عالم انسانیت کے ناسُور
سردار الانبیأ ، فخرالامم
، نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ دنیا
آخرت کی کھیتی ہی۔ آخرت وہ ہے جو انسان کے اس دنیا سے کُوچ کر جانے کے بعد شروع ہوگی
اور اس دنیا میں اس نے جو سیا ہ و سفید کارنامے سر انجام دیئے تھے اُن کا بدلہ پائے
گا۔ اور اس سے کسی انسان کو مفر نہیں ہی۔ لیکن ایک کھیتی ایسی بھی ہے جو اس دنیا میں
ہی پک کر تیار ہو جاتی ہے اور اُسے ہر صورت یہاں ہی کاٹناپڑتا ہے ۔ لیکن یہ یاد رہنا
ضروری ہے کہ ہر شخص نے اپنا بویا ہوا خود ہی کاٹنا ہے ۔ میرے اس پیارے ملک پاکستان
کی فوج ، عدلیہ ، حکومت، پارلیمنٹ، سینٹ ، بیورو کریسی اور سیاست دانوں کی پچانوے فیصد
تعداد ملک اور قوم کی مخلص اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہی۔ لیکن ان میں کچھ گندی مچھلیوں
کی وجہ سے سارا تالاب گندا ہوجاتاہی۔ ان چند مغرور، متکبر سر پھروں اور اللہ تعالیٰ
کے باغی ننگ دین، ننگ ملت اور ننگ وطن لوگوں میں ایسے ناسور بھی رہے ہیں جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات اور فرعونی
جبلت کا اسیر ہو کر غداری ، ظلم و بربریت اور مکاری و عیاری کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ
دیئے یہاں تک کہ اپنی ذاتی حرص و ہوس کو پورا کرنے کے لئے سارے ملک اور قوم کو تباہ
و برباد کر کے رکھ دیا۔ اپنے سیاہ کرتوتوں کی فصل کاشت کرنے کے دوارن یہ لوگ بھول گئے
کہ اسے کاٹنا بھی تو خود ہی ہی۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ شائد عوام بے وقوف اور بے شعُور
ہے اور ان کا کوئی کچھ نہیں بیگاڑ سکتا۔ لیکن ایک اللہ توان کی ہر نافرمانی اور ظلم
و زیادتی کو دیکھ رہا تھا۔ جس کا قانون اوراصول اٹل ہیں ۔
ملک پاکستان کے کئی
معروف دانش ور یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو اب یہ شعور حاصل ہوگیا ہے کہ گزشتہ تمام ادوار
کے اکثر و بیشتر حکمرانوں نے جان بوجھ کر مختلف ٹیکسوں اورمکارانہ چالوں کے ذریعہ غریب
عوام کی جیبوں کو خالی کیا اور اپنی تجوریوں کو بھرتے رہے ہیں۔ اور اب جب کہ وہ اللہ
تعالیٰ اور زمین کی عدالت کی گرفت آئے ہیں تو جان بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مارنے شروع
کر دیئے ہیں ان دانشوروں نے حکمرانوں اور اپوزیشن رہنمائوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ قانونی
و آئینی جنگ عدلیہ میں لڑیں اور پاکستانی عوام پر رحم کھاتے ہوئے اسے سیاسی بنانے سے
گریز کریں ۔اور قومی اداروں کے ما بین ٹکرائو کی کیفیت پیدا کرنے کی بجائے اپنی کرپشن
اور دیگر الزامات کا نہ صرف دفاع عدالتوں میں کریں ۔ بلکہ اخلاقی جراء ت کا مظاہرہ
کرتے ہوئے عدالتوں کے دیئے ہوئے فیصلوں کو
متنازعہ بنانے کی بجائے من و عن تسلیم بھی کریں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ عوام کبھی
بے شعور نہیں رہی۔وہ تو اس وقت بھی باشعور تھی جب اس نے تاریخی قربانی کی لازوال داستان
رقم کرکے اپنا علیحدہ وطن پاکستان حاصل کیا تھا۔ عوام اُس وقت بھی باشعور ہوتی ہے جب
کوئی نئی سیاسی حکومت آ کر کاروبار حکومت سنبھالتی ہے اور لوگ اس کو سر آنکھوں پر بٹھاتے
ہیں ۔ اور پھر یہ سیاسی طالع آزما لوٹ مار کا بازار گرم کر کے جمہوریت کے نام پر ظلم
و ستم کی انتہا کردیتے ہیں پھر جب اصلاح احوال کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں اور سیاست
دان اپنی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی سے عوامی مینڈیٹ اور جمہوریت کے نام کو بلیک میل کرکے
کرسی چھوڑنے کا نام نہیں لیتے تو پھر خاموشی سے کوئی نیا فوجی ڈکٹیٹر آکر ان سیاسی
لٹیروں کوگُدی سے پکڑ کر نکال باہر کرتا ہے اور ان سے عوام کی جان چھڑاتا ہے ۔اس ملک
اور عوام کی بدقسمتی کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب تو کئی ایسے باشعور اور پڑھے
لکھے لوگوں نے بھی ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر اعتراض شروع کر دیا ہے جنہوں
نے آزاد عدلیہ کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ بعض منہ زور بڑی بے حیائی سے کرپشن
کا چیمپئن ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور ببانگ دھل کہتے ہیں کہ وہ عدالتی کیسز سے
نہیں ڈرتے ۔ درست بات ہے وہ کیسے ڈریں کیونکہ انہیںاپنے لمبے ہاتھوں پرگھمنڈہے کہ وہ
عدالت سے بالا بالا تمام شواہد و حقائق (facts & evidences) ختم کرسکتے
ہیں نہ جانے ان لوگوں کو توبہ کی توفیق کب حاصل ہوگی۔ یہ لوگ عوام کو بے وقوف سمجھتے
بھی ہیں اور بناتے بھی ہیں۔ عوام تو ہمیشہ ہر حال میں باشعور ہے اور رہے گی لیکن طاقت،
اختیارات اور وسائل کے زور پر یہ لوگ عوام کے شعور اور مینڈیٹ کو بھی ملیا میٹ کر دیتے ہیں ۔ بلیک
میلنگ، دھونس، دھمکیوں اور قتل و غارت کے ذریعہ انصاف اپنے حق میں خریدلیتے ہیں۔ ایسے
میں عوام اور عدالتیں کیا کریں جب پیسے کے زور پرشہادتیںاور گواہ پس منظر میں دھکیل
دیئے جائیں۔ کیونکہ عدالتوں نے فیصلہ صرف شہادتوں اور گواہوں (facts & evidences) کی روشنی
میں دینا ہوتا ہے اگر ان کا ہی وجود مٹا دیا جائے تو قوم و ملک کے مجرم فرشتوں کی طرح
پاک صاف ہوکر صاف بچ نکلتے ہیں بلکہ عدالتوں سے برّی ہونے کے بعد علی الاعلان قوم کی
آنکھوں میں دھول جھونکنا شروع کر دیتے ہیں کہ اتنے عرصہ کے مقدمات کے باوجود ان کے
خلاف جرم ثابت نہیں ہوا۔اور عدالتیں انہیں برّی کرنے پر مجبور ہوگئیں اس وجہ سے قوم
و ملک پران کا احسان مزید بڑھ گیا ہی۔ کیونکہ کئی سالوں تک یہ لوگ ظلم و زیادتی اور
عدالتی ٹرائل کا شکار رہی۔ ملکی آبادی کا اگر پانچ فیصد طبقہ کرپٹ شیطانوں کی حمایت
کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انہیں ساری قوم نے ملک کی تباہی اور بربادی
کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہی۔ جہاں تک کرپشن جیسے
ناسُور کا تعلق ہے اس وقت یہ عام آدمی سے لیکر اُوپر تک ملک کی جڑیں ، تنے ، شاخوں
اور پتوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہی۔ اور باشعور ہونے کے باوجود کوئی شخص اس سے
محفوظ نہیں ہی۔ این آر او (NRO) ختم ہو چکا ہے اور
جن معزز پاکستانیوں نے قرضوں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے تھے وہ سب منظر عام پر آچکے
ہیں اب جبکہ کورٹ اور میڈیا کے ذریعہ ان کا ٹرائل ہوتا ہے تو یہ لوگ چیخنا چلانا شروع
کر دیتے ہیں ۔عوام نے بھی اب یہ بات سمجھ لی ہے کہ تاریخ کے بڑے بزرگوں اور دانائو
ں نے ایسے ہی دنیا کے مال و زر کو سانپ اور بچھوئوں سے تشبیہ نہیں دے دی تھی ۔ اس میں
عوام یا میڈیا کا کوئی قصور نہیں کیونکہ انسان جو کچھ اپنے ہاتھ سے بوتا ہے آخر اسے
کاٹنا بھی اسی نے ہی ہوتا ہی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ملک کی پارلیمنٹ
ایک بالا دست ادارہ ہے لیکن جب بھی کوئی دوسری طاقت غیرقانونی طور پر اس کی بساط لپیٹ
دے اور حکومت کوچلتا کردے تو آخر کار اس کی بحالی یا قانونی حیثیت کا تعین اور فیصلہ
ملک کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ ہی کرتی ہی۔اس لئے پارلیمنٹ کوسپریم کورٹ کے اختیارات
یا فیصلوں پر اثر انداز ہو نے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئی۔ جب کہ ضرورت پڑنے پراور انصاف
حاصل کرنے کے لئے پارلیمنٹ اس کے ممبران اور حکومت سپریم کورٹ کے دروازے پر فریاد لے
کر جاتے ہیں ۔ حکومت کے اعلیٰ ترین عہدوں پر متمکن معزز کارپردازاگر چند تجاویز پر
عمل کر سکیں تو پاکستان کے بیشتر مسائل حل
ہو سکتے ہیں۔اور یہ ملک دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔ اور ملک
کے اند ر موجود مہنگائی کا مسئلہ حل ہونے کے ساتھ دہشت گردی بھی اپنی موت آپ مر جائے
گی۔ بظاہر یہ تجاویز معمولی اور مسائل سے غیر متعلقہ معلوم ہوتی ہیں لیکن ان پر عمل
کرنے سے ملکی حالات میں تبدیلی ممکن ہی۔ تجاویز یہ ہیں (۱) اسٹیٹس
کو (status quo) اور بیُوروکریسی
کو خاطر میں لائے بغیر ملک کے تمام اداروں میں اُردو بطور دفتری زبان رائج کی جائے
اور تمام تعلیمی اداروں بشمول دینی مدارس کا نصاب اور معیا ر ایک جیسا بنایا جائی۔
اس اقدام کے لئے اپنی ذاتی انا کو بھی خاطر میں نہ لایا جائے (۲) حکومتی سطح پر یہ حکم صادر کیا جائے کہ دن میں
پانچ مرتبہ نماز کے اوقات میں بیس منٹ کے لئے نہ صرف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں
میں تمام کام بند کر دئیے جائیں ۔ بلکہ سڑکوں
پر چلنے والی ٹریفک روک دی جائے ۔ خواہ کو ئی شخص نماز پڑھے یا کسی مجبوری کی وجہ سے
نہ پڑھے (۳)ملک کے اندر ہر بیس کلومیٹر فاصلے پر عام سرائیں
، ڈسپنسریوں اور مساجد کا انتظام کیا جائے (۴)اخلاقی
جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رورل ایریاز کی لوڈ شیڈنگ کم کر کے وہاں کے لوگوں کو نفسیاتی
امراض سے بچایا جائے تاکہ ملک کی اہم مین پاور پاگل پن کا شکار ہوکر ملک کی زوال پذیری
کا سبب نہ بن جائی(۵) ملک کے اندر تعمیری
اور مثبت کام کرنے والی تمام این جی اوز جو عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور مزدوروں کے حقوق
اور فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہی ہیں ان کی حمایت اور بھرپور مدد کی جائی(۶) پاکستان کی آبادی کا کثیر حصہ تیسری جنس پر
مشتمل ہے جنہیں خواجہ سرأ کہتے ہیں انہیں نہ مردوں اور نہ ہی عورتوں کے حقوق حاصل
ہیں حکومتی سرپرستی میں ان کی تعمیر و ترقی کے لئے انہیں روز گار کے مواقع مہیّا کئے
جائیں ان کی باعزت بحالی کا انتظام اور ان کے حقوق کا بھی تعین کیا جائے ان کے ہر فرد
کے ماہانہ خرچ کے لئے سرکاری طور پر وظائف مقرر کئے جائیں(۷) بجلی
کے صارفین کو کم از کم تین سو یونٹ تک ریلیف دیا جائی۔ مذکورہ بالا تجاویز یوں توعام
نوعیت کی ہیں۔ اور بظاہر ان کا ملکی مسائل سے کوئی خاص تعلق نظر نہیں آتا لیکن یقین
کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے تمام مسائل کا حل ان کے اندر ہی پوشیدہ ہی۔ ان اقدامات
سے معاشی اور اقتصادی اعتبار سے ملک میں ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہی۔ ان تجاویز پر
عمل کرنے سے پاکستان بہت جلد ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہوگا۔اورملک کا ہر فرد
اس قدر خوشحال ہو جائے گا کہ اُسے کُرپشن جیسی غلاظت میں اپنا منہ کالا کرنے کی ضرورت
ہی پیش نہ آئے گی۔
No comments:
Post a Comment