Monday 12 March 2012

ایک خوبصورت دنیا کا خواب

ایک خوبصورت دنیا کا خواب 
سلطان محمود شاہین
          کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ اس دنیا میں ہی آپ برق رفتار سے ایک دن میں کئی ملکوں کا دور کرکے شام کو واپس اپنے آفس یا گھر پہنچ جائیں۔ یا آپ کے پاس ایسی اُڑن طشتری ہو جو نہ پٹرول اور گیس استعمال کرے اور نہ ہی بجلی۔ آپ اس کائنات میں ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ چند منٹوں میں طے کر رہے ہوں۔ہر شعبہ زندگی میں آپ کی ترقی کی رفتار فزوں تر ہوجائی۔ تو پھر انتظار کیجئے عنقریب آپ کے یہ سارے خواب پورے ہونے والے ہیں۔ 
         
خالق حقیقی اللہ تعالی نے تمام جہانوں کی مخلوقات میں سب سے اعلیٰ و ارفع اور بلند مقام انسان کو عطا فرمایا ہی۔معروف مخلوقات میں نوری، ناری اور خاکی مخلوق شامل ہے  ہر ساکن و محرک مخلوق صرف انسانی زندگی کی بقا اور تکمیل کے لئے استعمال ہو رہی ہی۔بظاہر زمانہ اور وقت رواں دواں نظر آتا ہے جبکہ حقیقت میںتمام کون و مکاں اپنی تکمیل کے راستے پر آگے بڑھ رہا ہی۔ اور وقت اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہی۔ اسی تکمیل حیات کے نظام کو اگر از ابتدائے آفرینش لیا جائے جب اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات میںانسان کو اشرف المخلوقات کا اعزاز عطاکرکے کچھ وقت کیلئے زمین پر بھیجا تاکہ اس کی منشاکے مطابق کارخانہ قدرت کا نظام چل سکی۔اور انسان اپنی پہچان کی معراج حاصل کری۔ زندگی کے مختصر دورانئے کیلئے انسان کی تمام ضروریات کا سامان زمین اور آفاق میں پھیلا دیا گیا تاکہ انسان مختلف مقامات کی معرفت اور حکمت کے ساتھ اپنی جدوجہد کے ذریعہ ضرورت کی  ہر شئے حاصل کر سکی۔ خالق کائنات نے ایک طے شدہ پیمانے اور حدود کے اندر تمام کائنات کو تخلیق کرکے زمانے اور وقت کے سپُرد کر دیا ۔جس کے تحت دُنیا میں  ہر شیٔ کی ابتدأ اور ایک انتہا ہے ۔ اس کے بعد وہ عالم موجُود سے معدوم ہوکر عالم  برزخ کا حصہ بن جاتی ہے ۔ ہمارا مقصود عالم موجود کے پیش آمدہ  وژن پر بحث کرنا ہے ۔ روز اول تا حال قدرت زمین پر بسنے والے انسانوں کو ان کی ضرورت کے دائرے میں ہر چیزعطا کرتی ہے اور اگر موجودہ آبادی میں بیس گنا اضافہ ہو جائے تب بھی زمین کا حجم اور پھیلائو یہی رہنے کے باوجود انسانی ضروریات زندگی اسی زمین پر پوری ہوں گی ۔ابتدائے بزم جہاں میں زمین کی رونق افروزی کے لئے آدم و حواّ کو اُتارا گیا اس وقت زمین پر ہر طرف جنگل ، جھاڑیاں ، ویرانی ، ناہمواری تھی اور بظاہر لوازم زیست کا کوئی سامان منصۂ شہود پر نہ تھا ۔ لیکن اس کے ہر پیڑ ، پودی، پتھر، مٹی  اور پانی میں موجود ضرور تھا جو کچھ وقت کے لئے پوشیدہ تھا ۔ تب   زندگی کے آغاز پر درختوں کے پھلوں پتوں کو خوراک اور ستر پوشی کا ذریعہ بنایا گیا۔ پھر جیسے جیسے  آبادی بڑھنے لگی ۔ زمین کے جنگل اورگھاس پھوس، سب سرسبز باغوں اور خوبصورت میدانوں میں تبدیل ہونے لگی۔ انسان نے جھونپڑوںسے ترقی کرکے کچے پکے مکانوں میں رہنے اور پتوں سے تن ڈھانپنے کی بجائے کپڑے کے ذریعہ ستر پوشی کا ہنر سیکھ لیا ۔ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوا انسانوں نے کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کی تکنیک  بھی حاصل کر لی۔ پھر بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پرمزید پوشیدہ خزانے ظاہر کرنے شروع کر دیئے مثلاً زمین سے معدنیات ، توانائی کے ذخائر، کوئلہ، تیل ، گیس وغیرہ کے حصول اور پانی کے ذریعہ بجلی پیدا کرنے کا ہنر بھی سکھا دیا لیکن انسان چونکہ فطرتاً جلد باز اور اپنے ربّ کا ناشکرا ہے اس لئے عارضی زندگی کی حقیقت کو بھول کر زمین پر اپنی فطری توسیع پسندی کے منصوبے شروع کر دئیے اپنے ان عزائم کی تکمیل کیلئے اللہ تعالیٰ کے عطأ کردہ وسائل پر اپنی اجارہ داری اور قبضہ کے لئے ہر طاقت ور کمزور پر چڑھ دوڑنے لگا انسان اپنے غرور و تکبّر کے نشے میں مخمور ایک دوسرے کی گردن دبوچنے کے درپے آزار رہتا ہی۔اس سب کے باوجود اللہ تعالیٰ کا اپنا ایک اٹل نظام ہے جب انسان اس کے عطأکردہ وسائل پرناانصافی سے قبضہ شروع کر د ے اور آبادی کی بڑھتی ہوئی رفتار اور ضروریات کے پیش نظر وسائل کم ہونا شروع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان کا متبادل     ظاہرفرما دیتا ہے جو نا ختم ہونے والا یا پہلے سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہی۔ مثلاً توانائی ، ایندھن کے وسائل اور لکڑی کے ذخائر کم ہوجانے کے زمانے میں  زمین سے کوئلے کے خزانے ظاہر ہو گئے جب کوئلے کی مقدار میں بھی کمی آنے لگی توپھر تیل اور گیس کے خزانے دریافت ہو گئی۔ اب آبادی کی رفتار میں دن بدن اضافے سے تیل اور گیس کے ذخائر بھی کم ہونا شروع ہو گئے ہیں علاوہ ازیں ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے لوگوں کی قوت خرید بھی کم کردی۔ ایسے میں کسی اور متبادل توانائی کی ضرورت پیش آئی۔
           کیا ایک ایسے وقت کا تصورکیا جاسکتا ہے جب ایک انسان کو کسی دوسرے ملک جا نا ہو گا ۔ اور اسے ایک نہایت ہی محفوظ کیپسول  میں لٹا کر یہ کیبسول ایک بڑی برقی ٹیوب میں ڈال دیا جاے گا اور ایک بٹن دبانے سے انسان پلک جھپکتے میں ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچ جائے گا ۔یہ اتنی حیرانی کی بات نہیں ہے بلکہ آئندہ چند سالوں میں اس سے بھی کہیں حیران کن مناظر اور حقیقتوں سے عالم انسانیت کا واسطہ پڑنے والا ہے ۔
           اس کائنات کا ایک اٹل اصول ہے کہ اس کی ہر شئے کی ایک حد مقرر ہے اپنی اس آخری حد پر پہنچنے کے بعد یا تو وہ ختم ہو جاتی ہے یا پھر واپسی کا سفر شروع کر دیتی ہے تب اشیائے ضرورت کی قلت ہو جانے یا انسانوں کی پہنچ سے باہر ہو جانے کی صورت میں لوگ اس کا متبادل تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں ذرا سوچئے وہ کیا زمانہ ہوگا جب لکڑی ،کوئلے ، بجلی ، تیل اور گیس پر اپنی اجارہ داری اور قبضہ قائم کرنے والے قلاش ہو جائیں گے ایندھن کے ان ذرائع سے چلنے والے کارخانے بند ان کے کارکن بیکار، جہاز، کاریں موٹریں اور سڑکیں ناکارہ ہوجائیں گی۔اور انسان توانائی کے لئے سولر انرجی کا مکمل راز حاصل کر لے گا تب وہ دنیا کے کسی اجارہ دار اور قبضہ گروپ کا دست نگر نہ رہے گا۔ آپ اپنی خود ساختہ ایک چھوٹی سی سولر چپ کے ذریعہ گاڑی چلائیں گے یہی چپ مکان کی چھت پر لگاکر گھر کے چولھی، بلب، ٹی وی، فرج استعمال کریں گی۔آ پ کی ہر زیر استعمال چیز کاریموٹ کنٹرول بٹن آپ کی جیب میں ہوگا۔ آ پ اس سولر انرجی کو کئی دنوں بلکہ مہینوں کیلئے اسٹور کرسکیں گی۔آپ کی گاڑیوں میں دنیا کے جدید ترین سیفٹی سسٹم اور انڈیکیٹر نصب ہوں گی۔ آپ کی گاڑیاں ہیلی کاپٹر اور جہازوں کی جگہ فضائوں میں پرواز کریں گی۔ ان کے پورچ گھروں کی چھتوں پر یا بلند عمارات کی علیحدہ علیحدہ منزل پر ہوں گے ۔آپ فضائوں میں محو پرواز ہوتے ہوئے آفس بلڈنگ کی پچاسویں منزل پر اپنی گاڑی کارپورچ میں داخل کریں گی۔ اور گاڑی سے اترنے کے بعد اپنے دفتر میں بیٹھ کر کام کریں گی۔ گاڑیوں کی تیز رفتاری اپنی مثال آپ ہوگی۔ آپ ایک شہر سے دوسرے شہر کی میٹنگز میں شرکت کے ساتھ دفتر کے اوقات میں ہی دوسرے ممالک کے اجلاسوں میں شریک ہو کر واپس اپنے دفتر پہنچ جایا کریں گے ۔ آپ کی گاڑیاں تب اُڑن طشتریاں ہوں گی۔ جو پانی کے اوپر ، پانی کے اندر، زمین پر اور فضا میں برابر پرواز کر سکیں گی۔آپ ان اُڑن طشتریوں میں خوبصورت تتلیوں کی طرح  ہر طرف اڑتے ہوئے نظر آئیں گی۔سائینس پر اتنی دسترس حاصل کر لیں گے کہ آپ زمین کے بجائے آسمانوں اور فضائوں سے پانی حاصل کریں گے اورہوائوں اور فضائوں پر آپ کا عمل دخل بڑھ جائے گا۔ ایسے میں کون سڑکوں پر چلنا پسند کرے گا۔جس طرح پانی کی کمی کی صورت میں ہر شخص اپنے بورنگ  کے ذریعہ پانی حاصل کرلیتا ہی۔ اسی  طرح اپنی ذاتی سولر انرجی کے ہوتے ہوئے کون بجلی، تیل، گیس خریدنا پسند کرے گا۔یہ سب گئے گزرے زمانے کی چیزیں ہو جائیں گی۔ ان چیزوں پر قبضہ کرنے والے اور ان کا کاروبار کرنے والے سب بھوکے مر جائیں گی۔ یا پھر متبادل کے حصول کے لئے دوسروں کے دست نگر بن جائیں گی۔تب زندگی کے پہیے کی رفتار کئی ہزار گنا بڑھ جائے گی اور یہ ناختم ہونے والا سولر انرجی کا خزانہ کھربوں انسانوں سے بھی ختم نہ ہو سکے گا۔ جنگلوں پہاڑوں اور زمین کی بجائے فضائوں، خلائوں اور آسمانوںپر بود وباش کا زمانہ شروع ہو جائے گا۔
          اب تک انسان نے جو سائنسی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں وہ بھی نہایت حیران کن ہیں عنقریب کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ذریعہ ناقابل یقین کام لئے جائیں گی۔ جو آج کی دنیا اور انسانوں کے تصور میں بھی نہیں ہیں۔
          انسان کی سوچ وسیع ہو جائے گی وسائل وافر مقدار میں میّسر ہوں گی۔ ہر طرف امن و سکون اور سلامتی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوگی اور انسان روحانی اور مادی ترقی کی انتہائی بلندی پر ہوگا۔

No comments:

Post a Comment