تحریر: محمد ممتاز خان ڈاہر |
ملتان میں
مقیم گردیزی خاندان کا شمار یہاں کے رئوسا میں ہوتا ہے ، ملتان اور بہاولپور ڈویژن
کے مختلف مقامات پر ان کی زرعی زمینیں ہیں۔ اس خاندان کے جد امجد سید جمال الدین معروف
بہ یوسف شاہ گردیز 11 صدی عیسوی میں اشاعت اسلام کی غرض سے افغانستان کے علاقے گردیز
سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھی۔ گردیزی خاندان مختلف سیاسی جماعتوں میں منقسم ہے ۔ گردیزی
اسلاف نے قومی اور سماجی خدمات کے مختلف شعبوں میں حصہ ملایا ہی۔ اس خاندان کے نامور
فرزند سید علی حسین گردیزی برصغیر کے ان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے قائد اعظم
محمد علی جناحؒ کی قیادت میں آزادی کے چراغ جلائی۔ سید علی حسین گردیزی نے دہلی میں
قائد اعظم محمد علی جناح پر قاتلانہ حملے کے موقع پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حملہ
آور خاکساروں کو جائے واردات سے بھگایا تھا۔
قیام پاکستان کے وقت سید علی حسین گردیزی ، سید محمد رضی شاہ گردیزی ، سید محمد
قسور گردیزی، سید ولایت حسین گردیزی ، سید نذیر حسین ولد سید بڈھن شاہ اور دوسرے گردیزی
اسلاف نے مہاجرین کی آباد کاری میں ان کی مدد
کی تھی۔ سید علی حسین گردیزی، میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی کابینہ میں وزیر صنعت
تھی۔970 اور 1977 میں سید عباس حسین گردیزی پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این
اے جبکہ سید محمد رضی شاہ گردیزی پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھی۔ گردیزی خاندان
سیاست کے علاوہ زراعت، تجارت اور زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں بھی نمایاں رہا ہی۔ اس
خاندان نے سرائیکی صوبہ تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا ہی۔ سرائیکی صوبہ تحریک میں
گردیزی خاندان کے تین نام یعنی سید محمد قسور گردیزی، سید ولایت حسین گردیزی اور سید
الحاج محمد علی مہدی گردیزی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ
میں سید محمد قسور گردیزی کا بڑا نام ہی۔ وہ 1951 میں آزاد پاکستان پارٹی میں شامل
ہوئے اور غیر منقسم پاکستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے جوائنٹ سیکرٹری رہی۔ سید محمد
قسور گردیزی نے عبدالحمید خان بھاشانی، باچا خان، خان عبدالولی خان، میاں افتخار الدین،
میر غوث بخش بزنجو اور عبدالصمد خان اچکزئی جیسے مشاہیر کے ساتھ مل کر سیاسی جدوجہد
کی تھی۔ سید محمد قسور گردیزی اگرچہ ایک جاگیردار گھرانے کے فرد تھے مگر وہ سوشلسٹ
خیالات رکھتے تھی۔ اعلیٰ مقاصد کیلئے سید محمد قسور گردیزی کو بہت مصیبتیں جھیلنی پڑیں
، وہ سالہا سال جیل میں رہے انہیں ہتھکڑیاں لگائی گئیں ، برف کے بلاکوں پر لٹایا گیا۔
وہ بدنام زمانہ عقوبت خانے شاہی قلعہ کی کال کوٹھڑی میں مقید رہی۔ کئی بار گھر پر نظر
بند ہوئے اور بے ضمیر حکمرانوں نے انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا ۔ مگر
ان کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ سید محمد قسور گردیزی نے میر بخش بزنجو
اور دوسرے راہنمائوں کے ساتھ مل کر پاکستان نیشنل پارٹی تشکیل دی ۔ وہ خود اس جماعت
کے اولین جنرل سیکرٹری منتخب ہوئی۔ سید محمد قسور گردیزی نے میر بخش غوث بخش بزنجو
اور جماعت کے دوسرے رہنمائوں سے یہ حقیقت منوائی کہ سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابی
کی طرح سرائیکی بھی ایک قوم ہی۔ ملتان میں سید محمد قسور گردیزی کے گھر پر پی این پی
کے رہنمائوں نے فیصلہ کیا کہ سرائیکستان کوپاکستان کی پانچویں وفاقی اکائی بنایاجائے
، چنانچہ پی این پی کی 5 صوبائی تنظیمیں قائم کی گئیں۔اس طرح پی این پی موجودہ پاکستان میں 5 صوبوں کا مطالبہ
کرنے والی پہلی قومی جماعت تھی۔ بعد میں عوامی نیشنل پارٹی نے بھی پاکستان کو 5 صوبوں
میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا اور اپنی 5 صوبائی تنظیمیں تشکیل دیں ۔ سید محمد قسور
گردیزی تادمِ آخر سرائیکی صوبے کے حامی رہی۔ اور اس کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے رہی۔
سید محمد قسور گردیزی کی جدوجہد کے اعتراف میں پاکستان سرائیکی پارٹی نے اپریل
1995 میں یوم تاسیس کے موقع پر ان کے لئے گولڈ میڈل کا اعلان کیا۔ یہ میڈل ان کے بیٹے
سید زاہد حسین گردیزی نے وصول کیا۔ سید زاہد حسین گردیزی بھی اپنے عظیم والد کی طرح
سرائیکی صوبے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ سید محمد قسور گردیزی کے بھائی سید ولایت حسین گردیزی نے 1984 میں سرائیکی صوبہ
محاذ کے قیام کا خیر مقدم کیا تھا۔ انہوں نے سرائیکی صوبہ محاذ کے قائدین بیرسٹر تاج
محمد خان لنگاہ، قاری نور الحق قریشی، شفیع ایم اختر اور سید محمد علی مہدی گردیزی
کے ساتھ مل کر سرائیکی وسیب کے اشاعتی دورے کئے تھی۔ انہوں نے نوابزادہ نصر اللہ خان
اور دوسرے مشاہیر کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور انہیں سرائیکی صوبہ کی حمایت کی درخواست
کی۔ سید ولایت حسین گردیزی پاکستان نیشنل پارٹی صوبہ سرائیکستان کے پہلے صدر تھی۔ سید
ولایت حسین گردیزی نے عبدالمجید خان کانجو، مخدوم مظفر ہاشمی، سید زمان مہدی جعفری
اور دوسرے قوم پرستوں کو ساتھ ملا کر سرائیکستان نیشنل الائنس کی بنیاد رکھی اور خود
اس کے چیئرمین منتخب ہوئی۔ولایت حسین گردیزی مہمانوں کی بہت خدمت کرتے تھی۔ ان کا گھر
سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا جس کی وجہ سے سرائیکی صوبہ تحریک کو بہت تقویت ملی۔
a؎ الحاج سید محمد علی مہدی گردیزی کبیر والا
کے ایک معزز زمیندار ہیں ۔ وہ ملک مختار احمد اعوان کی دعوت پر پاکستان پیپلز پارٹی
میں شامل ہوئے 20 اگست 1977 میں مخالف سیاسی کارکنوں نے ان پر قاتلانہ حملہ کیاتھا۔
الحاج سید محمد علی مہدی گردیزی 5 اپریل 1984 ملتان میں سرائیکی صوبہ محاذ کے تاسیسی
اجلاس میں شریک تھی۔ وہ ساتھی کارکنوں کے ساتھ مل کر سرائیکی صوبے کے منشور کی اشاعت
کیلئے سرگرم ہوئی۔ الحاج سید محمد علی گردیزی نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 7 اپریل
1989 کو ملتان میں بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کی قیادت میں پاکستان سرائیکی پارٹی کی
بنیاد رکھی اور پی ایس پی ملتان سٹی کے صدر منتخب ہوئی۔ بعد ازاں وہ پی ایس پی ملتان
ڈویژن کے صدر اور جماعت کے مرکزی رابطہ سیکرٹری ۔ انہوں نے 1992 میں ملتان میں سرائیکی
عالمی کانفرنس کے انتظامات میں بھر پور حصہ لیا۔ 1997 میں پاکستان سرائیکی پارٹی کے
ہمراہ ہندوستان گئے یہاں انہوں نے دہلی میں سرائیکی عالمی کانفرنس میں شرکت کی۔ سید
محمد علی مہدی گردیزی ان سرائیکی قوم پرست مشاہیر میں شامل تھے جنہوں نے یکم اور 2
اگست 1998 اسلام آباد میں پونم کے تاسیسی جلسوں میں شرکت کی ۔ اس موقع پر سرائیکستان
کی مخالفت کرنے پر ان کی ایک صحافی کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی اس واقعے کو عالمی نشریاتی
ادارے بی بی سی نے نشر کیا۔ الحاج سید محمد علی مہدی گردیزی بیرسٹر تاج محمد خان سے
اختلاف کرنے کے بعد پی ایس پی سے علیحدہ ہوگئے ۔ 23 مئی 2003 کو انہوں نے سرائیکی عوامی
پارٹی کی بنیاد رکھی اور اس کے اولین صدر منتخب ہوئی۔ سرائیکی عوامی پارٹی کے صدر کی
حیثیت سے وہ سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے دن رات مصروف عمل ہیں۔ سید محمد علی مہدی گردیزی
نے پونم کے اکثر اجلاسوں میں شرکت کی ۔
No comments:
Post a Comment