(مارچ:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
’’مراکش‘‘شمال مغربی افریقہ کا ایک مسلمان
ملک ہی۔اس ملک کی تاریخی اہمیت اسکے جغرافیے سے یوں واضع ہوتی ہے کہ اندلس کے ساحلوں
پر جبل الطارق نام کی پہاڑیاں مراکش کے ساحل کے باالمقابل ہیں۔یہ وہ پہاڑیاں ہیں جہاں
طارق بن زیاد نے اندلس پر حملہ کرتے ہوئے اپنے جہاز نذر آتش کر دیے تھے تاکہ فوج کے
ذہن سے واپسی کاخیال نکل جائے اور فتح یا شہادت میں سے کوئی منزل انکے قدم چومی۔مراکش
ایک طویل تاریخی عرصے سے عرب افریقی بربر قبائل کامسکن رہاہی۔یہ علاقہ سلطنت روماکا
انتہائی مغربی صوبہ رہااور طلوع اسلام کے بعد بھی جب یہ اسلامی قلمرو میں شامل ہواتو
اسے مغرب کے نام سے ہی جانا جاتا رہا۔مراکش قدیم تہذیبی و ثقافتی روایات کی حسین آماجگاہ
ہی۔یہاں کی عمارات اپنی تاریخی قدیمی روایات کا خوبصورت اظہار ہیں۔’’کیسابلانکا‘‘مراکش
کا مشہورشہر ہے جو بحراوقیانوس کی بڑی بندرگاہوں میں سے ایک ہی،جبکہ ’’رباط‘‘یہاں کا
دارالحکومت ہی۔ابن بطوطہ نے یہاں کی خوراک اور پانی کی بہت تعریف کی ہی۔اس وقت مراکش
کی آبادی کم و بیش پینتیس ملین کے لگ بھگ ہے اور اس ریاست کاکل رقبہ 710850مربع کلومیٹر
بنتاہی۔مراکی درہم کے نام سے یہاں کی کرنسی رائج ہے جوافریقہ کی مارکیٹ میں ایک صحت
مند کرنسی جانی جاتی ہی۔
مراکش کے مشرق میں الجیریاکا ملک ہی،جنوب مغرب
میں دنیاکابہت بڑا صحرا ہی،مغرب میں بحراوقیانوس اور شمال میں بحیرہ روم ہی۔افریقہ
کا واحد ملک مراکش ہے جو بحیرہ روم اور بحراوقیانوس کو باہم ملاتاہی۔انہیں دو سمندروں
کی جائے ملاپ کے اس پار جبل الطارق کی پہاڑیاں ہیں جہاں آج تک برطانیہ کا قبضہ ہی۔مراکش
زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے اور اس ملک میں پہاڑی سلسلے میلوں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں
اور بعض مقامات پر یہ پہاڑی سلسلے باہم ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ان
پہاڑی سلسلوں میں بلندوبالا پہاڑوں کی چوٹیاں بھی ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ مراکش کی
سڑکیں صدیوں پرانے راستوں پر بنائی گئی ہیں۔انہیں پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے وہاں کے بہنے
والے دریاہزارہاسالوں سے ایک ہی سمت میں بہتے چلے جارہے ہیں۔دواطراف میں سمندر اور
ایک طرف بہت بڑے صحرا کے باعث یہاں کا موسم عجیب و غریب خصوصیات کا مالک ہی۔بڑے بڑے
صحرائی طوفانوں کے ساتھ ساتھ بادوباران کے جھونکے بھی یہاں کثرت سے آتے ہیں۔
معلوم تاریخ کے مطابق مراکش کے قدیم باشندے
مذہب عیسائیت کے پیروکار تھے تاہم بعض شواہد سے بدھ مت کی موجودگی کا بھی پتہ چلتا
ہی۔ساتویں صدی میں یہ علاقہ رحمۃ اللعالمین ؐکی ٹھنڈی چھاؤں میں آگیااور یہاں کے تقریباََ
سب ہی قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔سولھویں صدی میں عثمانی ترکوں نے الجیریا کے راستے
یہاں فوجی کاروائی کی اور مراکش کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔بہت جلد یہاں کے مقامی
حکمران ایک بار پھر برسراقتدار آگئی۔اسکے بعد ان مقامی حکمرانوں کی فرانس برطانیہ اور
اسپین کی حکومتوں کے ساتھ ایک طویل کشمکش چلتی رہی۔الجزائر نے اس کشمکش میں بڑا کلیدی
کردار اداکیا۔مراکش کبھی الجزائرکے مجاہدین آزادی کی حمایت کرتا اور کبھی فرانس کے
خوف سے دستبردار ہوجاتا۔بیسویں صدی کے آغاز سے ہی فرانس کے حکمران مراکش میں بہت دخل
اندازی کرنے لگے او ربالآخر مراکش کے سلاطین براہ راست فرانس کے مدمقابل آگئی۔دوسری
جنگ عظیم کے بعد جب یورپی فوجیں تھک ہار چکیں تو پوری دنیا کی طرح مراکش کو بھی مغربی
استبدادسے 3مارچ956کو آزادی میسر آگئی جس کے بعد2نومبر956کومراکش نے اقوام متحدہ کی
رکنیت بھی حاصل کر لی۔
مراکش بنیادی طور مسلمانوں کلا ملک ہے ،یہاںپر
عرب اور کچھ مقامی قبائل آبادہیں۔مقامی قبائل زیادہ تر مراکش کے پہاڑی علاقوں میں رہائش
پزیر ہیں ،جو اپنی زبان بولتے ہیں اور انکی اپنی مقامی روایات اور اپنی ہی تہذیب ہے
جس کے تحت وہ زندگی کے جملہ امور سرانجام دیتے ہیں۔ایک زمانے میں یہ علاقہ غلاموں کی
تجارت کے لیے عالمی شہرت رکھتاتھاشاید اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ افریقہ کے ان چند ممالک
میں سے ہے جنہیں بحراوقیانوس جیسے سمندر کا پڑوس حاصل ہے اور یہاں سے اسپین کے ساحل
بہت کم فاصلے پر ہیں۔آج انسانیت کے دعوے داریورپین اقوام کے تاجرآج سے کچھ پہلے غلاموں
کے شکار کے لیے یہاں کثرت سے آیاکرتے تھی۔پندروہیں صدی کے آخر میں جب یورپی صلیبی افواج
نے اسلامی اندلس میں ظلم و جبر اور سفاکی و درندگی کی روح فرساتاریخ ساز روایات رقم
کرنا شروع کیں تو وہاں کے مسلمان پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعدادمراکش میں ہجرت کر کے
آباد ہوگئی۔اسرائیل کے قیام سے پہلے تک یہودی یہاں کی سب سے بڑی اقلیت تھے لیکن اب
انکی خاصی بڑی تعداد یہاں سے منتقل ہو گئی ہی۔
یہاں کی آبادی اورحکومت کی معشیت کاانحصارزیادہ
ترزراعت،جنگلات اور مچھلی بانی پرہی،کسی حد تک سیاحت بھی یہاں کی آمدن کا ذریعہ ہے
اور کہیں کہیں تیل بھی نکلتاہی۔ یہاں کی دو تہائی آبادی عربی زبان بولتی ہے ،یہی زبان
یہاں کی قومی و دفتری زبان ہی،باقی آبادی یہاں کی قدیمی قبائلی زبان بولتی ہی۔۔فرانسیسی
اور اسپینی زبان بھی یہاں بولی اور سمجھی جاتی ہی۔مسلمان اکثریت میں ہیں اور تقریباََ
سب ہی فقہ مالکی کے پیروکار ہیںآبادی میں مسلمانوں کی شرح8.7%ہی،%عیسائی ہیں اور کچھ
یہودی بھی یہاں آباد ہیں ۔اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہی یہاں مالکی فقہ پہنچ گئی تھی،پھر
اندلس کے حکمرانوں نے بھی مالکی فقہ کی بہت سرپرستی کی،امیرہشام اندلسی نے تو امام
مالک ؒکو اندلس میں بلانا بھی چاہا لیکن امام صاحب کو مدینہ سے بہت لگاؤ تھا اور وہ
پوری زندگی میں صرف ایک بار مدینہ سے نکلے تھے اور وہ بھی فریضہ حج کی ادائگی کے لیے
چنانچہ امام صاحب بڑے تشکر سے اندلس آنے کی دعوت لوٹا دی۔اسی زمانے سے اب تک افریقی
ممالک کی اکثریت فقہ مالکی کی پیروکار ہی۔تاہم مراکش میں غیرمسلموں کو بھی مکمل تحفظ
حاصل ہی۔
1996کے آئین کے مطابق بادشاہت اور جمہوریت
مل کریہاں کا سیاسی نظام چلاتے ہیں۔مجلس مستشرین یہاں کا ایوان بالا ہے اور مجلس ناواب
یہاں کا ایوان زیریں ہی۔وزیراعظم حکومت کا انتظامی سربراہ ہوتاہے اورکابینہ اسلی معاونت
کرتی ہی۔آئین ،قانون اور بہت ساری سیاسی پارٹیاں جن میں سوشلسٹ ،لبرل اور اسلامی فکر
کی حامل پارٹیاں بھی ہیںیہاں کے سیاسی کلچر کاایک حصہ ہیں۔بادشاہ اس سارے نظام کا اجتماعی
ذمہ دار ہی،اسی کی منظوری سے وزیر،کابینہ اور وزیراعظم بنتے ہیں اور بادشاہ کے پاس
ہی یہ اختیارات ہیں کہ وہ انہیں تحلیل کر سکی۔مقامی حکومتوں کا نظام وزارت داخلہ کے
تحت کام کرتا ہے ،ملک کو سولہ بڑے بڑے انتظامی حصوں میں تقسیم کیاہواہی،انکے نیچے صوبے
اور اضلاع ہوتے ہیں ۔سب حکومتوں کے سربراہان کا تقرر بادشاہ کے ہاں سے ہی ہوتا ہے تاہم
ان انتظامی سربراہوں کی معاونت کے لیے مقامی حکومتوں کے منتخب شدہ ادارے بھی موجود
رہتے ہیں۔
مراکش میں قانون کے دو متوازی نظام کارفرماہیں۔ایک
نظام قاضیوں کی نگرانی میں کام کرتا ہے جس کا مصدر قرآن مجید ہی،یہ مسلمانوں کا باہمی
قانون ہی۔دوسرا نظام فرانسیسی لیگل کوڈ سے اخذ کردہ ہی۔ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم
کورٹ ہے جو عدالتی طریقہ کار کی نگرانی کرتی ہی۔ججزکا تقرر بادشاہ وقت کرتا ہے اوریہ عدالتی نظام وزارت انصاف کے تحت ہی۔شاہی افواج
یہاں کی سرحدوں کی نگرانی کرتی ہیں،بحری اور فضائی قوت بھی اس ملک میں دوسرے ملکوں
کی طرح موجود ہی۔حکومت اپنی آمدن کا 20%تعلیم پر خرچ کرتی ہی،شہروں میں تقریباََ5%
بچے اسکولوں میں جاتے ہیںجبکہ ثانوی تعلیم تک اس تعداد کی نصف ہی پہنچ پاتی ہے لیکن
دیہاتوں میں یہ شرح کافی کم ہے ۔شاید اسی لیے یہاں شرح خواندگی کم و بیش 52.3%ہی ہی۔مراکش
میں 50کے قریب یونیورسٹیاں،زرعی اور طبی تعلیم اورٹیکنیکل تعلیم کے اعلی ادارے ہیں۔
مراکش چونکہ افریقہ کے شمال مغربی کونے پر
واقع ہے اس لیے یہ بہت سی تہذیبوں کی آماجگاہ رہا ہی۔قدیم افریقی تہذیب خود اسکی اپنی
تہذیب ہی،طلوع اسلام کے بعد اسلامی تہذیب اور پھر صدیوں تک عربوں کے زیر اثر رہنے کے
باعث عرب تہذیب بھی یہاں کی مٹی میں شامل ہوگئی۔ایک چھوٹی سی بحری پٹی کے بعد چونکہ
سامنے ہی یورپ کے علاقے شروع ہو جاتے ہیں اس لیے یورپی تہذیب بھی پانیوں کے راستے یہاں
پر در آئی اور ان سب پر مستزادیہ کہ سولھویں صدی کے آغاز میں اسلامی اندلس سے بچھڑنے
والے مسلمانوں نے جب یہاں پناہ لے کر آباد ہوناشروع کیا تو اس نئی تہذیب کی روایات
بھی آہستہ آہستہ اس علاقے کا جزولاینفک بن گئیں۔حکومت اور یہاں کی عوام اپنی اس تہذیبی
و ثقافتی اہمیت سے خوب واقف ہے اسی لیے تقریباَ ہر بڑے شہر میں عجائب گھرموجود ہیں
جہاں پر قدیم و جدید افریقی ومراکش کی تہذیب بہت خوبصورتی سے سجائی گئی ہے اس کے علاوہ
بہت سی نجی تنظیمیں اور تحقیقی ادارے بھی یہاں کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کو اپنے فرائض
میں شامل کیے ہوئے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر
ساجد خاکوانی
sajid_islamabad@yahoo.com
No comments:
Post a Comment