Saturday, 3 March 2012

"قرضِ ہنر" شاعر محمد مختار علی

          عہدِ حاضر میں اچھی، دیر پا، توانائی بخش، یاد رہنے اور رکھے جانے والی شاعری اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ میرے نزدیک اچھے شعر وہ ہیں جو قارئین کو سر سری نظر ڈال کر آگے بڑھ جانے سے روک کر گہری نظر ڈالنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دس میں صرف دو یا تین شعراءکا کلام قاری کو اپنی گرفت میں لے کر اس کے ادبی ذوق اور علمی بالیدگی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ بطورِ ثبوت چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
دید بھی تھی اس کی دوا جیسی
غم ہوئے ایک ہی جھلک سے پرے
شور و شر سے میں دُور ہوں مختار
میرا گھر ہے بڑی سڑک سے پرے
زندہ تھے اگرچہ لوگ مختار
پر ان کا ضمیر مر چکا تھا
میں ایک سنگ بھلا کیسے موم ہوجاتا
سوگر کے ٹوٹ گیا ایک آئینہ مجھ پر
خیال و خواب میں تشکیل کر کے عالمِ نَو
میں پڑھ رہا ہوں مزے سے کتابِ آئندہ
بیٹھا رہتا ہوں سدا کاسۂ اُمید لئے
جانے کب اس کی طبیعت میں لَچک آتی ہے
آنکھ کا کیا ہے ذرا بس نہیں چلتا اس پر
بعض اوقات تو بے وجہ چمک آتی ہے
ان اشعار میں جدید حسیت، عصریت، نیا پن اور اَنمٹ تازگی کا احساس عیاں ہے اور ان اشعار کے خالق محمد مختارؔ علی ایسے جواں سال، خوش فکر اور باصلاحیت شاعر ہیں جن سے متعدد مثبت اور توانا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔آثار بتاتے ہیں کہ انشاءاللہ ان کا مستقبل تابناک اور معطّر ہوگا۔ آمین
میں ذاتی طور پر اظہارِ خیال (یا اظہارِ رائے) میں طوالت کی جگہ اختصار کو پسند کرتا ہوں اسی سبب تحریر مختصر ہے۔ "قرضِ ہنر" کو متنوع انداز میں سلیقے سے پیش کر کے موصوف نے روایت شکنی کرتے ہوئے نہ صرف انفرادیت بلکہ جدّت پسندی سے کام لیا ہے جس کے لئے وہ لائق مبارکباد ہیں اور ساتھ ہی سینئر شعراءاور اہلِ قلم سے ملتمس ہوں کہ وہ ہونہاروں اور اہلِ جوہر کی رہنمائی و سرپرستی کے عمل کو تیز کریں تاکہ ادب میں معنیٰ خیز اضافہ ہوتا رہے۔ اور یہی وقت کا تقاضا ہے۔
سید محمود خاور        
ریسرچ سکالر، رائٹر اینڈ جرنلسٹ

No comments:

Post a Comment