Friday 24 February 2012

مرقعِ رعنائی ۔۔۔۔۔(ایک جائزہ)

مبصر: ڈاکٹر محمد فخر عباس

          جمالیات کے امکانات اور حسین و جمیل احساسات جنہیں تصور کے دھندلکے میں محسوس تو کیا جاسکتا ہے یا دوسرے لفظوں میں احاطۂ تصور میں لایا جاسکتا ہے مگر ان جمالیاتی حسیات کو کسی وجودی شکل میں ڈھال کر معرض ہست و بود میں لانا آسان نہیں بلکہ یہ کارِدارد ہے، اس تناظر میں دیکھا جائے تو ”مرقعِ رعنائی“ میں جمالیات کو سوچ کی حدوں سے نکال کر انہیں الفاظ کا وجود دیتے ہوئے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دیا ہے۔ اور ایک پیکرِ رعنائی کی صورت میں اَمر بنا دیا گیا ہے۔ ابنِ کلیم کی تخلیق "خطِ رعنا" اپنے تمام تر قواعد کی موشگافیوں اور جمالیات کی مکمل مصور حشر سامانیوں اور پوری جلوہ آرائیوں کے ساتھ "مرقعِ رعنائی" میں جلوہ گر ہے۔ اور ذوقِ جمال اور فکرِ کمال کے حامل ناظرینِ باتمکین کو دعوتِ نظارہ دیتے ہوئے فکر و نظر کے نئے در وَا کئے گئے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ لکھاریوں، تنقید نگاروں اور مبصرین کو ایک نیا موضوعِ سخن دے دیا ہے۔
 ابنِ کلیم احسن نظامی کی تصنیفِ لطیف "مرقعِ رعنائی" یوں تو 1993ءمیں تکمیل کو پہنچی اور اس کے چند نسخے پروف ایڈیشن کی شکل میں منظرِ عام پر آئے جو کہ اہلِ نقد و نظر کیلئے برائے تبصرہ و تنقید پیش کئے گئے تھے جس کے نتائج خاطر خواہ نکلے اور صاحبانِ علم و فن سے نقد و نظر کے صورت میں جو رشحاتِ قلم ہمیں میسر آئے وہ قارئین کے نظر نواز کرنا ہمارا مقصود ہے۔
          بزمِ ثقافت ملتان، دی پبلک لائبریری باغ لانگے خان کے صدر جناب ڈاکٹر عاشق محمد خان دُرّانی پیش لفظ میں یوں رقمطراز ہیں۔ "اللہ تعالیٰ کو دین و دنیا میں یقینا حُسن پسند ہے کیونکہ ربّ العزت نے انسان کو نیک کام کرنے کے عوض جس بہشت میں ہمیشہ کے لئے رہنے کا ذکر کیا ہے وہ بہشت حُسن سے مالا مال ہے۔مرقعِ رعنائی جناب ابنِ کلیم کی زندگی بھر کی کاوشوں کا نچوڑ ہے۔ ابنِ کلیم کی زندگی بھر کی محنت کا مُرقعِ رعنائی ایک جامع تھیسز Thesis ہے۔ اُن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے عربی فارسی اردو کی تحریروں میں ایک نئے انداز کو متعارف کروایا ہے جو کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منفرد نمونہ ہے۔ ان کے مزاج کا حسن ان کی تحریروں میں نمایاں نظر آتا ہے۔ چنانچہ بزمِ ثقافت ملتان نے اُن کی سرپرستی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ان کے اس زندگی بھر کے تخلیقی کام بعنوان 'مرقعِ رعنائی' کو چھپوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اپنے کام میں مزید سرخرو کرے۔ آمین۔ "
          اسی طرح وزیرِ اعظم پاکستان سید محمد یوسف رضا گیلانی کی تحریر کچھ یوں ہے: "خطاطی ہماری ثقافت کی جان ہے، اس دور میں جب اسلامی فنون کی ترقی و ترویج سے چشم پوشی کی جارہی ہے مگر ابنِ کلیم مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ خطاطی کی مختلف اصناف اور اسالیب میں کمال پیدا کیا ہے، بلکہ ایک نئے اسلوب 'خطِ رعنا' کا اضافہ کیا ہے اور ان کی تصنیف 'مرقعِ رعنائی' صاحبانِ علم و فن کیلئے ایک زریں کتاب ہے جس سے صدیوں تک اہلِ علم و فن فیضیاب ہوں گے، کیونکہ یہ کتاب فنِ خطاطی کی تاریخ، خطِ نستعلیق اور خطِ رعنا کے رموز اور انکی تربیت کا پورا پورا سامان لئے ہوئے ہے۔ یہ عظیم کتاب نہ صرف اپنے اندر خطاطی کا ایک جہاں رکھتی ہے بلکہ رنگ و بو میں سکونِ قلب اور آشتی کا سامان بھی رکھتی ہے، 'خطِ رعنا' ابنِ کلیم کے لئے ہی نہیں اہلِ وطن کے لئے بھی وجۂ افتخار ہے۔"
          عصرِ حاضر کا موجد و مخترع کے عنوان سے پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری نے لکھا ہے: "جناب ابنِ کلیم صاحب نے خطِ رعنا ایجاد کر کے اسلامی اور مشرقی خطاطی کی روایت میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ خطاطی کی پیش رفت میں بالعموم اور خطِ رعنا کی ایجاد کے ذریعے بالخصوص ابنِ کلیم صاحب نے اس فن کی جو خدمت کی ہے اسے کسی طرح بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ خطاطی کے بارے میں کئی تالیفات کی اشاعت بھی بذاتِ خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابنِ کلیم نے، جو بجا طور پر خطاط ہفت قلم کہلاتے ہیں عصرِ حاضر میں اسلامی خطاطی کے فروغ میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ اب جب کہ گذشتہ کئی سالوں کی کاوشِ پیہم سے وہ اپنے نو ایجاد خط 'خطِ رعنا' کی نزاکتوں اور باریکیوں کو سامنے لا چکے ہیں اور ایک طرح سے اپنے خط کی جمالیات AESTHETICH کو مکمل کر چکے ہیں، بلا مُبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ اُنہوں نے اسلامی خطاطی کی تاریخ میں اپنے لئے ایک انفرادی مقام حاصل کر لیا ہے۔ ’خطِ رعنا‘ جو نسخ اور نستعلیق و غیرھُم کے خوبصورت امتزاج کا ایک انوکھا نمونہ ہے روز بروز مقبولیت حاصل کر رہا ہے اور جدید اسلامی خطاطی کی مقبولیت کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ابنِ کلیم صاحب کے اس کارنامے کو خطاطی کا کم نظر نقاد یا مؤرخ ہی نظر انداز کر سکتا ہے"۔
          اُردو کے معروف دانشور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے خطِ رعناءکی حیثیت کو اس طرح تسلیم کیا ہے: "اِس زمانے میں جب خطاطی کے فن کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہے اور ہم اپنی اس عظیم الشان ثقافتی روایت سے محروم ہوتے جاتے ہیں ابنِ کلیم نے اس فن میں درجۂ کمال بہم پہنچا کر اس فن کی تجدید کی ہے اور 'خطِ رعنا' ایجاد کر کے تاریخ میں اپنی جگہ محفوظ کر لی ہے ان کے نمونے ایک ایسے فنکار کو پیش کرتے ہیں جس نے خونِ جگر صَرف کیا ہے اور اَساتذئہ قدیم کی یاد کو تازہ کر دیا ہے"۔
1982-دفتر انجمن ترقی اُردو ہند، اُردو مرکز نئی دہلی میں 
دائیں سے خطاط اعظم ہند جناب عاصم اَمروہوی، جناب ڈاکٹر خلیق انجم،
 حافظ محمد یوسف دہلوی، آخر میں ابنِ کلیم احسن نظامی
          دہلی کے خطاط امان اللہ صدیقی 'مرقعِ رعنائی' میں خطِ رعنا کی پذیرائی یوں کرتے ہیں: "ابنِ کلیم کی تخلیقات میں مروّجہ تمام خطوط کے بہت خوبصورت اور دلکش کتبات کے علاوہ ایک جدید خط 'خطِ رعنا' میں لکھے ہوئے کتبات بھی ہیں جس کے موجد ابنِ کلیم ہیں۔ اساتذئہ متقدمین کی طرح خطِ رعناءکی ابتدائی تختیاں اور اس کے اُصول و ضوابط کو بھی ابنِ کلیم صاحب نے تحریر فرما دیا ہے یہ سب کچھ وہی کر سکتا ہے جس کو اپنے آپ پر اور اپنے فن پر پورا اعتماد اور عبور حاصل ہو اور اس میں کلیم صاحب پوری طرح کامیاب ہیں۔ میں خود بھی اس فن سے متعلق ہوں اس لئے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل کا مؤرّخ اگر خطاطی کی تاریخ لکھے گا تو ابنِ کلیم صاحب کا نام سرِ فہرست ہوگا۔ میں دل کی گہرائیوں سے دعاگوں ہوں اللہ تعالیٰ ان کو تمام پریشانیوں اور الجھنوں سے دُور رکھے تاکہ یہ اپنی صلاحیتوں کو بُروئے کار لا سکیں"۔
          خطاطِ اعظم ہندوستان جناب محمد خلیق ٹونکی سربراہِ شعبۂ خطاطی غالب اکیڈمی نیو دہلی نے خطِ رعنا کو کس حیثیت سے جانا اور مانا ہے۔ اُردو ادب کی جو حسین روایاتِ عالیہ فروغ پذیر ہیں ان میں دوسرے کے علم و فن پر فراخدلی کے ساتھ بغیر کسی لگی لپٹی کے تحسین و تعریف کے کلماتِ خیر اور اپنے لئے کمال انکساری کی روایت خلیق ٹونکی صاحب کی اس تحریر میں نمایاں ہے۔  "اس میں شک نہیں کہ اساتذہ فن نے خطِ نستعلیق کو لطافت و نزاکت کے ساتھ باضابطہ بنانے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا، اسی لئے خظِ نستعلیق کے بعد صدیوں سے کسی خط کی ایجاد عمل میں نہیں آسکی۔ لیکن خطِ نسخ میں ابنِ مقلیٰ کے ایجاد کردہ خطوط کے بعد بے شمار فنکاروں نے اپنے خونِ جگر سے ان ششگانہ خطوط کے چمن کی آبیادی کرکے ان کو باضابطہ جوڑ پیوند دے کر بامِ عروج پر پہنچایا ۔ تاہم صدیوں سے اس چمن میں کسی نہ کسی گُل کی کمی تھی ، لہٰذا میرے فاضل و فنکار دوست جناب حافظ محمد اقبال ابنِ کلیم ملقب بہ ہفت قلم (متوطن ملتان ۔ پاکستان ) نے پیہم جہد و سعی و دماغ پاشی سے بیحد قلیل مدت میں ایک خط 'خطِ رعنا' کے نام سے ایجاد کرکے نہ صرف اس گل کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس خط کو گل رعنا کی سی لطافت و حسن دیتے ہوئے مفردات ، مرکبات ، مقطعات، رباعیات ، مضامین اور طغریٰ وغیرہ کے ہمہ طرز نگارش کا ایک ذخیرہ جمع کرکے اس فنِ خطاطی کے ساتھ اپنے والہانہ شغف و دیدہ ریزی کاثبوت دیا ہے۔ نیز اس خطِ رعنا کے جوڑ و پیوند، نشست و کرسی ، دور و سطح کے اصول ترتیب دے کر نہایت سہل اور مفید عام بنادیا ہے ۔ اَللَّھُمَّ زِد فَزِ د !۔ یوں تو موصوف ( ابنِ کلیم ) خطِ کوفی ، نسخ ، ثلث ، دیوانی ، رقعہ ، نستعلیق یعنی خطوطِ ششگانہ کے مسلّمہ ماہر ہیں لیکن خطِ رعنا کی ایجاد کے ذیل میں انہیں ہفت قلم کے خطاب سے مشرف کیا گیا ہے ۔ غالب اکیڈمی ، بستی حضرت نظام الدین ؒ ( نئی دہلی نمبر 110013) میں موصوف کی ہفت قلمی ہمہ طرزِ نگارش پر مشتمل نمائش کی کامیابی پر میں دلی پُر خلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اپنی بے بضاعتی کا احساس کرتے ہوئے رشک کے ساتھ یہ شعر پڑھتا ہوں۔"
چہ نادانی کہ فنِ خوش خطی راہِ سہل می دانی   کمالِ کسب باید ایں ہمہ جِدّت طرازی را
          اردو، عربی اور فارسی تحریروں کے لئے ایک نئے طرزِ تحریر بنامِ 'خطِ رعنا' کے قواعد و ضوبط کی مُروّج اور روائتی تختیاں جو قطوں کے حساب سے ابنِ کلیم نے رقم کی ہیں اس میں 'خطِ رعنا' کی تختیٔ اول بوضاحتِ قط کے“ ذیل میں وہ لکھتے ہیں کہ ذیل میں خطِ رعنا کی پہلی تختی جس میں حروف کی ساخت کے ساتھ ساتھ قلم کی موٹائی (یعنی قطوں) کے حساب سے حروف کے قواعد و ضوابط کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور حرف جس میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ اسے چھوٹا، بڑا کر کے لکھنے کی کیا صلاحیت ہے۔ اس مضمون کے آخری حصہ میں ایک وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ "راقم نے 1973ءمیں خطِ رعنا کی تختیٔ اول تخلیق کی تھی جو کہ میری دوسری تصنیف 'نقوشِ رعنا موسوم مرقعِ خطاطی' میں شائع کی گئی تھی۔ ناقدینِ فن جناب پروفیسر اسلم انصاری (جنہوں نے اس خط کو 'خطِ رعنا' کا نام بخشا تھا) کے اس اصرار پر کہ مُرکب تختیوں کی تخلیق مبتدی حضرات کے لئے اس نوایجاد رسم الخط سے مکمل استفادہ کرنے کیلئے از حد ضروری ہے الحمدللہ! راقم ان کرم فرماؤں کے آگے سرخرو ہوا ہے۔ خطِ رعنا کی جوڑ و پیوند والی پوری 10تختیاں پیش ہیں۔
1992 Quran Majeed Conference
          ڈاکٹر سریندرا بھوٹانی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عرب کلچرل سینٹر نیو دہلی بھارت کی تحریر خطِ رعنا کے جلی الفاظ میں یوں ہے۔ ”ہمارے عرب کلچرل سنٹر نیو دہلی میں ابنِ کلیم کے فنِ خطاطی کی نمائش ایک عجوبہ سے کم نہیں، انکی فنی مہارت نے ہمیں حیران کر دیا ہے۔ دیگر حضرات کے علاوہ ہم تمام عرب اور اسلامی دُنیا کے تمام سفراءابنِ کلیم کے فن سے بہت متأثر ہوئے ہیں‘ یہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اس خطِ رعنا کی نمائش کا تمام اسلامی ممالک میں اہتمام کیا جائے اور اس ایجادِ نو سے مسلمانوں کو رُوشناس کرایا جائے۔ ہمیں اُمید ہے کہ ابنِ کلیم اپنے مشن میں آگے بڑھتے رہیں گے۔ ہم دُعاگو ہیں کہ وہ مستقبل میں کامیاب و کامران ہوں“۔
          ملک کے معروف ماہرِ لسانیات جناب ڈاکٹر مہر عبدالحق کی ماہرانہ رائے یہ ہے کہ خطِ رعنا علاقائی زبانوں کے لئے بھی مفید ہے اور ہماری قومی زبان اُردو اور عربی و فارسی تحریروں کے لئے بھی انہیں ایک لازوال حسن عطا کرتا ہے۔
          ہونہار نوجوان شاعر محمد مختار علی مقیم جدہ نے "کلیم رقم" کے عنوان سے خوبصورت نظم لکھی ہے جو مرقعِ رعنائی میں شامل ہے۔
بڑھا ہے جن کے ہنر سے وقارِ خطاطی
اُنہیں قلم کے قرینے سلام کرتے ہیں
متاعِ لوح و قلم ہیں وہ اہلِ فن جن سے
حروف، دائرے نقطے کلام کرتے ہیں
ہے جن کی زیست برائے فروغِ فن مختار
ہم اُن کے ذوقِ لطافت کو عام کرتے ہیں
ہے جس کی لَو سے منوّر دیارِ خطاطی
ہم اُس کلیمِ قلم کو سلام کرتے ہیں
          اسلام آباد سے ادارہ الشوریٰ کے صدر نشین جناب سلطان محمود شاہین نے تحریر کیا ہے :"جب اللہ تعالیٰ کو اپنے علم کے خزانوں سے دُنیا پر کچھ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے تو وہ اس کے لئے خاص استعداد اور قابلیت کا حامل بندہ زمین پر پیدا فرماتا ہے اور اُسے اپنی کسی ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے شرفِ نیابت عطا کرتا ہے اسی طرح حریمِ ذات کا ارادہ ہوا کہ وہ عالمِ ہستی کو ایک نئے رسم ُالخط سے سعاد تمند کرے۔ تب وہ ابنِ کلیم صاحب کے ذریعہ خطِ رعنا ظہور میں لایا۔ تخلیقِ انسان حقیقت میں تخلیق حق ہے۔ انسان چونکہ اس وقت مادے کا اسیر ہے اس لئے ہر چیز کو ظاہری پیمانے سے ماپتا اور مادی زاویۂ نگاہ سے دیکھتا ہے حالانکہ بعض چیزوں کی حقیقت رُوحانی اور لافانی ہوتی ہے جن کا تعلق معرفتِ حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ خطِ رعنا کی قدر و منزلت بھی تمام انسانوں کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک آفاقی دولت ہے۔  خطِ رعنا و دیگر روائتی خطوں میں ابنِ کلیم کے تخلیق کردہ فن پارے: تاحال ساڑھے چھ صد (650) فن پارے تخلیق کئے۔  ابنِ کلیم صاحب کے تخلیق کردہ یہ فن پارے مختلف رنگوں کے حسن و جمال کا مرقع ہیں۔ رنگینی کا ایک الگ نظارہ ہوتا ہے مگر بقولِ ابنِ کلیم ”خوبصورت لفظوں کی خطاطی اپنے اندر بھرپور جلوہ آرائی رکھتی ہے رنگوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ جو لوگ لفظوں کی ساخت کو پورے روائتی اصولوں کے ساتھ لکھنے کی دسترس نہیں رکھتے وہ اپنی فنی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے رنگوں سے تزئین کاری کا سہارا لیتے ہیں"۔
          مرقعِ رعنائی کا دوسرا حصہ خطِ رعنا میں ڈیزائن کئے گئے تخلیقی فن پاروں پر مشتمل ہے جس میں چالیس فن پارے شامل کئے گئے ہیں۔ ان میں خطِ کوفی، نسخ، ثلث، رقعہ، دیوانی، نستعلیق، خطِ ریحان وغیرہ میں بھی ایک ایک فن پارہ تخلیق کیا گیا ہے تاکہ ناظر کو ہر خط کی پہچان کا ذریعہ فراہم کر سکیں۔ ان فن پاروں میں زیادہ قابلِ ذکر اور دیدنی بات یہ ہے کہ ہر خط کے فن پارہ کو توام انداز سے تخلیق کیا گیا ہے اور لائٹ رنگوں سے قطعات کو اس طرح مزین کیا گیا ہے کہ خطاطی کو مرکزی مقام حاصل ہے۔
          ابنِ کلیم کے مشمولہ فن پاروں کی نمائشیں سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہولم، ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن، بھارت کے دارالحکومت دہلی (غالب اکیڈمی میں) اور وطنِ عزیز میں امریکن سینٹر کراچی، گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کراچی، الحمراءآرٹس سنٹر لاہور، شاکر علی میوزیم لاہور، نیشنل آرٹ گیلری اسلام آباد، میں کئی بار ہوچکی ہیں۔
          "مرقعِ رعنائی" میں شیخ حفیظ الرحمن سابق سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب، سابق کمشنر ملتان حسن رضا پاشا، عظیم خوشنویس و آرٹسٹ عبدالحمید دہلوی (کراچی)، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی و صدر مقتدرہ قومی زبان، سابق وزیر جاوید ہاشمی، معروف شاعر اعزاز احمد آذر، ڈاکٹر عنوان چشتی پروفیسر جامعہ اسلامیہ نیو دہلی، انوار انجم اُردو سروس آل انڈیا ریڈیو، بی کے نارائن بیتاب کرنل (ریٹائرڈ) بھارت، ڈاکٹر خالد سعید بٹ ڈائریکٹر جنرل ادارہ ثقافت پاکستان، سید فخر الدین بلے ملتان، پروفیسر حسین سحر مرتب منظوم مترجم قرآنِ مجید، زوار حسین آرٹسٹ، سابق گورنر پنجاب مخدوم محمد سجاد حسین قریشی، و دیگر کی خطِ رعنا کے حوالے سے مؤثر تحریریں بھی شامل کی گئی ہیں۔
          اس کے بعد تیسرا حصہ ہم "اسماءالحسنیٰ  ربِ کریم بخطِ رعنا ابنِ کلیم" کو قرار دیتے ہیں۔ اس حوالہ سے صرف ایک تحریر جو معروف شاعر و ادیب جناب عاصی کرنالی نے رقم کی ہے قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کر رہے ہیں۔ ”جنابِ ابنِ کلیم دین، ثقافت، علم، ادب اور تہذیب کی جانب سے اجتماعی شکرےے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے جدید خطاطی کے حوالے سے ہمارے عہد میں اِن اقدار کی تفہیم و ترسیل کا ایک مؤثر اور دِل نشیں وسیلہ اختیار کیا ہے۔ عربی، فارسی اور اُردو میں ان کے طغرے، کتبے، قطعے اور دوسرے نقوش و آثار ہمارے زمانے کے اہلِ طلب پر واضح کرتے ہیں کہ دینِ اسلام اور اُس کی تہذیب و ثقافت میں کتنی بے کراں جمالیات موجود ہیں اور یہ جمالیات اس خطاطی کے حوالے سے ہمارے اَذہان و قلوب میں اُتر کر ہمارے ایمان، ہمارے معتقدات اور ہمارے افکار و اعمال میں انوار و تجلّیات بھر دیتی ہیں۔ میرے سامنے ابنِ کلیم کے تحریر کردہ "اسماءُ الحسنیٰ" ہیں یہ اسماءجب میری نظر سے گزرتے ہیں تو یہ میرے قلب پر نازل ہوجاتے ہیں، میری رُوح کو مطلعِ نُور بنا دیتے ہیں، مجھ سے باتیں کرتے ہیں، اپنی پوری معنویت کو میرے وجود میں انڈیل دیتے ہیں۔ میں ان سماءکے مفاہیم سے آشنا ہوکر اپنے اللہ کے اور قریب آجاتا ہوں اور اُس کی رحیمی، رَبوبیّت، جلال، جمال، عدل، رَزّاقی، رأفت، بندہ نوازی اور مخلوق پروری کی صفات میرے دل پربراہِ راست منکشف ہونے لگی ہیں۔ اِسی طرح ابنِ کلیم کے قرآنی طغرے اور اُن کے دوسرے معجزاتِ قلم میرے دِل و دماغ کو علم و عِرفان کے خزانوں سے بھر دیتے ہیں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہَفت رقم خطاط ابنِ کلیم احسن نظامی نے خطِ رعنا ایجاد کر کے مجھے، اور ہم سب کو، اور ہمارے عہد کو اور آنے والے اَدوار کو جہاں جمالیات کے ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا ہے وہیں ہماری دینی اور تہذیبی تربیّت بھی کی ہے۔"
          اسما ءُ الحسنیٰٔ ربِ کریم خطِ رعنا کی الفاظ میں ڈیزائن کئے گئے ہیں گول دائرے میں اسمِ مبارک اور باہر جلَّ جلالہٗ کے الفاظ سے بارڈر بنایا گیا ہے اور نقاشی کے آرنامنٹس سے سجایا گیا ہے۔ ایک صفحہ پر اوپر تلے دو فن پاروں کے عکس شامل ہیں یوں 32صفحات پر 64اسماءِ مبارک ہیں جو کہ ایک ایک اسم مبارک پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد ایک صفحے پر ڈاکٹر محمد امین، استاد عبدالحمید آرٹسٹ فیصل آبادی، سید مجاہد علی شاہ مشہدی اور میر ثروت حسین کاظمی کے رشحاتِ قلم اسماءالحسنیٰ کے حوالہ سے ہیں اور پھر 15صفحات پر اُسی گولائی میں دو، دو اسماءالحسنیٰ کو کمال چابکدستی سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ دیکھ کرآنکھوں میں نور دل میں سرور کی کیفیات مرتب ہوتی ہیں۔
          اس کے بعد جو چیپٹر ہے اس کانام ہے 'خطِ نستعلیق' شروع کے دو صفحات پر اس خط کی ایجاد کے حوالہ سے تاریخی پس منظر اور تختیٔ اول خط نستعلیق مع قواعد و ضوابط و قوانین مروّجہ بوضاحتِ قط، اس سے آگے ہر صفحے پر دو ، دو جوڑ پیوند کی تختیاں چھ صفحات میں دی گئی ہیں۔ چونکہ خطِ رعنا نستعلیق کے سات سو برس بعد ایجاد ہوا اور یہ فخر ملتان پاکستان کو حاصل ہے اس لئے مذکورہ دونوں خطوں کی مکمل معلومات کتاب میں دے دی گئی ہیں۔
          آخری حصے میں 'مرقعِ رعنائی' کے حوالہ سے چند مفصل مضامین شامل کئے ہیں جن میں پہلا مضمون یہ ہے "خطاطی کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے والا خطِ رعنا، جو موجد کے مطابق یہ پاکستانی تہذیب کا نشان بن چکا ہے۔" یہ مضمون معروف ادیب، شاعر و صحافی محمد مجاہد سید مقیم جدہ نے تحریر کیا ہے۔ دوسرا مضمون معروف صحافی، ادیب و شاعر محمد اقبال اختر مقیم کوپن ہیگن (ڈنمارک) کا تحریر کردہ ہے۔ تیسرا اہم مضمون جو 'مرقعِ رعنائی' کی جان ہے اور بقول ابنِ کلیم ان کی زندگی کا سرمایہ اور حاصل ہے۔ اس طویل مضمون کا نام ہے ”خطِ رعنا کا فنی جمالیاتی جائزہ“ اسے پروفیسر ڈاکٹر جناب اسلم انصاری نے تحریر کیا ہے۔ 6صفحات کے اس مضمون میں خطِ رعنا کی ایجاد کی کہانی، اس کے محاسن اور خوبیاں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ پھر دہلی سے خطاطِ ہند سید عاصم امروہوی نے خطِ رعنا کی ایجاد کے ارتقائی مراحل کا جائزہ پیش کیا ہے جو اس طرح ہے ۔ دہلوی طرز میں اردوئے معلی کا ایک الگ خوبصورت تشخص ہے یہ عاصم امروہوی کی اس علمی ادبی اور فنی تحریر سے آشکار ہے"۔ پاکستان (ملتان) کے معروف خطاط ہفت قلم اور ایک جدید حسین طرز 'خطِ رعنا' کے مخترع ابنِ کلیم صاحب تیسری مرتبہ ہندوستان آئے۔ ازراہِ اخلاص غریب خانہ پر قدم رنجہ فرمایا اور نئی کتاب مرقعِ رعنائی پیش کی۔ جزاک اللہ!
          ان کے فن پاروں کی دو روزہ نمائش منعقدہ 22اگست 1997ء(بمقام غالب اکیڈمی، بستی حضرت نظام الدین اولیاء) میں شرکت نہ کر سکنے کا بے حد ملال رہا۔ کیونکہ موصوف کے گزشتہ دو دَوروں میں ان کے فن پاروں کی ہر نمائش میں محض شرکت نہیں شریکِ احساسات بھی رہا ہوں۔ اس وقت تکلیف کی نوعیت ہی ایسی ہے جس نے معذور رکھا۔
          تاہم میرے عزیزِ گرامی متأسِف نہ ہوں۔ یقین کیجئے میں نے اس نمائش میں بھی شرکت کی ہے۔ یہ شرکت رسمی بصری نہیں، بصیرتی نوعیت کی ہے۔ یعنی انعقاد کے وقتِ معینہ پر 4اور 5بجے کے درمیان پیش کردہ کتاب 'مرقعِ رعنائی' کو سامنے رکھا اور قوی تصور میں خود کو تقریب میں حاضر کیا۔ پھر مرقعِ رعنائی کے اَوراق کو اُلٹتا گیا اور ایک ایک فن پارہ کو بنظرِ غائر اسی طرح دیکھا جیسے نمائش میں آویزاں فن پاروں کو دیکھا جاتا ہے۔
          18سال قبل (پہلے دَورہ کے وقت) خطِ رعنا لڑکپن کی منزل سے گزر کر عنفوانِ شباب کی منزل میں قدم رکھ رہا تھا شوخی اور رعنائی اس وقت بھی عیاں ہو رہی تھی، دو سال بعد دوسرے دورہ میں مزید نکھار نظر آیا اور اب یہ خط 'مرقعِ رعنائی' کے اَوراق پر بھرپور شباب کے ساتھ ایک حسین پیکرِ رعنائی کی صورت میں نظر نواز ہے۔
          دوسرے دورہ پر اپنے تأثرات کے ذیل میں 'خطِ رعنا' کے لئے میں نے پیکرِ رَعنائی بننے کا جو دُعائیہ جملہ لکھا تھا، اس کی قبولیت آج پیش نظر ہے۔ کیونکہ اَب ابنِ کلیم صاحب نے اس خط کی تمام تختیاں مع قواعد و ضوابط لکھ کر گویا تکمیل کر دی ہے۔ کتاب میں اسماءالحسنیٰ اور توام طغرے بہت دیدہ ریزی اور جانفشانی سے ترتیب دئےے ہیں۔
  کتاب کو فن پاروں کے علاوہ صوری محاسن (نفیس طباعت، اعلیٰ قیمتی کاغذ اور سادگی میں بھرپور پُرکاری کے مظہر ٹائٹل) نے بھی بہت وقیع اور دیدہ زیب و دِلکش بنا دیا ہے۔ ان کامیابیوں پر صدقِ دلانہ مبارک باد قبول فرمائیں۔ ذٰلِکَ فَضلُ اللہ۔ “
          صفحہ نمبر 167پر جناب شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید بانی ہمدرد فاؤنڈیشن کا جمالیاتی ذوق سے 'مرقعِ رعنائی' پر سیر حاصل تبصرہ:  "اسلامی فنون میں خطاطی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اور اگر ہم کسی ایک فن کو اسلامی ثقافت کی روح سے تعبیر کرنا چاہیں تو وہ یقینا خطاطی کا فن ہی ہوگا، جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اسلام نے سب سے پہلے زیادہ زور علم پر دیا ہے ارو حصولِ علم کا کوئی تصور تحریری کتابت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کتابت کی اس اہمیت کے پیشِ نظر مسلمان فنکاروں نے خطاطی میں نت نئے کمالات کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسلمان حضرات کی مسلسل تخلیقی کاوشوں کے نتیجے میں 6مختلف اسالیبِ خطاطی یعنی خطِ کوفی، خطِ نسخ، خطِ ثلث، خطِ دیوانی، خطِ رقع اور خطِ نستعلیق وجود میں آئے اور بتدریج ارتقاءکے تمام مراحل طے کئے۔ ابنِ کلیم صاحب کے خلاقانہ ذہن نے ایک نیا اسلوبِ خطاطی ایجاد کیا، انہوں نے پہلے مروّجہ اسالیبِ خطاطی میں کمال پیدا کیا اور آخر کار ایک نیا اسلوب ایجاد کیا جسے وہ 'خطِ رعنا' کہتے ہیں۔ ان کی اس ایجاد نے فنِ خطاطی میں قابلِ قدر اضافہ کیا ہے۔ اس نئے اسلوبِ خطاطی کے نمونے 'مرقعِ رعنائی' کے نام سے شائع ہوگئے ہیں۔ ابنِ کلیم صاحب کا یہ کارنامہ فنِ خطاطی میں انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ امر نہایت دل خوش کن ہے کہ 'مرقعِ رعنائی' نہایت نفاست اور خوش سلیقگی سے شائع کی گئی ہے جس پر میں جنابِ ابنِ کلیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
اس کے بعد چار انگلش کے مضامین بھی شامل کئے گئے ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔
1.     “KHATTAT-E-MASHRIQ (CALLIGRAPHER OF THE EAST)”
By: Dr. Muhammad Fakhar Abbas
2.     “ALBUM OF (INSCRIBED) BEAUTY”
By: S. Amjad Ali (Author of book “The Painters of Pakistan”).
3.     “CALLIGRAPHIC HISTORY & SERVICES OF IBN-E-KALEEM”
By: Atiq Ahmed Arshad
4.     “KHATE-E-RA’ANA CALLIGRAPHY SCRIPT INVENTED BY IBN-E-KALEEM”
By: Maj (R) S.A.J. Shirazi
          آخر میں چار صفحات پر مشتمل آرٹسٹ و خطاط ابنِ کلیم احسن نظامی صاحب کا تفصیلی تعارف دیا گیا ہے۔ 'مرقعِ رعنائی' 130گرام میٹ پیپر پر بڑے (A-4)سائز کے 182صفحات پر مشتمل ہے۔ ٹائٹل فور کلر طباعت سے مزین ہے۔ ٹائٹل پر ابنِ کلیم صاحب کا کینوس پر تخلیق کردہ 6x4فیٹ سائز کا مصورانہ خطاطی کا فن پارہ لگا ہوا ہے جو کہ کالی ربن کی صورت میں خطِ رعنا کے اندازِ تحریر میں "بسم اللہ الرحمن الرحیم" ہے جبکہ خالی رقبے بڑے حسین انداز میں کلر کئے گئے ہیں۔ بزمِ ثقافت ملتان دی پبلک لائبریری باغ لانگے خان ملتان، اور دبستان فروغِ خطاطی رجسٹرڈ وحید پلازہ حسن پروانہ روڈ ملتان سے میسر ہے۔ رابطہ نمبر: 0321-7322630, 0331-7005399
صاحبِ کتاب جناب ابنِ کلیم احسن نظامی
راقم (ڈکٹر محمد فخر عباس) کو یہ فخر و اعزاز حاصل ہے کہ جنابِ ابنِ کلیم صاحب کی شاگردی میں کئی برس گزارے خطاطی کی سوجھ بوجھ حاصل کی اس فن کو سمجھنے کیلئے میرا جو شوق تھا اس کے راقم کو بڑے فوائد حاصل ہوئے۔ راقم استادِ گرامی جناب ابنِ کلیم صاحب کی فنی خدمات کا بڑا معترف ہے اور ان کا ممنونِ احسان بھی کہ آج ان کی معرکۃ الآرا کتاب پر یہ جائزہ لکھنے کے قابل ہوا ہے۔

1 comment:

  1. ma sha alah tabarak allah
    very nice works


    mokhter alam
    makkah
    calligraphy artist of kaba kiswa

    ReplyDelete