Friday 23 March 2012

سرائیکی صوبہ تحریک میں بہاولپور کا کردار

سرائیکی صوبہ تحریک میں بہاولپور کا کردار

تحریر: محمد ممتاز خان ڈاہر
          سرائیکی صوبے کی تحریک پورے شد و مد کے ساتھ جاری ہی۔ مسلم لیگ ( ن ) کے سوا تمام سیاسی جماعتیں انتظامی  یا لسانی بنیادوں پر پنجاب کی تقسیم چاہتی ہیں ابھرتی ہوئی سرائیکی صوبہ تحریک میں سینیٹر محمد علی خان درانی نے بہاولپور صوبے کا مطالبہ کیا ہی۔ بہاولپور کے چند نوابوں اور بعض دوسرے حضرات نے ان کی حمایت کی ہے جس سے کچھ سیاسی حلقوں نے یہ تاثر لیا ہے کہ بہاولپور کے عوام سرائیکی صوبے کے حامی نہیں ، یعنی وہ اپنے علاقے کو مجوزہ سرائیکی صوبے میں شامل نہیں کرنا چاہتی، یہ تاثر کلی طورپر درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بہاولپور کے اکثر لوگ مکمل صوبہ سرائیکستان کے حق میں ہیںتاہم کتنے لوگ سرائیکستان کے حق میں ہیں اور کتنے لوگ بہاولپور صوبے کے حق میں اس بات کا فیصلہ آئندہ انتخابات میں ہوگا۔ سیاست ایک وسیع عمل ہی۔ اس عمل میں شریک ہوکر انسان حکمرانی کے قواعد و ضوابط سیکھتا ہی۔ سیاست قومی خدمت، اعلیٰ تہذیب اور جدید ترین معاصری علوم کا نام بھی ہی۔ پاکستانی سیاست الزام تراشیوں، سازشوں، قومی خزانے کی لوٹ مار اور قتلِ انسانی کا نام بھی ہی۔ سیاست بہت بڑی علمی تفریح اور میڈیا وار بھی ہی۔ چنانچہ قومی خدمت اور انسانی جرائم کے گنجلک عمل میں پاکستانی سیاست کو سمجھنا آسان نہیں۔ تاہم اگر تاریخی حقائق سامنے ہوں تو عقلِ سلیم ہر شخص کی رہنمائی کرتی ہی۔ سرائیکی صوبہ تحریک میں بہاولپور کے کردار کو بھی تاریخی حقائق کی روشنی میں سمجھنا چاہئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سرائیکی صوبے کا خیال سب سے پہلے تحریک بحالی صوبہ بہاولپور کے رہنما ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ نے پیش کیا۔ اور سب سے پہلے انہیں نے مجوزہ صوبہ سرائیکستان کا نقشہ کھینچا تھا۔ ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ سرائیکی صوبہ محاذ کے سینئر نائب صدر تھی۔ وہ آخری دم تک سرائیکی صوبے کے حامی رہی۔ ان کا مرقد بہاولپور کے قدیمی قبرستان سعدی شیرازی میں ہی۔
1975 میں ملتان میں پہلی کل پاکستان علمی ادبی ، سرائیکی کانفرنس کے موقع پر بہاولپور سے تعلق رکھنے والے رہنما یان نوابزادہ مامون الرشید، بریگیڈیئر نذیر علی شاہ، حاجی سیف اللہ خان اور افضل مسعود خان سمیت سینکڑوں افراد نے سرائیکی صوبے کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔ 5 اپریل 1984 کو سرائیکی صوبہ محاذ کا تاسیسی اجلاس قاری نور الحق قریشی نے ملتان میں طلب کیا تھا۔ جس میں بہاولپور کے سیاسی رہنمائوں نے بھی شرکت کی تھی۔ بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ سرائیکی صوبہ محاذ کے اولین صدر جبکہ میونسپل کمیٹی بہاولپور کے سابق چیئرمین سیٹھ عبید الرحمٰن ( اسیر تحریک بحالی بہاولپور ) کے اولین جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے تھی۔ سابق وفاقی وزیر ملک فاروق اعظم کے گھر پر سرائیکی صوبہ محاذ کے اجلاس ہوتے تھی، وہ سرائیکستان کے حامی رہی۔ اب انہوں نے قبلہ بدل لیا ہی۔احمد پور شرقیہ کے معروف قانون دان اکبر علی انصاری پاکستان سرائیکی پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں شامل تھی۔ ملک صدیق سکندر ایڈووکیٹ احمدپور شرقیہ میں افضل مسعود خان کے گھر پر اس کتاب کی تقریب اجرا میں موجود تھے جس پر سب سے پہلے سرائیکی صوبے کا نقشہ شائع کیا گیا تھا۔ خان پور سے تعلق رکھنے والے معروف اخبار نویس ظہور احمد دھریجہ نے 80 کے عشرے میں سرائیکستان صوبے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا،۔ انہوں نے خان پور سے پہلا سرائیکی اخبار ’’ جھوک ‘‘ جاری کیا۔ اب یہ اخبار خان پور، ڈیرہ اسماعیل خان اور ملتان سے بیک وقت شائع ہوتا ہے ۔ انہوں نے تین مقامات سے اخبار جاری کرکے تاریخ کو یہ پیغام دیا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ملتان اور ملتان سے رحیم یار خان تک سرائیکستان ایک ہی وسیب ہی۔ ظہور احمد دھریجہ نے سرائیکی صوبے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی ہی۔ عبدالمجید خان کانجو رحیم یار خان کے زمیندار اور سینئر سیاسی کارکن ہیں، وہ 17 مارچ 1989 کو بہاولپور میں ایک انتخابی عمل کے نتیجے میں اے این پی سرائیکستان کے صدر منتخب ہوئی۔ یہ انتخاب بہاولپور کے وکیل اسلم راشدی ایڈووکیٹ کی رہائش گاہ پر ہوا تھا۔ اسی روز اے این پی نے اندرون فرید گیٹ میں عبدالمجید خان کانجو کی صدارت میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جس میں سرائیکی صوبے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عبدالمجید خان کانجو نے بعد میں سرائیکی نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔ عبدالمجید خان کانجو نے 2 اکتوبر 1998 کو اسلام آباد میں پونم کے اس تاریخی چارٹر پر دستخط کیے تھے جس میں پاکستان کو پانچ قومی صوبوں ( پنجاب، سرائیکستان، سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ ) میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اس وقت بہاولپور صوبے کا مطالبہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ عبدالمجید خان کانجو نے گزشتہ 25 سال سرائیکی صوبے کے لیے صرف کیے ہیں۔ انہوں نے سرائیکی صوبہ تحریک میں اگر کروڑوں نہیں تو لاکھوں روپے ضرور خرچ کیے ہیں۔ صاحبزادہ محمد دائود خان عباسی نے میں سرائیکی قومی اتحاد کی بنیاد رکھی۔ بعد میں اس جماعت کی قیادت کرنل( ر ) عبدالجبار خان عباسی نے سنبھالی۔ کرنل عبدالجبار خان عباسی نے 2005 میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر سرائیکستان نیشنل محاذ کی تشکیل کی۔ کرنل عبدالجبار نے 2010 میں خواجہ غلام فرید کے ہمراہ ملتان کی طرف مارچ کیا۔ جون 2011 میں کرنل ( ر ) عبدالجبار خان عباسی نے مجوزہ سرائیکستان کے تمام اضلاع کا ایک جلوس کی صورت میں دورہ کیا۔ اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ سرائیکی وسیب کو انتظامی ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہونے دیں گی۔ وہ کراچی میں سرائیکی قوم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 95 سالہ مرید حسین راز جتوئی سرائیکی صوبہ تحریک کے معمر ترین سیاسی کارکن ہیں۔ وہ خان پور میں رہتے ہیں۔ وہ سرائیکی صوبے کے قیام اور سرائیکی زبان کی ترقی کے لیے ہمہ وقت مصروفِ عمل ہیں۔ انہوں نے صوبہ سرائیکستان کے حق میں ہزاروں مراسلے دوستوں اور عوام و خاص کو بھیجے ہیں۔ ان کے بیٹے مجاہد حسین جتوئی سرائیکی قومی موومنٹ کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ سردار انور خان ڈاہر نے سرائیکی صوبے کے قیام کے لیے پاکستان سرائیکی پارٹی کا پرچم اٹھایا اور مرتے دم تک اس تحریک سے وابستہ رہی۔ بہاولپور میں آسودۂ خاک ملک عبداللہ عرفان پاکستان سرائیکی پارٹی کے نائب صدر تھی۔ ان کے بیٹے شہزاد عرفان نے پاکستان سرائیکی پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا ہی۔ اگست 1998 میں رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے کے کے کورائی عبدالمجید خان کانجو، مغل اعظم کانجو اور دیگر قوم پرستوں نے ملتان میں اجمل خان خٹک کی موجودگی میں ایک معاہدہ کیا کہ وہ سرائیکی جماعتوں کے ساتھ مل کر سرائیکی صوبے کے لیے مشترکہ جدوجہد کریںگے ، اس موقع پر بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ، حمید اصغر شاہین، عبدالمجید خان کانجو اور مرزا اعجاز بیگ سرائیکی رہبر مقرر ہوئی۔ 2 اکتوبر 1998 کو اسلام آباد میں سندھ، بلوچستان، سرائیکی وسیب اور خیبر پختونخواہ کے معروف رہنمایان سید امداد حسین شاہ، ڈاکٹر قادر مگسی، جلال محمود شاہ، رسول بخش پلیجو ، عطاء اللہ مہنگل، ڈاکٹر عبدالحی، محمود خان اچکزئی، اجمل خان خٹک، غلام احمد بلور، تاج محمد خان لنگاہ، حمید اصغر شاہین، ایم اے بھٹہ، میاں منصور کریم سیال، منظور احمد خان بوہڑ، محمد علی مہدی گردیزی، احمد نواز سومرو، اسد اللہ خان لنگاہ، عبدالمجید خان کانجو، ( رحیم یار خان ) اور کے کے کورائی ( رحیم یار خان ) وغیرہ نے پونم کا چارٹر منظور کیا۔ پونم کے چارٹر کے مطابق بہاولپور کو صوبہ سرائیکستان میں شامل کیا گیا تھا۔ اپریل 1999 میں پونم سرائیکستان کے زیر اہتمام ملتان قلعہ پر ایک جلسہ عام ہوا جس میں بہاولپور کے سیاسی کارکنوں نے بھی شرکت کی تھی ۔ رحیم یار خان میں مقیم سید خلیل احمد بخاری سرائیکی صوبے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ وہ بزم فرید پاکستان کے اولین صدر ہیں۔ کوٹ سمابہ کے سیاسی کارکن ریاض حسین کھرل نے 1997 میں سرائیکی زبان کو آدم شماری کے کاغذات میں شامل کرانے کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے وہ 2004 میں سرائیکی صوبے کے حق میں اسلام آباد کے احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئی۔ بستی دڑہ جمال ضلع رحیم یار خان کے سیاسی کارکن خالد محمود خان ڈاہا کراچی میں مقیم ہیں۔ وہ سرائیکی صوبے کے لیے طویل عرصے سے عملی جدوجہد کررہے ہیں۔ احمد پور شرقیہ سرائیکی صوبہ تحریک کا بہت بڑا مرکز ہی۔ یہاں افضل مسعود خان، محمد اکبر انصاری، شبیر احمد لکھیسر ، ممتاز عاصم ایڈووکیٹ اور دوسرے سیاسی کارکن رہتے ہیں۔ کریم نواز انصاری بھی اس شہر میں رہتے تھی۔ افضل مسعود خان پاکستان سرائیکی پارٹی کے سینئر نائب صدر ہیں۔ محمد اکبر انصاری سرائیکی صوبہ تحریک کے لیے ان دنوں بہت فعال ہیں۔ شبیر احمد لکھیسر نے سرائیکی صوبہ تحریک میں 25 سال لگائے ہیں۔ 1994 میں یہاں پاکستان سرائیکی پارٹی کا سالانہ اجلاس ہوا تھا۔ 2004 میں پاکستان سرائیکی پارٹی کے زیر اہتمام ملتان میں سرائیکی کانفرنس منعقد ہوئی جس سے بہاولنگر کی ممتاز شخصیت سید ممتاز عالم گیلانی ( موجودہ وفاقی وزیر ) نے بھی خطاب کیا۔ ممتاز عالم گیلانی نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سے گناہِ صغیرہ اور بہت سے گناہِ کبیرہ کیے ہیں۔ ان تمام گناہوں کا کفارہ اسی صورت ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی بقیہ زندگی سرائیکی صوبے کے قیام کے لیے وقف کردیں ۔ ممتاز عالم گیلانی آج بھی سرائیکی صوبے کے حامی ہیں۔ اس موقع پر ریاض حسین پیرزادہ بھی شریک تھی۔ انہوں نے بھی سرائیکی صوبے کے حق میں قرارداد پاس کی تھی۔ اب ریاض حسین پیرزادہ کا موقف بدل چکا ہی۔ 2005 میں ملتان میں سرائیکستان نیشنل محاذ کا قیام عمل میں آیا۔ تاسیسی اجلاس میں رحیم یار خان کے کرنل ( ر ) عبدالجبار موجود تھی۔ جبکہ عبدالمجید خان کانجو کی نمائندگی ایم اے بھٹہ نے کی۔ تاسیسی اجلاس میں بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ، ممتاز حسین جائی اور غلام فرید کوریجہ بھی شامل تھی۔ 29 جنوری 2006 کو سرائیکستان نیشنل محاذ کا سربراہی اجلاس بہاولپور میں ہوا۔ جس کے میزبان علامہ اقبال وسیم تھی۔ اس اجلاس میں کرنل ( ر ) عبدالجبار خان نے خود شرکت کی ۔ جبکہ عبدالمجید خان کانجو کی نمائندگی ایم اے بھٹہ نے کی۔ دیگر شرکاء میں بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ، خواجہ غلام فرید اور ممتاز حسین جائی تھی۔ جام پور کے اسلم رسولپوری بطور مبصر شریک ہوئی۔ 7 مئی 2005 کو رحیم یار خان میں پتن منارہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ یہ سب لوگ سرائیکی صوبے کے حامی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ملتان سے اسد اللہ خان لنگاہ نے خصوصی شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں کرنل ( ر ) عبدالجبار خان عباسی بہت نمایاں تھی۔ پتن منارہ کانفرنس میں سرائیکی صوبہ تحریک کو تیز کرنے کا عزم کیا گیا۔ قبل ازیں رحیم یار خان میں ارشاد امین اور حیدر جاوید سید نے سرائیکی صوبے کے حق میں ایک سیمینار منعقد کرایا۔ اس موقع پر خان پور کے شاعر مجاہد جتوئی نے سرائیکستان کو زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دیا تھا۔ وہ گزشتہ 25 سالوں سے سرائیکی صوبہ تحریک میں مصروفِ عمل ہیں۔ عبدالمجید خان کانجو نے بھی اس سیمینار میں شرکت کی تھی۔ 2008 میں جب محمد علی خان درانی نے بہاولپور صوبے کا مطالبہ کیا تو ان کے خلاف شدید رد عمل ہوا۔ 2 اگست 2009 کو فرید گیٹ بہاولپور میں سرائیکی قوم پرستوں نے محمد علی خان درانی کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ اس مظاہرے کی قیادت بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ اور غلام فرید کوریجہ نے کی۔ بہاولپور کے علامہ اقبال وسیم اور حاجی عبدالمالک مظاہرے میں بہت نمایاں تھی۔ علامہ اقبال وسیم نے لڑکپن میں سرائیکی صوبہ محاذ کا پرچم اٹھایا تھا۔ اب سب انہیں انکل کہتے ہیں۔ بہاولپور کے حاجی عبدالمالک نے دھوپ میں ڈاڑھی سفید نہیں کی بلکہ سرائیکی صوبہ جدوجہد میں ان کا یہ حال ہوا ہی۔ رحیم یار خان کے مخدوم رکن الدین عالم ، خواجہ انور عالم اور خسرو بختیار کوئی معمولی لوگ نہیں۔ یہ حضرات سرائیکی صوبے کے بہت بڑے حامی ہیں۔ 2009 میں ضلع اسمبلی بہاولپور اور ضلع اسمبلی رحیم یار خان نے بہاولپور صوبے کے حق میں قراردادیں منظور کیں۔ 5 مئی 2010 کو PML-Q نے ملتان میں سرائیکی صوبے کے حق میں ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی منعقد کی جس میں سرائیکی وسیب کے دوسرے ممتاز افراد کے علاوہ بہاولپور کے لوگ بھی شامل تھی۔ اپریل 2011 میں صادق پیلس میں نواب صلاح الدین عباسی نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بہاولپور صوبے کا مطالبہ کیا ، اس اجتماع میں ہزاروں افرا دشریک تھے اسے غیر منقسم مجوزہ سرائیکی صوبے کے لیے ایک دھچکا قرار دیا گیا بعد میں جب سرائیکی قوم پرست متحرک ہوئے تو نواب صلاح الدین کا اعلانِ بہاولپور نقش برآ ثابت ہوا۔  14 اگست 2011 کو ڈیرہ غازیخان کے حمید اصغر شاہین اور کوٹ مٹھن کے خواجہ غلام فرید نے ہیڈ پنجند پر بہاولپور کے ہزاروں مظاہرین کے ساتھ مل کر سرائیکی صوبے کے قیام کا مطالبہ دہرایا ۔ صادق آباد، رحیم یار خان، کوٹ سمابہ، خان پور، احمد پور شرقیہ، بہاولپور، خیر پور، لیاقت پور اور بہاولپور کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سیاسی کارکن سرائیکی صوبے کے لیے مصروف عمل ہیں جن میں عبداللہ ساقی سیال، امتیاز چنڑ، شاکر حسین، قاضی عبدالوحید، رئیس وحید ، خورشید بخاری، غیور بخاری ، حبیب اللہ خیال، حافظ قادر بخش میتلا، قاضی عبدالوحید اور ملک اکبر وغیرہ شامل ہیں۔ بہاولپور کے سرائیکی قوم پرستوں نے ملتان کی ساجدہ احمد خان لنگاہ کو بنتِ سرائیکستان کا خطاب دیا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ بہاولپور کے سرائیکی قوم پرست ملتان کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں سمجھتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment