا
کوئی شے اپنی وضع خاص سے عاری نہیں ہوتی
جو منظر وادیوں میں ہے پہاڑوں پر نہیں ہوتا
خرابی اب تو سناٹے سے کچھ آگے گزر آئی
جو خطرہ شہر میں ہے دشت کے اندر نہیں ہوتا-
قا رئین کرام! سید ضمیر جعفری کی اصل پہچان تو بہرحال قہقہے بکھیرتی ہوئی ان کی مزاحیہ اور طنزیہ شاعری ہی ہے. اسی اعتبار سے مقامی شاعر  جناب محمد مختار علی نے جعفری صاحب کی مقبول نظم "پرانی موٹر کار" اپنے مخصوص انداز میں پیش کی تو محفل زعفران زار بن گئی . چند اشعار ملاحظہ ہوں،
وہ چلتی ہے تو دو طرفہ ندامت ساتھ چلتی ہے
 بھرے بازار کی پوری ملامت ساتھ چلتی ہے
بہن کی التجا، ماں کی محبت، ساتھ چلتی ہے
وفائے دوستاں بہر مشقت ساتھ چلتی ہے 
بہت کم اس خرابے کو خراب انجن چلاتا ہے
عموماّ زور دست دوستاں ہی کام آتا ہے
کبھی بیلوں کے پیچھے جوت کر چلوائی جاتی ہے
کبھی خالی خدا کے نام پر کھچوائی جاتی ہے
پکڑ کر بھیجی جاتی ہے جکڑ کر لائی جاتی ہے
وہ کہتے ہیں کہ اس میں پھر بھی موٹر پائی جاتی ہے 
 اسکے بعد ڈاکٹر سید توقیر حیدر نے ایک نظمیہ سپاس عقیدت  " میرا عم بھی تھا، میرا پیر تھا" کے عنوان سے  شاعر بزرگ کی خدمت میں کچھ اسطرح  پیش کیا، دو بند ملاحظہ ہوں،
جو ظرافتوں کا امیر تھا
وہ جو الفتوں کا اسیر تھا
وہ مزاج کا جو فقیر تھا
وہ سخن کا ماہ منیر تھا
وہ ضمیر تھا، وہ ضمیر تھا
وہ ضمیر تھا، وہ ضمیر تھا

اک انجمن تھا وہ ذات میں
ہمہ رنگ اپنی صفات میں
میرا راہبر تھا حیات میں
کئی راز اس کے نکات میں

وہ شرافتوں کا امین تھا
میرے دور کا وہ یقین تھا
وہ جو آپ اپنی نظیر تھا
وہ ضمیر تھا، وہ ضمیر تھا
 سید ضمیر جعفری کی فنی اور ذاتی زندگی پر مبنی ایک دستاویزی فلم "شاعر زندہ" کے عنوان سے دو حصوں میں پیش کی گئی. جو اول تا آخر سامعین و ناظرین کیلئے  مرکز نگاہ شوق بنی رہی ،
مشہور شاعراورادیب جناب امجد اسلام امجد کہتے ہیں " بے شک جعفری صاحب کی مقبولیت ان کی مزاحیہ شاعری کی وجہ سے ہی ہے، لیکن ان کی سنجیدہ شاعری بھی اسی معیار کی ہےکہ اگرآپ مزاح نہ بھی لکھتے اور صرف سنجیدہ شاعری ہی کرتے تو بھی اس کا معیار ایسا ہی ہوتا"
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت 
ہو نہ ہو دشت و چمن میں اک تعلق ہے ضرور
با د صحرائی بھی خوشبوئیں اڑا لائی بہت
مطمئن ہو دل تو ویرانوں کے سناٹے بھی گیت
دل اجڑجائے تو شہروں میں بھی تنہائی بہت
منیر نیازی بھی اپنے مخصوص انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں " جعفری صاحب کا مزا ح بے ساختہ ہے. کچھ مزا ح نگاروں کو سن کر لگتا ہے جیسے کوشش سے مزا ح پیدا کیا گیا ہو، مگر جعفری صاحب کے مزاح میں ایک فطری بے ساختگی ہے اور وہ بڑے آرام سے نپے تلے انداز میں اپنی اس صفت پر قادرتھے"
دستاویزی فلم کے دوسرے مرحلے میں جناب خالد محمود عارف  (ریٹارڈ لیفٹیننٹ جنرل اور آرمی چیف )، جناب الطاف حسن قریشی(مدیر اردو ڈائجسٹ)، جناب پروفیسر پریشان خٹک صاحب نے بھی بلترتیب آپ کی شاعری اور شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی.
جہاں پر  اس دستاویزی فلم میں پاکستان کے نامور شعرا` ادیبوں اور دانش وروں نے اپنے عصر کے اس منفرد شاعر اور مزاح نگار پر گل ہائے عقیدت و تحسین نچھاور کئے وہاں پر سید ضمیر جعفری کی شاعری کے اقتباسات بہ زبان شاعر بھی پیش کئے گئے،اس طرح ایک مدت کے بعد وہی مانوس صورت اور مترنم آواز مسکراہٹوں کے پھول بکھیرتی ادب کے رسیالوں کی سماعتوں میں رس گھولتی ہوئی شادابی` شام کا حصہ بن گئی.
ضمیر جعفری ہی کے ان اشعار کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں،
لمحہ لمحہ رینگتی حیات ختم ہوتی ہے
زرہ زرہ اڑ کے کائنات ختم ہوتی ہے
یہ تو ایک جسم تھا جو تھک گیا، جو سو گیا
زندگی کب آدمی کے ساتھ ختم ہوتی ہے

تقریب کا  دوسرا حصہ جدہ میں مقیم پاکستان اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے شعرا ` کے رنگ تغزل سے مزین تھاجسے  سامعین نے بڑے شوق سے سنا اور سراہا . یقیننا یہ تقریب جدّہ کے ادبی حلقوں میں ایک عرصہ تک  یاد رکھی جائے گی.

اللہ حافظ    ڈاکٹر سید توقیر حیدر


شرکاء

شرکاء

شرکاء

شرکاء

شرکاء



شرکاء





No comments:

Post a Comment