Thursday, 8 March 2012

"محاسنِ خطِ رعنا" ایک جائزہ

 تحریر: ڈاکٹر محمد فخر عباس
Front Title of the Book
حُسن تحریر ہمارا اسلامی تہذیبی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ اپنے ورثے کی حفاظت ہم پرقرض ہے۔ ہمارے عہد کے لوگ ذرا سوچیں کہ انہوں نے اس قرض کی ادائیگی میں کیا کچھ کیا ہے ؟ حُسنِ تحریر کا دوسرا نام خطاطی ہے یا خوشنویسی ، جس نے ایک معتبر فن کا مقام و مرتبہ پایا ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ خطاطی کو فن کا مقام عہدِ زرّیں کے تخلیق کاروں کی کاوشوں سے مِلا۔ تیسری صدی ہجری میں بغداد میں ابنِ مقلہ بیضاوی سے یہ سفر شروع ہوا جو تا حال جاری و ساری ہے۔ سینکڑوں قابلِ ذکر نام آتے ہیں جو اس دشت کی سیّاحی میں عمریں گزار گئے ۔ انہیں کی ذاتی کاوشوں کے سبب یہ فن جسے ہم خطاطی کہتے ہیں آج قائم و دائم ہے بلکہ حکمرانوں کی چشم پوشی کے باوجود بھی ترقی پذیر ہے ۔موجودہ دور کے صاحبانِ اقتدار آج کل فن مصوری ، بُت تراشی اور ڈانس وغیرہ کے فنون کو باقاعدہ سرکاری سرپرستی سے نوازتے ہوئے روشن خیالی کا جس طرح ثبوت دے رہے ہیں ۔حق تو یہ تھا کہ وہ اس فنِ شریف خطاطی کی بھی بھروپور سرپرستی کرتے ۔مگر اس کو مسلسل نظر اندازکیا جارہا ہے ۔
          ہر دور کی طرح موجودہ دور میں بھی وابستگانِ خطاطی ہی ہیں جو اپنی شب و روز کاوشوں اور تخلیقی صلاحیتوں سے اس فن کو بامِ عروج تک لیجانے میں تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ اس فن کے فروغ و تحفظ میں لاہور کے معتبر اساتذۂ فن نے اپنا حصہ ملایا ہے تو سرزمینِ مدینۃ الاولیاءملتان نے ایک قدم آگے بڑھ کر کارنامہ انجام دیا ہے وہ اس طرح کہ عربی ، فارسی ، اردو ، سرائیکی اور پنجابی لکھائی کیلئے ایک نیا طرزِ تحریر "خطِ رعنا" ایجاد کرکے ایران کی ایجاد خط نستعلیق کے بعد سات سو سالہ اسلامی تاریخ میں ایک کارنامہ انجام دیدیا ہے جسے یہاں کے پُشتینی خطاط جناب ابنِ کلیم نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے پروان چڑھایا ہے۔ ابنِ کلیم صاحب کی اس ایجاد کو تیس برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ "خطِ رعنا" کے پرنسپل قواعد و ضوابط پر مشتمل انہوں نے قبل ازیں خطاطی پر چھ کتابیں ترتیب و تالیف کے بعد طباعت سے آراستہ کراکے دنیائے اہلِ فن کی نظر نواز کی تھیں اب انہوں نے اپنی نئی کاوش "محاسنِ خطِ رعنا" کے نام سے صاحبانِ فکر و فن کے سامنے پیش کر کے ان سے داد پائی ہے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ قبل ازیں جو کتب ابنِ کلیم صاحب نے مختلف موضوعات پر ترتیب دیں انکی تعداد 19ہے جبکہ "محاسنِ خطِ رعنا" ابنِ کلیم کی بیسویں کتاب ہے جس کا طائرانہ جائزہ یوں لیا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں "خطِ رعنا کا فنی جمالیاتی جائزہ" کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کا مضمون ہے جس میں انہوں ابنِ کلیم کی ایجاد خطِ رعنا پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے ۔ خطاطی کی تاریخ کو مختصر مگر جامع بیان کر کے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی سعی کی ہے ،  خطِ رعنا کے ارتقائی دو ر کا تذکرہ اور اس خط کے محاسن پر بڑی تفصیل کے ساتھ محققانہ انداز میں تحریر کیا ہے اس ضمن میں انہوں نے گیارہ ہیڈنگ دیئے ہیں جن کے ذیل میں نہایت عالمانہ اور مفکرانہ خواص تحریر کئے ہیں ۔ یہاں صرف ہیڈنگ دینے پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ 1۔خطِ رعنا ایک مکمل خط ہے ۔  2۔خطِ رعنا ایک جمالیاتی طرز ہے ۔  3 ۔"خطِ رعنا" فنی اور لغوی مفہوم میں بھی "رعنائی"  کا حامل ہے ۔  4۔خطِ رعنا اسلامی خطاطی کا ماحصل ہے ۔  5۔خطِ رعنا قرآنی خطاطی کیلئے ایک موزوں خط ہے ۔  6۔خطِ رعنا خطِ طغریٰ کا ایک ترقی یافتہ اور ترقی پذیر بدل ہے ۔  7۔خطِ رعنا اور دوسرے فنی پیرائے ۔  8۔خطِ رعنا اسلامی خطاطی کے فروغ کا باعث ہوا ہے۔  9۔خطِ رعنا مصورانہ خطاطی کیلئے بیحد موزوں ہے ۔  10۔خطِ رعنا ملتان اور پاکستان کےلئے فخر و امتیاز کا باعث ہے ۔  11۔خطِ رعنا اسلامی ثقافت میں گراں قدر اضافہ ہے۔      اس مضمون کے آخر میں لکھا ہے "خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خطِ رعنا ایک نیا جمالیاتی خط ہے جو روایت کے شعور اور جدّت اور ندرت کے امتزاج سے وجود میں آیاہے اس میں تصویری قدر و قیمت کے ساتھ ساتھ ڈایزائن ویلیو بھی موجود ہے۔ اور یہ خط قدیم خطِ طغریٰ کا ایک جدید اور سہلُ التحریر متبادل ہے۔ قرآنی خطاطی اور تزئینی اور آرائشی خطاطی کیلئے اس کی موزونیت کو بَیک نظر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس خط میں مصورانہ خطاطی کیلئے کئی نئے زاوئیے موجود ہیں جن کو کام میں لا کر مصورانہ خطاطی میں نئی روشوں کا اضافہ کیا جاسکتاہے"۔
Back Title of the Book
          عطوفہ کلیم کا مضمون "فنِ خطاطی اور سائنس" نہایت منفرد تحریر ہے ۔اس کے بعد "اسماءالحسنیٰٔ ربِ کریم اور خطِ رعنا" کے عنوان سے جو تحریر ہے اس میں خطِ رعنا میں ڈیزائن کردہ اللہ تعالیٰ جلّ شانہٗ کے اسماءقابل دید ہیں ۔ اس ضمن میں ابنِ کلیم کی تحریر بھی نہایت منضبط اور فکر انگیز استعاروں سے مزین ہے صفحہ 41سے اقتباس کچھ اس طرح ہے ۔ لکھتے ہیں :-
          "اس ضمن میں عرض کرتا چلوں کہ روایتی خطاطی میں الفاظ قطاریں بناتے ہیں لیکن طغریٰ خطاطی میں یہ قطاریں ایک مجموعۂ اشکال (کمپوزیشن) کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ، یہاں لفظوں کی رسمی ترتیب کے علاوہ ان کی ضخامت اور شکل میں بھی کئی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ۔ لفظ آز مصرعوں کی طرح ظاہر ہوتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو قطع کرتے ہیں یا نیچے اوپر جگہ پاتے ہیں اور ایک لفظ سے دوسرے لفظ تک جو خالی سطح بچتی ہے یا جو خلا ظاہر ہوتے ہیں وہ سطح کی مساوات اورر اس کی استواری SURFACE TENSIONکے اصول کو بھی واضح کرتے ہیں لہٰذا شکلوں کی حرکت کے ساتھ پائی جانے والی وقفاتی سطح کا صحیح شعور حاصل کئے بغیر کوئی تخلیقی عمل پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ۔ خطاطی کی پوری تاریخ میں لفظ اپنی جمالیاتی سرشت کے اعتبار سے دو اسلوبی رویوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک رویہ لفظوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط جسامت ، استواری اور استحکام دینا چاہتا ہے۔ جبکہ دوسرا رویہ لفظوں کی نزاکت ، رعنائی ، تیزی ، حرکت اور تیکھے پن پر یقین رکھتا ہے۔ خطِ رعنا میں ان دونوں رویوں کی نمایاں علامات کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اگلے دو صفحات پر اسماءالحسنیٰ ئِ ربِ کریم اور پھر ان سے اگلے دو صفحات پر اسماءالحسنیٰ ئِ نبی کریم ﷺ خطِ رعنا میں پیش کیے جا رہے ہیں ان میں دیکھئے کہ خطِ رعنا کس قدر سنجیدہ ، متناسب اور مُسطح ہے اس خط میں صاحبِ نظر کیلئے ایجاز و اختصار کے ساتھ غیر معمولی استقامت اور توانائی پائی جاتی ہے۔ اس کی عبارات ایسے حیرت انگیز طبعی سکون ، استراحت اور متانت کو ظاہر کرتی ہیں جو صرف اعلیٰ ترین روحانی مناظر و مناسک کا حصہ ہے"۔
Khawaja Ghulam Farid Poetry in Khat-e-Ra'ana
          "خطِ رعنا دیکھ لینے کے بعد ناظرین کے دِلوں پر مرتب محسو سات " کے ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی یوں رقمطراز ہیں :۔ "میرے سامنے ابنِ کلیم کے تحریر کردہ اسماءالحسنیٰ ہیں ۔ یہ اسماءمیری نظر سے گزرتے ہیں تو میرے قلب پر نازل ہو جاتے ہیں میری روح کو مطلعِ انوار بنا دیتے ہیں ، مجھ سے باتیں کرتے ہیں ، اپنی پوری معنویت کو میرے وجود میں انڈیل دیتے ہیں ، میں ان اسماءکے مفاہیم سے آشنا ہو کر اپنے اللہ کے اور قریب آجاتا ہوں اور اسکی رحیمی ، ربوبیت ، جلال ، جمال ، عدل ، رزاقی ، راءفت بندہ نوازی اور مخلوق پروری کی صفات میرے دل پر براہِ راست منکشف ہونے لگتی ہیں ۔ اسی طرح ابنِ کلیم کے قرآنی طغرے اور ان کے دوسرے معجزاتِ قلم میرے دل و دماغ کو علم و عرفان کے خزانوں سے بھر دیتے ہیں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہفت رقم خطاط ابنِ کلیم نے 'خطِ رعنا'ایجاد کرکے مجھے ، اور ہم سب کو اور ہمارے عہد کو اور آنے والے اَدوار کو جہاں جمالیات کے ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا ہے وہیں ہماری دینی اور تہذیبی تربیت بھی کی ہے" ۔
          خطِ رعنا میں 99اسماءالحسنیٰٔ ربِ کریم دو صفحات پر اور 99اسماءالحسنیٰ ئِ نبی کریم ﷺ دو صفحات پر بڑے نفیس انداز میں ڈایزائن کئے گئے ہیں ، سرکارِدو عالم ﷺ کے اسماءالحسنیٰ سے قبل پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کی تحریر سے اقتباس -: "جناب ابنِ کلیم نے 'خطِ رعنا' ایجاد کرکے اسلامی اور مشرقی خطاطی کی روایت میں گراں قدر اضافہ کیا ہے ، خطاطی کی پیش رفت میں بالعموم اور خطِ رعنا کی ایجاد کے ذریعے بالخصوص ابنِ کلیم صاحب نے اس فن کی جو خدمت کی ہے اسے کسی بھی طرح فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ خطاطی کے بارے میں کئی تالیفات کی اشاعت بھی بذاتِ خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابنِ کلیم نے ، جو بجا طور پر خطاط ہفت قلم کہلاتے ہیں عصرِ حاضر میں اسلامی خطاطی کے فروغ میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے اب جبکہ گذشتہ کئی سالوں کی کاوشِ پیہم سے وہ اپنے نو ایجاد خط "خطِ رعنا" کی نزاکتوں اور باریکیوں کو سامنے لا چکے ہیں اور ایک طرح سے اپنے خط کی جمالیات (AESTHETICS) کو مکمل کر چکے ہیں۔ بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اسلامی خطاطی کی تاریخ میں اپنے لئے ایک انفرادی مقام حاصل کرلیا ہے۔ "خطِ رعنا" جو نسخ اور نستعلیق وغیرہُم کے خوبصورت امتزاج کا ایک انوکھا نمونہ ہے رو ز بروز مقبولیت حاصل کر رہا ہے اور جدید اسلامی خطاطی کی مقبولیت کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ابنِ کلیم صاحب کے اس کارنامے کو خطاطی کا کم نظر نقاد یا مؤرخ ہی نظر انداز کرسکتا ہے"۔
          کتاب کے باب دوم سے "خطِ رعنا کا سفر"  شروع ہوتا ہے اس میں موجد کے تجربات و مشاہدات پر مشتمل تحریریں ہیں ، ان کی تحریروں اور فن پاروں پر مشتمل قبل ازیں مطبوعہ چھ کتبِ خطاطی کا تعارف ، انٹرویوز کے حوالہ سے معلومات افزا تحریریں۔ برِ صغیر کی ممتاز شخصیات کے خطِ رعنا پر تبصرے ہیں ان میں غزالیٔ زماں سید احمد سعید کاظمی ، معروف عالم و صحافی علامہ منظور احمد رحمت، محقق و انشاءپرداز ڈاکٹر مہر عبدالحق اور شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی تحریریں ہیں ۔ کتاب میں ان تمام آرٹیکلز کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ پتہ چل سکے اس فن کی تحقیق و تخلیق کے حوالہ سے ابنِ کلیم صاحب کا کتنا وقیع کام ہے اور اس فن پر ان کی کس قدر گہری نظر ہے۔ پروفیسر حسین سحر نے ایک جگہ لکھا ہے۔ "ابنِ کلیم ایک وسیع النظر فن کار ہے اور قلم کارہے ۔ وہ دوسرے ہم عصر فن کاروں کے کام پر بڑی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ مقالے تحریر کرتا ہے اس بناءپر روایتی تعصب سے مبّرا ہے اور سب سے بڑھ کر خوبی یہ بھی ہے کہ اپنی تخلیقات کو رُوشناس کرانے کا فن بھی جانتا ہے"  راقم بغیر کسی لگی لپٹی کے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہے کہ ابنِ کلیم نے خطِ رعنا جب ایجاد کیا تو ایک تنگ نظری کا سا ماحول تھا ابتداءمیں کسی نے ان کے بارے میں کلمۂ خیر نہ کہا حوصلہ افزائی کی بجائے دل شکنی کرنے والے زیادہ تھے اس تناظر میں ابنِ کلیم کو اپنے فن کو پیش کرنے اور منوانے کیلئے شب و روز محنتِ شاقہ کرنا پڑی ہے۔ اب ان کی بیسویں تصنیف "محاسنِ خطِ رعنا" اس بات کا بین ثبوت پیش کرتی ہے کہ ابن کلیم خط رعنا کی مُوشگافیاں بیان کرنے اور دوسروں تک اپنا مطمعِ نظر پہنچانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ جب انہوں نے خطِ رعنا کی تخلیقات کے ساتھ اپنی تخلیقات کو تشریح کے ساتھ پیش کیا تو بڑی بڑی عظیم علمی فنی شخصیات نے ان کے فن پر دل کھول کر لکھا ۔ ان میں علامہ محمد اسحاق صابرالقادری ، پروفیسر دلشاد کلانچوی ، سلطان محمود شاہین ، سویڈن میں ایشین اردو سوسائٹی کے سربراہ معروف شاعر و صحافی محمد جمیل احسن مدیر اردو میگزین "منزل" ، سید احمد ، سعیدہ بانو بیگ روشن ، فریدہ مشتاق و سچا سائیں ، طیار رضوی آرٹسٹ ، دین چوہدری ، عبدالغنی ، عابدہ چوہدری (سویڈن) اور ڈنمارک سے معروف شاعر و صحافی محمد اقبال اختر ، حبیب فائق ، خطاطِ اعظم بھارت محمد خلیق ٹونکی ، سید عاصم امروہوی خطاط دہلی کی خط رعنا پر مربوط تحریریں تبصرے اور ان کی تحریروں کے عکس اور 27دسمبر 1979ءکو غالب اکیڈمی نیو دہلی میں اکیڈمی کے اساتذئہ کرام کی طرف سے ابنِ کلیم کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں پیش کئے گئے نستعلیق کے خوبصورت قطعہ کا عکس یہ قطعہ مذکورہ شخصیات کی موجودگی میں ابنِ کلیم کو پیش کیا گیا۔ استاذالخطاطین فی الہند جناب محمد خلیق ٹونکی ، سید عاصم امروہوی ، امان اللہ صدیقی ، جناب یوسف قاسمی (بمبئی سے طبع شدہ الفی قرآن پاک کے خطاط) ، پروفیسر خواجہ زکی احمد ، نثار فاروقی ، سید علی جواد زیدی ، پروفیسر آل احمد سرور ، پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر انتونینا دویدو (روسی ادیبہ) مسٹر رام دھمیجا، جناب عبدالحمید صاحب (مالک ہمدرد فانڈیشن انڈیا ) ، دارالعلوم دیو بند کے نامور خطاط سید حمداللہ بختیاری ، دلی کی معروف خطاطہ کوثر جہاں عباسی ، محترمہ حزیں گوہر ، صحافی حکیم اجمل خان ، آل انڈیا اردو سروس کے انوار انجم ، ادیب و ناول نگار اوم پرکاش سکسینہ نزھت بریلوی ، سید عبدالعزیز جنک پوری ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے پروفیسر فرحت حسین ، پروفیسر رضا زیدی ، عبدالحئی فاروقی ، ڈاکٹر عنوان چشتی ، جناب اوصاف علی(ڈائریکٹر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سنٹر) ، سید سلیم چشتی(گدی نشین درگاہ اجمیر شریف)، معروف ادیب جناب حَسن نعیم ، سری نگر کشمیر کے قانون دان پیارے لال کول ، جام نگر کے پروفیسر شمیم احمد انصاری ، محترمہ ثروت سنجر (پروڈیوسر انڈین ٹیلیویژن ) ، ڈاکٹر سرندرا بھوٹانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عرب کلچرل سنٹر نیو دہلی ، سید ذہین نقوی (ڈائریکٹر غالب اکیڈمی نیو دہلی) ۔ اس موقع پر جناب خلیق ٹونکی المعروف محبوب رقم نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ "ابنِ کلیم صاحب ! ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے سرزمینِ ہند پر اپنے تخلیق کردہ قرآنی خطاطی کے فن پاروں کی نمائش کی اور میں یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی تاریخ میں قرآنی خطاطی کے حوالہ سے یہ پہلی نمائش ہے قبل ازیں ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ان مقدس تحریروں کی بھی اتنے اہتمام اور قرینے کے ساتھ نمائش کی جاسکتی ہے آپ کے آنے سے ہمیں ایک راہ ملی ہے جو کہ آپ کی مرہونِ منت ہے انشاءاللہ اگلے برس ہم بھی اپنے شاگردان کے مرقومہ فن پاروں کی فریمنگ کر کے آپ کی تقلید میں خطاطی کی نمائش کرائیں گے جو یہاں کے مقامی خطاطوں کی پہلی نمائش ہوگی ۔ ایک صورت میں جو بیج آپ نے آج یہاں بویا ہے ہم اس کا ثمر دیکھیں گے آج سے ہم اس تاریخی موقع پر آپ کی خدمت میں منظوم خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ قطعہ نذر کرتے ہیں ۔
خطِ رعنا کے ہیں مُوجد صاحبِ ذوقِ سلیم
طورِ خطاطی پہ جلوہ ریز ہیں ابنِ کلیم
ہر نگارشِ فن کی عظمت کا نشاں ہے اے ظفر
یہ عطائے خاص ہے بخشے جسے ربِ کریم
Khawaja Ghulam Farid Poetry in Khat-e-Ra'ana
          محاسنِ خطِ رعنا میں سید یوسف رضا گیلانی ( سابق سپیکر قومی اسمبلی ) پروفیسر ڈاکٹر بشیر انور ابو ہری اور دیگر عرب و عجم کی اہم شخصیات کے خطِ رعنا پر تبصرے شامل کئے گئے ہیں ۔ باب چہارم میں "خطِ کوفی کا منقش انداز"  کی یاد داشت پر مشتمل جناب چوہدری ظہور الھی کی خطاطی میں خوش ذوقی کا ذکر بڑے عمدہ انداز میں رقم کیا گیا ہے اور مُنقش کوفی کے دو فن پارے بھی شامل کئے گئے ہیں ۔ غلافِ کعبۃ اللہ اور نبیٔ کریم ﷺ کے روضۂ اقدس کی مبارک جالیوں پر کامل و اکمل کلمہ طیبہ کی تخلیقی کمپوزیشن میں فن پارے دیئے گئے ہیں اس کے ساتھ "خطِ رعنا مرکب و حسین فن ہے"  کے ضمن میں ابنِ کلیم صاحب کی تحریر سے اقتباس ملاحظہ کیجئے۔            
          ایک تخلیق کار جو اپنی جمالیاتی حسیّات کو مخصوص درجے تک ترقی دے چکا ہو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے محبوب لفظوں کا تزئینی مرتبہ بڑھانے کے لئے انہیں علم و احساس کی تمام نزاکتوں کا تحفہ پیش کرے تاکہ وہ لفظ اپنی پوری خوبیٔ جسامت اور نشۂ وجود سے سرشار دکھائی دینے لگیں۔ اس وقت پوری دنیا میں کوئی تہذیب ایسی نہیں جس نے لفظوں کو بطورِ موضوعِ فن اتنی اہمیت دی ہو جتنی کہ پاکستانی خطاطوں اور مصوروں نے دی ہے اس بناءپر جدید مصّورانہ خطاطی جسے اب خط آرٹ کا نام دے دیا گیا ہے روایتی خطاطی کے ساتھ ساتھ پاکستانی تہذیب کی شناخت کا نشان بن چکی ہے ۔ خط آرٹ بھی ایک انتہائی مرکب اور حسین فن ہے اس لئے کہ مصوری اور خطاطی کی دو عالمی روایات باہم مل کر اس کی تکمیل کرتی ہیں ۔ خطِ رعنا بھی ایک انتہائی مرکب اور حسین فن ہے اس لئے کہ قدیم روایتی خطاطی کی عالمی روایات اور جدّت ِ فکر نے باہم مل کر اس کو تکمیل بخشی ہے ۔ خطِ رعنا کے ذریعے انسان نہ صرف یہ کہ اپنے تخلیقی جذبات کو مشکل کرتا ہے بلکہ زندگی پر اپنے اعتماد و اعتقاد کا اظہار بھی کرتا ہے ۔ خطِ رعنا میں ایسی منفرد خصوصیات ہیں جو براہِ راست انسان کی فطرتِ اعلیٰ سے مخاطب ہیں ان کا تعلق مناظر کی باز آفرینی سے ہی نہیں بلکہ انسان کی تقدیر سازی سے ہے یہ فن جس قدر انسانی اور کائناتی ہے اسی قدر الٰہیاتی بھی ہے ۔ میں نے خطِ رعنا میں مختلف النوع تجربات کئے ہیں ۔ میرے قلبی وجدانی اعتبار پر جو تحریریں میرے لئے اہم ہیں انہیں میں سے یہ کلمہ طیبّہ بھی ہے جو اپنے معنوی خصوصیات کو لفظوں کی ڈیل ڈال سے بھی بیان کرتا ہے جسے جدید روشن خیال انسان کے جمالیاتی معیاروں کے عین مطابق قرار دیا جاسکتا ہے "۔ اس سے ملحق خطِ رعنا میں چودہ فن پاروں کے عکسِ جمیل پیش کئے گئے ہیں ۔ کتاب کے باب پنجم میں ریڈیو سعودی عرب کی اردو سروس مکہ مکرمہ سے 26ستمبر 2003ءمیں براڈ کاسٹ شدہ طویل انٹر ویو دیا گیا ہے جو خطاطی کے شائقین کے لئے بیش بہا معلومات لئے ہوئے ہے ۔ باب ششم اس عنوان پر مشتمل ہے  "قرآنی خطاطی کے فروغ کیلئے ابنِ کلیم کے مرقومہ فن پاروں کی نمائشوں کا سفر تصاویر کے آئےنے میں "  جس میں 76تصاویر شامل کی گئی ہیں ان میں علم و فن سے متعلق عظیم شخصیات کے ساتھ یادگار تصویریں ہیں جیسے معروف جرمن مستشرق ڈاکٹر این میری شِمل ، بیگم ثاقبہ رحیم الدین ، علی امام ، گل جی ، مدیرِ اعلیٰ شمع دہلی حافظ یوسف دہلوی ، محمد خلیق ٹونکی ، عاصم امروہوی ، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ، ستیش گجرال (بھارت کے عظیم مصور) ، مخدوم سجاد حسین قریشی ، اشفاق احمد خان ، مختار مسعود صاحب ، جناب محمود علی ، ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو ، جنرل محمد ضیاءالحق و دیگر اہم شخصیات کی تصاویر جس میں انہوں نے فنِ خطاطی کی سرپرستی کو اپنے لئے فخر و اعزاز سمجھا ۔
Khawaja Ghulam Farid Poetry in Khat-e-Ra'ana
          باب ہفتم مزید منفرد شان کا حامل ہے جس میں ”رمز آشنائے فطرت ِ سعید کلام فرید بخطِ رعنا مناظرِ فطرت کے آئینے میں “ ترتیب دیا گیا ہے جس کے اوائل میں یہ مضمون ہے ۔  "سرائیکی زبان ہماری تہذیبی ، دینی اقدار ، قومی روایات اور شناخت کا قیمتی اثاثہ ہے"  اس میں سرائیکی زبان و ادب کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے اور یہ رقم کیا گیا ہے ۔  "فصیح و بلیغ سرائیکی زبان میں مٹھاس خواجہ غلام فریدؒ کے کلام کی مرہونِ منت ہے ۔"   کوٹ مٹھن شریف کے صوفی بزرگ عارف بِاللہ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کے شہرہ آفاق عارفانہ کلام ”دیوانِ فرید“ سے استفادہ کے خواہشمند ، عشقِ حقیقی کے طالب ، عُشاقانِ مطالعہ کیلئے میٹھی سرائیکی زبان پڑھنے کا آسان کُلیہ دیا گیا ہے ۔ ”خطِ رعنا میں کلامِ فرید کے جلوے “ سے ابنِ کلیم کی تحریر سے اقتباس :۔
          "حقیقت حال یہ ہے کہ اس فصیح و بلیغ سرائیکی زبان میں مٹھاس ، اپنائیت اور جذب و مستی خواجہ فرید کے کلام فیض مدام کی مرہونِ منت ہے ، جب مجھے خواجہ صاحب کے کلام نے سر مستی و سرشاری سے سرفراز کیا ، میرے جذبِ دروں نے اپنا رنگ اختیار کیا اور میں نے خواجہ صاحب ؒ کے کلامِ پُر اثر کو خطِ رعنا میں رقم کیا اور اس کا پس منظر جو کہ فطری مناظر سے مستعار لیا گیا ہے ڈیزائن کیا ، بہت حد تک کلام کے مفہوم کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے ۔ "
حُسنِ فطرت کو جس طرح حضور خواجہ صاحب ؒ نے اپنے کلام سے آشکار کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ، اسی طرح میں نے یہ کوشش کی ہے کہ کلامِ فرید کے معنوی تصور کے مطابق پس منظر اُجاگر کیا جائے ۔  "اٹھارہ صفحات پر پھیلے اس مضمون کے آخر میں  "ذرا سوچئے"  کے عنوان کے ضمن میں یہ جملے تحریر ہیں ۔
          جو سرائیکی نہیں پڑھ سکتا وہ خواجہ صاحب کا کلام نہیں پڑھ سکتا اور جس نے خواجہ صاحب کا کلام نہ پڑھا ، نہ سمجھا وہ کیا جانے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کیا ہے ، رسول اللہ ﷺ کے عشقِ حقیقی میں مرمٹنے کا لطف کیا ہے ، روحانی تصرفات کیا ہیں ، روح کے تاروں کو چھیڑا کیسے جاتا ہے اور ان سے نغمۂ معرفت برآمد کس طرح کیا جاتا ہے ؟ اگر ان تمام روحانی لذتوں سے آشنائی درکار ہے تو پھر انہیں اہلِ حق کی ، خصوصاً خواجہ صاحب ؒ کی سرائیکی زبان کو محبوب جاننا ہوگا ، کلامِ خواجہ ؒ کا ادراک حاصل کرنیوالوں کے لئے مشورہ ہے کہ محبوب کی محبوب زبان پڑھئے اور اسے سمجھئے ، اس زبان کی تاریخی اہمیت اور پڑھنے کا آسان طریقہ ہم نے آپ کو بتلا دیا ہے ۔ خواجہ صاحبؒ کے آفاقی کلام پر مشتمل 38فن پارے محاسنِ خطِ رعنا میں شامل کئے گئے ہین ان سے قبل یہ تحریر دی گئی ہے ۔
          "معانی و فطرتی پَس منظر کے ساتھ  "خطِ رعنا"  میں مرقومہ کلامِ فرید کے یہ اصل فن پارے کلر فُل ہیں ہر فن پارے کا پس منظر اپنے رنگین حسن و جمال کے ساتھ دلفریب ہے ، واضح رہے کہ یہ اصل فن پارے 22 x 27 سینٹی میٹر سائز کے ہیں ہم کتاب ہذا میں ریڈیوس کر کے بلیک کلر میں سادے اندامیں شائع کر رہے ہیں انشاءاللہ اصل رنگین فن پاروں کی بڑے سائز میں البم بنام  "تحفۂ کلامِ فرید"  کے نام سے شایانِ شان طور پر کتاب کی صورت میں شائع کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں ۔ "
          محاسنِ خطِ رعنا کے صفحہ 241سے خطِ رعنا اور اس کے موجد کو منظوم خراجِ تحسین کے ضمن میں مخدوم محمد حسن خان کلیم رقم ، محمد مختار علی ، حضرت عزیز حاصل پوری ، ڈاکٹر قتیل جعفری ، خلیق ملتانی ، اقبال ارشد ، طالب قریشی ، نور صابری ، کی نظمیں شامل ہیں ۔  "دبستان فروغِ خطاطی رجسٹرڈ کی تحفظ و ترقی فن کیلئے عملی کاوشیں "  کے عنوان سے اس این جی او کی کارکردگی کا ذکر کیا گیا ہے اور خطاطی کے فروغ کیلئے عملی اقدامات کیلئے مؤثر تجاویز جو 1980ءمیں اسلام آباد میں منعقدہ قومی سیمینار ِ خطاطی میں ابنِ کلیم صاحب نے مربوط انداز میں پیش کی تھیں شامل کی گئی ہیں ۔ آخری دس صفحات پر مشتمل جناب اصغر جاوید شیرازی کے تین مضامین جو انگلش نیوز پیپر ز  "فرائیڈے ٹائمز ، دی نیوز  اور ڈان"  میں شائع ہوئے شامل کئے گئے ہیں ۔ کتاب کے بیک ٹائٹل پر خواجہ فرید ؒ کا کلام بخطِ رعنا رنگین پس منظر کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔  "کتاب محاسنِ خطِ رعنا"  ایک لاجواب تحفہ ہے ۔ آخر میں ہم وطنِ عزیز کے نامور شاعر و ادیب اور منتظم جناب افتخار عارف کا مختصر مگر جامع تبصرہ پیش کر رہے ہیں ۔
          "ابنِ کلیم صاحب ! آپ کی کتاب  'محاسنِ خطِ رعنا '  موصول ہوئی اپنے موضوع کے اعتبار سے اس نوع کی کتاب پہلے کبھی نظر سے نہیں گزری۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لفظ کو تاثیر کی دولت سے مالا مال رکھے ۔ آمین "
نام کتاب :-         محاسنِ خطِ رعنا
مصنف و تخلیق کار:- ابنِ کلیم احسن نظامی
ناشر :-             کلیم پبلشر وحید پلازہ حسن پروانہ روڈ ملتان (پاکستان)0321-732260, 0331-7005399
زیرِ اہتمام :-        دبستان فروغِ خطاطی رجسٹرڈ
صفحات :274-    قیمت مجلد :500/- رابطہ:0321-7322630

1 comment: