Saturday 3 March 2012

ندرتِ فن خطاطی کا امین


از: پروفیسر ڈاکٹر صفدر حسین صفدر
        جب خطاطی کے ایجاد کی صبحِ ازل عہدِ ماضی کی گہری تاریکیوں میں نظر سے اوجھل ہو گئی مگر اس کے باوجود جب اور جہاں کہیں اس کے دھندلے نقوش ابھرے ہیں وہ عرب فلاسفر عالم کے لفظوں میں بولتے ہوئے نکلے ہیں اور اس بات کی شہادت دی ہے کہ خط ہی انسان کے ہاتھ کی زبان ہی۔ اور دل کی ترجمان ہی۔ تاریخِ تمدن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ خطاطی اکثر علوم کی نگہبان اور بیشتر فنون کے خزانوں کی کلید ہی۔ یہ اپنی ذات میں علم بھی ہے اور فن بھی، اس کی دونوں حیثیتیں مسلّم ہیں۔
Ibn-e-Kaleem (Calligrapher, Artist) 

        کائنات کے وجود میں آنے کے بعد انسان ارتقائی منازل طے کرتا ہوا آدمیت کے پیکر میں نمودار ہوا اور اس کی انفرادی زندگی سیر و شکار کی حد سے گزر کر زراعتی اور تمدنی میدان میں داخل ہوگئی۔ وہ صحرائوں اور جنگلوں کو چِیرتا ہوا ساحلِ سمندر پر آیا۔ اس کی زندگی نے کُنبوں اور قبیلوں کی صورت اختیار کر لی۔ اس کے نتیجے میں اجتماعی زندگی کا آغاز ہوا اور عمرانی تقاضوں کے زیرِ اثر یہ محسوس کیا جانے لگا کہ اپنے خیالات و افکار اور پیغامات دوسروں تک منتقل کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ خط جیسی کوئی چیز ایجاد کی جائے جس سے خیالات و افکار کو محفوظ بھی کیا جاسکی۔ یہی تمدنی تقاضہ اور ضرورت اوائل عمر میں خط کی ایجاد کا سبب بنا۔
      

  تاریخِ انسانی اس کی شاہد ہے کہ انسان اپنے وحشیانہ دور میں بھی جانوروں اور انکی حرکات و سکنات کا مشاہدہ بہت دلچسپی سے کرتا تھا اور ان کی تصویریں بناتا تھا۔ ان وحشیوں نے جو تصویر اپنے حکمراں کی یاد میں سانپ کی شکل کی بنائی تھی اس کی پشت پر چاقو کے پھلوں کی طرح کے خاردار نشانات بنے ہوئے ہیں اور گنیؔ کے مقام میں ان کی قدیم جائے پناہ چٹان پر پائی گئی ہی۔ اس کے بعد دوسرا دَور آیا اس وقت بھی انسان کا دل جذبات و احساسات سے معمور تھا۔ کبوتروں کو محبت سے مست ہو کر ناچتے ہوئے دیکھ کر جب اسے دوستی و محبت کے جذبے کو ظاہر کرنا ہوتا تو وہ کبوتر کی تصویر بنا کر اپنے جذبۂ محبت کی ترجمانی کرتا۔ دشمنی کے اظہار کے لئے سانپ کی شکل اور جنگ کے لئے شیر یا چیتے کی تصویر بنا کر اپنے جذبۂ جنگ و جدال کی تسکین کرتا۔ ہمارے دور میں بھی غالبؔ کے اشعار اور عمرِ خیامؔ کی رباعیوں کو تصویروں کے ذریعے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہی۔ لیکن ہزار ہا سال پہلے خیالات و افکار کے نقوش کو تصویروں کی معرفت نمایاں کیا جاتا تھا۔ آجکل شاعری میں مصوری کی جاتی ہی۔ ماضی میں مصوری میں شاعری کی جاتی تھی۔ اور خطاطی اِن دنوں فنونِ لطیفہ یعنی شاعری اور مصوری کے ہنرِ مشاطگی سے سنور رہی تھی اور یہی سبب ہے کہ خطاطی میں دونوں اجزاء پائے جاتے ہیں۔
        مسلمانوں نے ہر دور میں علوم و فنون کی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں اور بڑی قدردانی و سرپرستی کی ہی۔ انہیں جس علم و فن سے دلچسپی ہوئی اس میں انہوں نے امتیاز حاصل کیا اور قابلِ قدر اضافے کئی۔ بالخصوص فنِ خطاطی میں مسلمانوں نے عظیم کارنامے انجام دئیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم خطاطی کو خالص اسلامی فن قرار دے سکتے ہیں۔ فنِ خطاطی مسلمانوں کے جمالیاتی ذوق کی آئینہ دار ہی۔ اس فن سے صرف اساتذہ، طلباء اور اہلِ علم ہی وابستہ نہ تھے بلکہ بڑے بڑے بادشاہوں، شہزادوں اور امیروں کو اس سے گہری دلچسپی تھی اور انہوں نے فنِ خطاطی کے اعلیٰ نمونے بطورِ یادگار چھوڑے ہیں۔ یہی ہمارا ثقافتی ورثہ ہے جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہی۔ یہاں اس کی تاریخی تفصیل میں جانا بے محل ہوگا۔
        زمانۂ حال میں انسان پرندوں کی طرح ہوا میں آڑنے میں مشاق ہوگیا ہے اور پانی میں مچھلیوں کی طرح تیرنے میں مہارت حاصل کر لی ہے اور فضائے بسیط کی تسخیر اور دوسرے جہانوں کی تلاش میں اس درجہ منہمک ہوگیا ہے کہ وہ اپنی تہذیب و تمدن کی قدروں اور ثقافتی ضرورتوں سے بے نیاز ہوگیا ہے اور اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کو سائنسی اور تکنیکی پروگراموں کی تکمیل میں صَرف کر رہا ہی۔ ابنِ کلیم حافظ محمد اقبال خان احسن نظامی پاکستان میں ایسی ہستی ہے جس نے اپنی قوم کی توجہ خطاطی کے مختلف پہلوئوں کی طرف مبذول کرائی۔ اس قسم کی کاوشیں متمدن اور باشعور اقوام کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ابنِ کلیم نے فنِ خطاطی پہ ’’تاریخ فنِ خطاطی‘‘ اور ’’نقوشِ رعنا موسوم مرقعِ خطاطی‘‘ اور دیگر کتابیں شائع کی ہیں۔ یہ کتابیں ابنِ کلیم کی کامیاب کوششوں کا ثمرہ ہیں اور یہ قدر شناس اصحاب سے جن میں اربابِ فن، اہلِ علم، طلباء ، اساتذہ، علماء، فضلاء اور عوام و خواص سب شامل ہیں خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ ان کتابوں نے لوگوں کی دست درازیوں اور خلل اندازیوں کے باوجود غور و فکر کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔
        ابنِ کلیم حافظ محمد اقبال خان احسنؔ نظامی پاکستان کے اُس شہر میں پیدا ہوئے جسے مدینۃ الاولیاء کہا جاتا ہے یعنی ملتان جو اولیاءِ عظام اور صوفیائے کرام و اکابرین ِ دین کی توجہ کا مرکز رہا ہی۔ ابنِ کلیم فنِ نستعلیق اور عربی رسم الخط کی دوسری اصناف میں اپنے والدِ بزرگ وار محترم مخدوم محمد حسن خان کلیم رقم مرحوم سے استفادہ کرتے رہی۔ یہ ان کے والدِ ماجد کا ہی فیضانِ نظر ہے کہ ابنِ کلیم نے اس فن میں درجۂ کمال حاصل کیا اور اس طرح فنِ خطاطی میں نمایاں حیثیت کے مالک بن گئی۔ ابنِ کلیم کی مذکورہ بالا کتابوں کو حکومتِ پاکستان نے بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور سربراہِ مملکت نے ان کی خدمات کے صلہ میں انعام سے نوازا۔ ابنِ کلیم نے اسلامی فنِ خطاطی کے جن سات مروّجہ خطوں پر تحقیقی کام کیا ہے وہ ہماری اسلامی تاریخ کا سنہرہ باب ہی۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں جو معلومات فراہم کی ہیں ان کی پشت پر نہ صرف تحقیقات و معلومات کا قابلِ قدر ذخیرہ ہے بلکہ عملی جد و جہد اور تجربات کا بھی ایک بے بہا خزانہ ہے جس سے موضوع زیرِ بحث کی علمیّت اور افادیت میں اضافہ ہوگیا ہی۔ ابنِ کلیم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے روائتی ڈگر سے ہٹ کر ایک نیا خط ایجاد کیا ہے اور اسے خطِ رعنا کے نام سے پوری دنیا میں متعارف کرایا ہی۔ فنِ خطاطی کی تاریخ میں یہ ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہی۔ ہندوستان کے اربابِ فن خصوصاً خطاطوں، ادیبوں اور اہلِ نظر نے ابنِ کلیم کے ایجاد کردہ خطِ رعنا کو بہت سراہا اور دل کھول کر خراجِ تحسین پیش کیا ان کی قدر دانی کا اندازہ ان کی تحریری آراء سے بخوبی ہوسکتا ہے سرِ دست یہاں عرب کلچرل سنٹر نیو دہلی میں جو خطاطی کی نمائش ہوئی تھی اس کے بارے میں چند باتیں عرض کرنی ہیں۔ 27دسمبر 1979ء کو پاکستان کے مشہور و معروف خطاط ہفت قلم جناب ابنِ کلیم کے نادر مخطوطات کی نمائش غالب اکیڈمی نیو دہلی میں منعقد ہوئی اور اس کے بعد خطاطی کی یہ نمائش جنوری 1980ء میں عرب کلچرل سنٹر نیو دہلی میں ہوئی اس نمائش کو دیکھ کر اور اس سے متأثر ہو کر مسلم ممالک کے سفیروں اور دیگر ممتاز شخصیات نے تحریری طور پر ابنِ کلیم کے فنِ خطاطی پر جو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہی۔
        سلطنتِ عمان کے سفیر جناب احمد حمود المعمیری نے ابنِ کلیم کے فنِ خطاطی کے متعلق اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ابنِ کلیم کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے فن کے ذریعہ عربی رسم الخط کے مختلف انواع کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ہے میں ان کی سعئ جمیل سے بہت متأثر ہوا ہوں‘‘۔
        سفیر دولۃ الامارات العربیہ المتحدہ کے جناب محمد عبداللطیف راشد نے ابنِ کلیم کے فنِ خطاطی کے متعلق اپنی نیک خواہشات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ابنِ کلیم کے فن سے بہت متأثر ہوا ہوں اور دعاگو ہوں کہ وہ اپنے فن میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کریں۔ (آمین)‘‘
        سفیر الکویت جناب عیسیٰ عبدالرحمن العیسیٰ نے ابنِ کلیم کے فن کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ’’میں ابنِ کلیم کے فن کو مسلمانوں کے لئے باعثِ فخر سمجھتا ہوں اور ان کا فن فنِ خطاطی کے ذخیرے میں اضافے کا باعث بنا ہی۔‘‘
        سفارت دولۃ الکویت کے جناب محمد المجرن الرومی نے ابنِ کلیم کے نادر مخطوطات کو دیکھ کر کہا کہ ’’ابنِ کلیم نے عربی رسم الخط کے مختلف انواع کو بہت فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے اور قرآنی آیات کو خطِ رعنا میں اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ ہماری توجہ کو فوراً اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔ وہ اس عظیم الشان کارنامے پر ہماری مبارکباد کے مستحق ہیں۔‘‘
        عرب کلچرل سنٹر دہلی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناب ایس بھوٹانی نے ابنِ کلیم کے فنِ خطاطی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ہمارے عرب کلچرل سنٹر نیو دہلی میں ابنِ کلیم کے فنِ خطاطی کی نمائش ایک عجوبہ سے کم نہیں۔ ابنِ کلیم کی فنی مہارت نے ہمیں حیران کر دیا ہی، دیگر حضرات کے علاوہ ہم تمام عرب اور اسلامی دنیا کے تمام سفیر ابنِ کلیم کے فن سے بہت متأثر ہوئے ہیں۔ یہاں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ابنِ کلیم کے فنِ خطاطی کی نمائش کا تمام اسلامی ممالک میں اہتمام کیا جائے اور اس کے فن سے مسلمانوں کو روشناس کرایا جائی۔ ہمیں امید ہے کہ ابنِ کلیم اپنے مشن میں آگے  بڑھتے رہیں گے ہم دعاگوں ہیں کہ وہ مستقبل میں کامیاب و کامران ہوں۔‘‘
        خطاط سید امین عاصمؔ کاظمی امروہوی نے لکھا ء کہ ’’ابنِ کلیم خطِ نسخ، ثلث، رقاع، دیوانی، کوفی ، فارسی رسم الخط پر کافی عبور رکھتے ہیں آپ کے فنِ خطاطی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ ایک نئے خط کے موجد بھی ہیں جس کا نام خطِ رعنا ہی۔ ‘‘
        لیگ آف عرب اسٹیٹ کے تسنیم احمد نے کہا کہ ’’ابنِ کلیم کا فن ایک قابلِ قدر چیز ہے جس کی ہمت افزائی خود ان کی اور اسلامی کلچر کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
        بی‘ کے نارائن بیتاب (کرنل ریٹائرڈ) نے لکھا کہ ابنِ کلیم صاحب کی خطاطی کے نمونے دیکھ کر روح کو اُبھار ملتا ہے خاص طور پر خطِ رعنا آپ کی مخصوص وَضعِ خطاطی ہی۔ ان کی فن میں روحانیت کی جھلک نمایاں ہی۔ ‘‘
        آل انڈیا طبی کانفرنس دہلی کے جناب سہیل انور نے لکھا کہ ’’میں نے ایسے بے مثال شاہکار اپنی زندگی میں نہیں دیکھے فرطِ مسرت سے اتنا مغلوب ہوگیا کہ مزید کچھ لکھنے سے قاصر ہوں۔‘‘
        پروفیسر گوپی چند نارنگ (صدر شعبۂ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی) نے ابنِ کلیم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ابنِ کلیم نے فنِ خطاطی میں درجۂ کمال بہم پہنچا کر اس فن کی تجدید کی ہے اور خطِ رعنا ایجاد کر کے تاریخ میں اپنی جگہ محفوظ کر لی ہی۔‘‘
         محترمہ کوثر جہاں نے ابنِ کلیم کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ابنِ کلیم کے فن سے فنِ خطاطی کو ایک نئی زندگی ملی ہی۔‘‘
        محترمہ حزیں گوہر نے لکھا کہ ’’میں ابنِ کلیم کے فن سے بہت متأثر ہوئی ہوں اور دعاگو ہوں کہ ان کا فن دنیا میں ہمیشہ درخشاں رہے ۔ ‘‘
        پروفیسر خواجہ زکی احمد نے لکھا کہ ’’ابنِ کلیم نے مشکل ترین فن کو اپنا کر اپنے حوصلے کا ثبوت دیا ہی۔ ‘‘
        محمد جہاں نے بھی ابنِ کلیم کے فن کو سراہا اور لکھا کہ ’’ابنِ کلیم نے خطِ رعنا ایجاد کر کے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہی۔‘‘
J       ابنِ کلیم کے فنِ خطاطی کی نمائشیں جو غالب اکیڈمی دہلی اور عرب کلچرل سنٹر نیو دہلی کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئیں وہ اس بات کا بین ثبوت  ہیں کہ ابنِ کلیم کا فن نہ صرف ہمارے لئے باعثِ فخر ہے بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بھی باعثِ فخر و مسرت ہی۔ ابنِ کلیم کی شخصیت اور ان کے فن نے پاکستان اور اہلِ پاکستان کے وقار میں اضافہ کیا ہی۔ ہمیں ان کی عظیم الشان خدمات کے پیشِ نظر ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور حکومت کی طرف سے بھی پذیرائی ہونی چاہئی۔ ابنِ کلیم کے فن نے اُس فنِ خطاطی کو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے جسے عرصہ ہوا لوگ فراموش کر چکے تھے۔

2 comments:

  1. To,
    The Principle,
    dear
    sir,

    With Due respect
    i can submit

    my dear sir

    i can learn the urdu and english
    caligraphy.
    my cell no. 03334973237
    my mail id mkkhalil712@gmail.com


    yours faithfuly,

    mr m khalil *malik-

    ReplyDelete
  2. i am interested my dear sir

    i have some art pappers

    acramine brown
    and others

    i want best caligraphy book

    wich i can understand your instruction,s

    and i can follow your instruction,s then please reply me
    and send me your caligraphy book or magazine

    ok Allah Hafiz
    dear Sir

    ...................................
    khalil
    mkkhalil712@gmail.com

    ReplyDelete