حضرت محمد مصطفیٰؐ کون و مکاں میں تکمیل عالم انسانیت کے لئے ایک کامل نمونہ بن کر آئی۔ آپ کی تشریف آوری نہ صرف دنیا میں بلکہ دیگر جہانوں میں بھی رحمت کا باعث ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے کہ انہوں نے آپ ؐ کو ہادئ زماں نبی آخرالزماں بنایا ۔ چونکہ یہ منشأ ایزدی تھا کہ دنیا میں یتیمی کی حالت میں پرورش پانی اور دنیا کی کسی یونیورسٹی ، کسی استاد سے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا ۔ اور براہ راست اللہ تعالیٰ سے حکمت و معرفت کا علم حاصل کیا۔عالم انسانیت کے ہر فرد خواہ وہ غریب ہو یا امیر، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ اور شعبہ زندگی کے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ آپ ؐ کی ذات اقدس سب کے لئے ایک رہبر و رہنما کی حیثیت رکھتی ہی۔ ایک ایسی ہستی جس نے دنیا کے کسی مکتب اور استاد سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو ان کے ذریعہ سے قرآن حکیم جیسی عظیم المرتبت کتاب جو بلاتفریق سارے انسانوں کو مخاطب ہو اور پندرہ سو سال سے دنیا بھر کے ہر سطح کے عالم ، فاضل، دانشور، مفکراور معلم کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہو ۔ ایک ایسا پیغمبر جس کی زندگی کا ہر عمل اور قول زمانے بھر کے لئے رشد و ہدایت ہو ۔ کیا اس کے بالیقین سچا ہونے میں کوئی شک و شبہ ہو سکتا ہے ۔ وہ دنیا کا سب سے بد قسمت شخص ہی ہو سکتا ہے جو آپ ؐ کی زندگی کا مطالعہ کرنے اور جاننے کے باوجود آپ پر ایما ن لانے سے محروم رہا۔
آپ ؐ کی سیرت کا ہر پہلو دعوت و تبلیغ کی حکمت سے لبریز ہی۔ کُرۂ ارض پر آپ ؐ کی آمد ساری انسانیت کے لئے ایک نوید مسرّت و فرحت ہے ۔اس مناسبت سے آپ ؐ کی زندگیکے ایسے پہلو کو اجاگر کرنا مقصود ہے جس سے پڑھنے والوں کو دین کی دعوت و تبلیغ کے کچھ اہم پس منظر اور اس کی حکمت کا پتہ چل سکی۔
سن ۶ ہجری ماہ ذی قعد رسول اکرم حضرت محمد ؐ حضرت ثمیلہ بن عبداللہ لیثیؓ کو مدینہ منورہ کا عامل مقرر فرماکرچودہ سو جانثاروں کے ہمراہ بیت اللہ زیارت کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہوئے ۔ آپ کا مقصد زیارت کعبہ تھی ستر اونٹ قربانی کی غرض سے ساتھ لے لئے اور حفاظت کے لئے تلوار بھی ساتھ لے لی۔ کیونکہ عرب میں اس کا رواج تھا۔ آپؐ نے مقام ذوالحلیفہ پر پڑائو ڈالا اور حالات کا جائزہ لینے کے لئے بشیر بن سفیانؓ کو بھیجا انہوں نے آکر اطلاع دی کہ کفار مکہ جنگ کے لئے تیار ہیں ۔ رسول اللہ ؐنے صحابہ کرام ؓ کے مشورہ سے اس راستہ کو چھوڑ دیا اور پہاڑوں میں سے گزر تے ہوئے حدیبیہ کے مقام پر پڑائو ڈالا۔ اس میدان میں ایک کنواں تھا جس کو حدیبیہ کہتے تھے قرآن مجید نے اس جگہ کو بطن مکہ کہا ہی۔ قریش مکہ کو جب حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کے پڑائو کا علم ہوا۔ تو انہوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا۔ مسلمانوں کے حلیف بنو امیہ کے سردار نے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں آکر قریش مکہ کے ارادوں سے آگاہ کیا ۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا قریش سے جاکر کہہ دو کہ ہم صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں ہمیں جنگ مطلوب نہیں ۔ قریش کے لئے یہ بہتر ہے کہ ایک مخصوص مدت تک کے لئے صلح کرلیں ۔ اور مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیں ۔ اگر اس پر بھی وہ راضی نہیں تو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے میں یہاں تک لڑوں گا کہ میری گردن الگ ہوجائے اور اللہ بہتر فیصلہ فرمائے گا۔ اس ارشاد مبارک میں آپ نے صلح کی طرف اشارہ فرمایا اور ساتھ ہی قریش کو انتباہ بھی کردیا۔ قریش نے ایک عمررسیدہ شخص عمرو بن مسعود کو اپنا سفیر بنا کر رسول اللہ ؐ کے پاس بھیجاعمرو بن مسعود نے آکر حالات کا جائزہ لیا اور آپ ؐ سے بات چیت کی آپ ؐنے اس کو بھی یہی ارشاد فرمایا ۔ میری نیت لڑنے کی نہیں البتہ اگر قریش لڑیں گے تو میں مدافعت ضرور کروں گا۔ ہم صرف عمرہ ادا کرنے کی نیت سے آئے ہیں ۔ یہ بات چیت فائدہ مند نہ رہی اس نے جاکر قریش سے کہا۔ واللہ میں نے حبشہ کے بعد نجاشی ، قیصراور کسریٰ کے دربار دیکھے ہیں مگر جتنی تعظیم محمد ؐ کے ساتھی آپ کی کرتے ہیں وہ کسی بادشاہ کے
دربار میں بھی نصیب نہ ہوئی ۔ لیکن قریش نے عمرو بن مسعود کی بات نہ مانی ۔ آپ ؐ نے بات کو آگے بڑھانے کے لئے حضرت فراش بن امیہ کو قریش کے پاس بھیجا مگر قریش مکہ نے ان کی سواری کو مار ڈالا۔ اور وہ بھی مشکل سے اپنی جان بچا کر آئی۔آپ ؐنے قریش کے ساتھ مصالحت کرنے کے لئے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو مکہ روانہ فرمایا ۔ حضرت عثمان ؓ نے آپ کا پیغام مکہ کے سرداروں کو پہنچایا۔ مگرمکہ کے سردار اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے ۔ اور کہا کہ محمدؐ کو اپنی زندگی میں مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے البتہ اگر تم چاہوتو بیت اللہ کا طواف کرلو۔ اس پر حضرت عثمان ؓنے انہیں یہ جواب دیا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میرے آقا حضرت محمد ؐتو حدیبیہ کے مقام پر رکے رہیں اور میں اکیلا طواف کروں ۔ اس دوران یہ افواہ گرم ہوئی کہ قریش مکہ نے حضرت عثمان ؓ کو شہید کردیا ہی۔ اس خبرسے رسول اللہ ؐ اور مسلمانوں کو بہت دکھ ہوا۔ رسول اللہ ؐنے ببول کے درخت کے نیچے صحابہ ؓ سے بیت لی کہ حضرت عثمانؓ کا قصاص لینے کے لئے اگر قریش مکہ سے لڑنا پڑا تو آخر وقت تک
لڑیں گے ۔ مسلمانوں نے یہ عہد کیا کہ جب تک حضرت عثمانؓ کے قتل کا بدلہ نہ لے لیں گے واپس نہ جائیں گی۔ تمام صحابہؓ نے بیعت کی ۔ اس کے بعد آپؐ نے اپنے دائیں ہاتھ کو حضرت عثمانؓ کا داہنا ہاتھ قرار دیا اور ان کی طرف سے اپنے داہنے ہاتھ پر بیعت کی ۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا گیا ہے ۔ اس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : "لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ " تر جمہ: ائے پیغمبر ! اللہ تعالیٰ ان مومنین سے راضی ہوا جب وہ تیرے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے (سورۃ الفتح آیہ ۵۱)۔ قریش مکہ کو بیعت رضوان کے بارے میں پتہ چلا تو وہ خوف زدہ ہو گئے ۔ اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ مصالحت کرنے پر تیار ہوگئے ۔ قریش مکہ نے سہیل بن عمرو کو سفیر بنا کر بھیجا ۔ گفت و شنید کے بعد صلح نامہ طے پایا جس کی شرائط درج ذیل ہیں: ۱۔ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی اور کوئی کسی کو تنگ نہیں کرے گا۔ ۲۔ عرب کے تمام قبائل کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں حلیفانہ معاہد ہ کرسکتے ہیں۔ ۳۔ اگر قریش مکہ سے کوئی مسلمان ہوکر مدینہ منورہ چلا جائے تو اس کو واپس کرنا ہوگا اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان دین اسلام کو چھوڑ کر مکہ چلا جائے گا تو اس کوواپس نہیں کیا جائے گا۔ ۴۔ حضور اکرم ؐ جاتے ہوئے مکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے ساتھ لیکر نہیں جائیں گے ۔ ۵۔ مسلمانوں کو اس سال عمرہ ادا کئے بغیر واپس جانا ہوگا۔ اگلے سال ہتھیا ر لگا کر نہیں آئیں گے صرف تلوار ساتھ لائیں گے وہ بھی نیام میں ہوگی۔حضور اکرمؐ نے صلح نامہ کے مطابق اس سال عمرہ ادا کرنے کا ارادہ ملتوی فرمایا۔ آپؐ اور صحابہ کرامؓ نے قربانی دی۔ بال کٹوائے اور احرام کھول دیے ۔ اس کے بعد رسول اللہؐ نے بیس روز حدیبیہ کے مقام پر قیام فرمایا اور مدینہ منورہ واپسی پر سورۃ الفتح نازل ہوئی ۔صلح نامہ حدیبیہ کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ جب مسلمان حدیبیہ سے معاہدہ طے کرنے کے بعد واپس مدینہ منورہ جارہے تھے تو واپسی پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے سورۃ الفتح نازل ہوئی۔ جس میں اس صلح کو فتح مبین کا نام دیا گیا اور مسلمانوں کو خوشخبری دی گئی کہ عنقریب ایک اور لڑائی میں فتح نصیب ہوگی۔ اور بہت زیادہ مال غنیمت بھی حاصل ہوگا۔ اس طرح باطل کی قوتیں پاش پاش ہو جائیں گی اور حق کو غلبہ حاصل ہوگا۔یہ سورۃایک طرح سے فتح مکہ کی خوشخبری تھی۔ اس صلح سے پیشتر قریش مکہ مسلمانوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اپنی برتری کے قائل تھے ان کی ہر ممکن کوشش تھی کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں تاکہ وہ اسلام کا نام نہ لے سکیں۔ لیکن صلح حدیبیہ کی وجہ سے مسلمان کفار مکہ کے برابر آگئے اس طرح قریش مکہ نے مسلمانوں کے اقتدار کو تسلیم کر لیا۔ چونکہ اس معاہدہ میں امن و صلح کو فوقیت دی گئی اور یہ بات ثابت کی گئی کہ اسلام امن و صلح کو فوقیت دیتا ہی۔ اس لئے ہمسایہ قبائل پر اس کے مثبت اثرات پڑے ۔ صلح حدیبیہ تک کفار کے حملوں کا ڈر اور خوف رہتا تھا جس کی وجہ سے تبلیغ پر مکمل توجہ نہیں دی جاسکتی تھی ۔ اس صلح کے بعد مسلمانوں کو اپنی صلاحیتیں اسلام کا پیغام پہنچانے پر صرف کرنے کا موقع ملا۔ مختلف قبائل نے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات استوار کئے ۔ صلح حدیبیہ کے معاہدے کی بناء پر مسلمانوں نے آئندہ سال عمرہ ادا کیا اور مکہ میں آمدورفت شروع ہوئی ۔ لوگوں کے میل جول سے لوگوں میں اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہوا دیگر قبائل نے اسلام کے اصولوں پر غور کرنا شروع کیا۔ جس کے نتیجہ میں عرب کے مشہور قبائل دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے دو سال بعد مسلمانوں کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہوگئی۔
l صلح حدیبیہ کے بعد قریش مکہ کے بظاہر معاشی حالات بہتر ہوگئے تھے مگر جب قبیلہ بنو حنیفہ کے رئیس ثمامہ بن اثال نے اسلام قبول کر لیا تو اس نے مکہ کو غلہ بھیجنے پر پابندی لگادی ۔ اہل مکہ پہلے ہی قحط کا شکار تھے غلہ پر پابندی کے بعد اور زیادہ قحط سالی ہوگئی ۔ ابو سفیان مدینہ منورہ میں آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپکی قوم قحط سالی سے ہلاک ہو رہی ہے ۔ آپ ان کے لئے دعا فرمائیں۔ آپ ؐ نے دعا بھی فرمائی اور پانچ سو دینار نقد عنایت فرمائی۔ ابو سفیان کو کھجوروں کا ہدیہ دیا اور ساتھ ہی ثمامہ بن اثال کو ہدایت کی کہ وہ قریش مکہ کو غلہ بند نہ کری۔ اس طرح سے قریش مکہ کا یہ پہلا اعتراف شکست تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو کفار مکہ کی طرف سے بے فکری ہوئی تو پھر رسول اللہ ؐ نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل شروع کی۔ اور آپ نے ہمسایہ ممالک کے سربراہان کو اسلام کی طرف دعوت نامے ارسال کئے ۔جس کے نتیجہ میں کئی سربراہان نے اسلام قبول کیا۔ اور بہت تھوڑے عرصے میں اسلام کو ایک بین الاقوامی مذہب کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو کفار مکہ کی طرف سے حملوں کا خطرہ ٹل گیااور مسلمانوں کو ترقی حاصل ہوئی ۔ کفار مکہ نے خودتنگ آکر معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو مکہ کو فتح کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس طرح صلح حدیبیہ فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔
سن ۶ ہجری ماہ ذی قعد رسول اکرم حضرت محمد ؐ حضرت ثمیلہ بن عبداللہ لیثیؓ کو مدینہ منورہ کا عامل مقرر فرماکرچودہ سو جانثاروں کے ہمراہ بیت اللہ زیارت کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہوئے ۔ آپ کا مقصد زیارت کعبہ تھی ستر اونٹ قربانی کی غرض سے ساتھ لے لئے اور حفاظت کے لئے تلوار بھی ساتھ لے لی۔ کیونکہ عرب میں اس کا رواج تھا۔ آپؐ نے مقام ذوالحلیفہ پر پڑائو ڈالا اور حالات کا جائزہ لینے کے لئے بشیر بن سفیانؓ کو بھیجا انہوں نے آکر اطلاع دی کہ کفار مکہ جنگ کے لئے تیار ہیں ۔ رسول اللہ ؐنے صحابہ کرام ؓ کے مشورہ سے اس راستہ کو چھوڑ دیا اور پہاڑوں میں سے گزر تے ہوئے حدیبیہ کے مقام پر پڑائو ڈالا۔ اس میدان میں ایک کنواں تھا جس کو حدیبیہ کہتے تھے قرآن مجید نے اس جگہ کو بطن مکہ کہا ہی۔ قریش مکہ کو جب حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کے پڑائو کا علم ہوا۔ تو انہوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا۔ مسلمانوں کے حلیف بنو امیہ کے سردار نے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں آکر قریش مکہ کے ارادوں سے آگاہ کیا ۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا قریش سے جاکر کہہ دو کہ ہم صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں ہمیں جنگ مطلوب نہیں ۔ قریش کے لئے یہ بہتر ہے کہ ایک مخصوص مدت تک کے لئے صلح کرلیں ۔ اور مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیں ۔ اگر اس پر بھی وہ راضی نہیں تو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے میں یہاں تک لڑوں گا کہ میری گردن الگ ہوجائے اور اللہ بہتر فیصلہ فرمائے گا۔ اس ارشاد مبارک میں آپ نے صلح کی طرف اشارہ فرمایا اور ساتھ ہی قریش کو انتباہ بھی کردیا۔ قریش نے ایک عمررسیدہ شخص عمرو بن مسعود کو اپنا سفیر بنا کر رسول اللہ ؐ کے پاس بھیجاعمرو بن مسعود نے آکر حالات کا جائزہ لیا اور آپ ؐ سے بات چیت کی آپ ؐنے اس کو بھی یہی ارشاد فرمایا ۔ میری نیت لڑنے کی نہیں البتہ اگر قریش لڑیں گے تو میں مدافعت ضرور کروں گا۔ ہم صرف عمرہ ادا کرنے کی نیت سے آئے ہیں ۔ یہ بات چیت فائدہ مند نہ رہی اس نے جاکر قریش سے کہا۔ واللہ میں نے حبشہ کے بعد نجاشی ، قیصراور کسریٰ کے دربار دیکھے ہیں مگر جتنی تعظیم محمد ؐ کے ساتھی آپ کی کرتے ہیں وہ کسی بادشاہ کے
دربار میں بھی نصیب نہ ہوئی ۔ لیکن قریش نے عمرو بن مسعود کی بات نہ مانی ۔ آپ ؐ نے بات کو آگے بڑھانے کے لئے حضرت فراش بن امیہ کو قریش کے پاس بھیجا مگر قریش مکہ نے ان کی سواری کو مار ڈالا۔ اور وہ بھی مشکل سے اپنی جان بچا کر آئی۔آپ ؐنے قریش کے ساتھ مصالحت کرنے کے لئے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو مکہ روانہ فرمایا ۔ حضرت عثمان ؓ نے آپ کا پیغام مکہ کے سرداروں کو پہنچایا۔ مگرمکہ کے سردار اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے ۔ اور کہا کہ محمدؐ کو اپنی زندگی میں مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے البتہ اگر تم چاہوتو بیت اللہ کا طواف کرلو۔ اس پر حضرت عثمان ؓنے انہیں یہ جواب دیا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میرے آقا حضرت محمد ؐتو حدیبیہ کے مقام پر رکے رہیں اور میں اکیلا طواف کروں ۔ اس دوران یہ افواہ گرم ہوئی کہ قریش مکہ نے حضرت عثمان ؓ کو شہید کردیا ہی۔ اس خبرسے رسول اللہ ؐ اور مسلمانوں کو بہت دکھ ہوا۔ رسول اللہ ؐنے ببول کے درخت کے نیچے صحابہ ؓ سے بیت لی کہ حضرت عثمانؓ کا قصاص لینے کے لئے اگر قریش مکہ سے لڑنا پڑا تو آخر وقت تک
لڑیں گے ۔ مسلمانوں نے یہ عہد کیا کہ جب تک حضرت عثمانؓ کے قتل کا بدلہ نہ لے لیں گے واپس نہ جائیں گی۔ تمام صحابہؓ نے بیعت کی ۔ اس کے بعد آپؐ نے اپنے دائیں ہاتھ کو حضرت عثمانؓ کا داہنا ہاتھ قرار دیا اور ان کی طرف سے اپنے داہنے ہاتھ پر بیعت کی ۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا گیا ہے ۔ اس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : "لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ " تر جمہ: ائے پیغمبر ! اللہ تعالیٰ ان مومنین سے راضی ہوا جب وہ تیرے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے (سورۃ الفتح آیہ ۵۱)۔ قریش مکہ کو بیعت رضوان کے بارے میں پتہ چلا تو وہ خوف زدہ ہو گئے ۔ اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ مصالحت کرنے پر تیار ہوگئے ۔ قریش مکہ نے سہیل بن عمرو کو سفیر بنا کر بھیجا ۔ گفت و شنید کے بعد صلح نامہ طے پایا جس کی شرائط درج ذیل ہیں: ۱۔ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی اور کوئی کسی کو تنگ نہیں کرے گا۔ ۲۔ عرب کے تمام قبائل کو اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں حلیفانہ معاہد ہ کرسکتے ہیں۔ ۳۔ اگر قریش مکہ سے کوئی مسلمان ہوکر مدینہ منورہ چلا جائے تو اس کو واپس کرنا ہوگا اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان دین اسلام کو چھوڑ کر مکہ چلا جائے گا تو اس کوواپس نہیں کیا جائے گا۔ ۴۔ حضور اکرم ؐ جاتے ہوئے مکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے ساتھ لیکر نہیں جائیں گے ۔ ۵۔ مسلمانوں کو اس سال عمرہ ادا کئے بغیر واپس جانا ہوگا۔ اگلے سال ہتھیا ر لگا کر نہیں آئیں گے صرف تلوار ساتھ لائیں گے وہ بھی نیام میں ہوگی۔حضور اکرمؐ نے صلح نامہ کے مطابق اس سال عمرہ ادا کرنے کا ارادہ ملتوی فرمایا۔ آپؐ اور صحابہ کرامؓ نے قربانی دی۔ بال کٹوائے اور احرام کھول دیے ۔ اس کے بعد رسول اللہؐ نے بیس روز حدیبیہ کے مقام پر قیام فرمایا اور مدینہ منورہ واپسی پر سورۃ الفتح نازل ہوئی ۔صلح نامہ حدیبیہ کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ جب مسلمان حدیبیہ سے معاہدہ طے کرنے کے بعد واپس مدینہ منورہ جارہے تھے تو واپسی پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے سورۃ الفتح نازل ہوئی۔ جس میں اس صلح کو فتح مبین کا نام دیا گیا اور مسلمانوں کو خوشخبری دی گئی کہ عنقریب ایک اور لڑائی میں فتح نصیب ہوگی۔ اور بہت زیادہ مال غنیمت بھی حاصل ہوگا۔ اس طرح باطل کی قوتیں پاش پاش ہو جائیں گی اور حق کو غلبہ حاصل ہوگا۔یہ سورۃایک طرح سے فتح مکہ کی خوشخبری تھی۔ اس صلح سے پیشتر قریش مکہ مسلمانوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اپنی برتری کے قائل تھے ان کی ہر ممکن کوشش تھی کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں تاکہ وہ اسلام کا نام نہ لے سکیں۔ لیکن صلح حدیبیہ کی وجہ سے مسلمان کفار مکہ کے برابر آگئے اس طرح قریش مکہ نے مسلمانوں کے اقتدار کو تسلیم کر لیا۔ چونکہ اس معاہدہ میں امن و صلح کو فوقیت دی گئی اور یہ بات ثابت کی گئی کہ اسلام امن و صلح کو فوقیت دیتا ہی۔ اس لئے ہمسایہ قبائل پر اس کے مثبت اثرات پڑے ۔ صلح حدیبیہ تک کفار کے حملوں کا ڈر اور خوف رہتا تھا جس کی وجہ سے تبلیغ پر مکمل توجہ نہیں دی جاسکتی تھی ۔ اس صلح کے بعد مسلمانوں کو اپنی صلاحیتیں اسلام کا پیغام پہنچانے پر صرف کرنے کا موقع ملا۔ مختلف قبائل نے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات استوار کئے ۔ صلح حدیبیہ کے معاہدے کی بناء پر مسلمانوں نے آئندہ سال عمرہ ادا کیا اور مکہ میں آمدورفت شروع ہوئی ۔ لوگوں کے میل جول سے لوگوں میں اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہوا دیگر قبائل نے اسلام کے اصولوں پر غور کرنا شروع کیا۔ جس کے نتیجہ میں عرب کے مشہور قبائل دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے دو سال بعد مسلمانوں کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہوگئی۔
l صلح حدیبیہ کے بعد قریش مکہ کے بظاہر معاشی حالات بہتر ہوگئے تھے مگر جب قبیلہ بنو حنیفہ کے رئیس ثمامہ بن اثال نے اسلام قبول کر لیا تو اس نے مکہ کو غلہ بھیجنے پر پابندی لگادی ۔ اہل مکہ پہلے ہی قحط کا شکار تھے غلہ پر پابندی کے بعد اور زیادہ قحط سالی ہوگئی ۔ ابو سفیان مدینہ منورہ میں آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپکی قوم قحط سالی سے ہلاک ہو رہی ہے ۔ آپ ان کے لئے دعا فرمائیں۔ آپ ؐ نے دعا بھی فرمائی اور پانچ سو دینار نقد عنایت فرمائی۔ ابو سفیان کو کھجوروں کا ہدیہ دیا اور ساتھ ہی ثمامہ بن اثال کو ہدایت کی کہ وہ قریش مکہ کو غلہ بند نہ کری۔ اس طرح سے قریش مکہ کا یہ پہلا اعتراف شکست تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو کفار مکہ کی طرف سے بے فکری ہوئی تو پھر رسول اللہ ؐ نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل شروع کی۔ اور آپ نے ہمسایہ ممالک کے سربراہان کو اسلام کی طرف دعوت نامے ارسال کئے ۔جس کے نتیجہ میں کئی سربراہان نے اسلام قبول کیا۔ اور بہت تھوڑے عرصے میں اسلام کو ایک بین الاقوامی مذہب کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو کفار مکہ کی طرف سے حملوں کا خطرہ ٹل گیااور مسلمانوں کو ترقی حاصل ہوئی ۔ کفار مکہ نے خودتنگ آکر معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو مکہ کو فتح کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس طرح صلح حدیبیہ فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔
No comments:
Post a Comment