Tuesday 20 March 2012

ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی اور لسانی رشتے

تحریر : محمد ممتاز خان ڈاہر
ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی اور لسانی رشتے
          ملتان دنیا کے قدیم شہروں میں سے ایک ہی، اسکی معلوم تاریخ 5 ہزار سال کا احاطہ کرتی ہی۔ خوش حالی اور اعلیٰ تہذیب کے باعث زمانۂ قدیم میں یہ شہر حملہ آوروں، تاجروں اور سیاحوں کے لیے غیر معمولی کشش کا حامل رہا ۔ مختلف ادوار میں ملتان خود مختار ریاست یا صوبے کی حیثیت رکھتا تھا۔ تاہم تاریخی ریکارڈ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اصابت کے ساتھ نہیں لکھا جاسکتا کہ کون سے علاقے ملتان میں شامل تھی۔ ملتان کے لوگوں نے اپنے وطن کے دفاع کے لیے بہت سی جنگیں لڑیں۔ یونان کا جارح فرمانروا سکندر اعظم اسی شہر میں ایک سپاہی کے ہاتھوں زخمی ہوا اور بعد میں ہلاک ہوگیا۔ 1818 کی طویل شاندار مگر ناکام دفاعی جنگ میںملتان کے حکمران محمد مظفر خان جب شہید ہوگئے تو ملتان کے بہت سے سپاہیوں اور دوسرے افراد نے بھاگ کر ڈیرہ اسماعیل خان میں پناہ لی۔ زمانہ گزرنے اور حالات موافق ہونے پر بعض لوگ واپس ملتان آگئی۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ملتان کے معروف کارکنان اللہ نواز خان درانی اور مجیب احمد خان کے آباء ڈیرہ اسماعیل خان میں زرعی زمینوں کے مالک تھی۔ اس تاریخی پس منظر کے ساتھ جب سرائیکی قوم پرست ڈیرہ اسماعیل خان کو سرائیکی صوبے میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو تل وطنی قدیم باشندوں کو آسانی کے ساتھ یہ بات سمجھ آجاتی ہے اور انہیں وہ زمانہ یاد آجاتا ہے جب ان کے اسلاف نے دفاع وطن میں ایک دوسرے کے لیے جانیں قربان کی تھیں اور انہی یادوں کی بنیاد پر وہ ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان کو ایک وسیب سمجھتے ہیں اور جب ڈیرہ اسماعیل خان کو سرائیکستان سے علیحدہ کرنے کی بات کی جاتی ہے تو یہ لوگ خوف زدہ ہوکر محسوس کرنے لگتے ہیں کہ ان کے دشمن قبروں سے باہر نکل آئے ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کا نظم و نسق حکومت برطانیہ نے سنبھالا۔ برطانوی حکومت نے ہندوستان میں انتظامی صوبے بنائے ۔ ملتان کو پنجاب اور ڈیرہ اسماعیل خان کو سرحد میں شامل کیا گیا۔
1901ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کی سرحد میں شمولیت کے خلاف وہاں کے باشندوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔ اس احتجاج میں ہنبدو اور مسلم دونوں شامل تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں نے تاریخ کے جبر کو قبول نہیں کیا اور ملتان کے ساتھ اپنا تہذیبی، لسانی اور ثقافتی رشتہ برقرار رکھا۔ 1998 میں جب سرحد اسمبلی نے صوبہ سرحد کا نام بدل کر خیبر پختونخواہ رکھنے کی قرارداد منظور کی تو ڈیرہ اسماعیل خان میں شدید رد عمل ہوا۔ یہاں کے لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے وسیب کو مجوزہ صوبہ سرائیکستان میں شامل کیاجائے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس مطالبے میںشدت آتی گئی۔ 2 اکتوبر 1998 کو اسلام آباد میں معتبر غیر پنجابی قوم پرستوں نے پاکستان کو قومی بنیادوں پر 5 صوبوں ( سرائیکستان، پنجاب، سندھ، بلوچستان، پختونخواہ ) میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ پانچواں صوبہ سرائیکستان ہے جو موجودہ زمانے میں سرائیکی صوبہ تحریک پورے عروج پر ہی، دوسرے بہت سے لوگوں کیساتھ ساتھ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی فضل کریم کنڈی بھی سرائیکی صوبے کے حامی ہیں۔ اسفند یار خان نے کہا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کو سرائیکی صوبے میں شامل کرنے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ مشہور اخبار نویس ظہور احمد ھریجہ نے حالیہ سالوں میں ڈیرہ اسماعیل خان سے سرائیکی اخبار جھوک جاری کیا ہی۔ قبل ازیں یہ اخبار ملتان اور خان پور سے اشاعت پذیر ہی۔ ظہور احمد دھریجہ تاریخ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بہاولپور، ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان ایک ہی وسیب ہی۔ ڈیرہ اسماعیل خان، بہاولپور اور ملتان میں سرائیکی زبان بولی جاتی ہی۔ ان علاقہ جات کے باشندے اپنی مادری زبان کے تحفظ اور ترقی کے لیے بہت فعال ہوچکے ہیں۔ وہ خود کو سرائیکی کہتے ہیں اور سرائیکی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ لفظ سرائیکی نے ان کی قومی وحدت ( National Integration ) میں بنیادی کردار ادا کیا ہی۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ریاست بہاولپور کا وجود 18 ویں صدی عیسوی میں عمل میں آیا۔ انگریز دور حکومت میں یہ ایک نیم خود مختار ریاست تھی اس مضمون کے شروع میں کہا گیا ہے کہ لتان کی قدیم جغرافیائی حدود کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتاتاہم زبان اور ثقافت کے رشتوں کو مد نظر رکھیں تو یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ بہاولپور کے علاقہ جات زمانۂ قدیم میں ملتان میں شامل تھی۔ اکتوبر 1947 میں نواب بہاولپور نے اپنی ریاست ملتان میں ضم کردی بہاولپور کے علماء اور یہاں کے سیاسی مشاہیر نے سرائیکی زبان کی ترویج اور ترقی میں غیر معمولی دلچسپی لی، بلند پایہ محقق اور ماہر لسانیات شوکت مغل کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 1962 میں ملتان، بہاولپور، ڈیرہ اماعیل خان اور سرائیکی وسیب کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے معتبر افراد ارشد ملتانی، علامہ عبدالرشید معروف بہ علامہ طالوت، میر حسان الحیدری، ڈاکٹر مہر عبدالحق، ریاض ایڈووکیٹ،مولانا نور احمد فریدی، اختر علی خان، غلام قاسم خان خاکوانی، سیٹھ محمد عبید الرحمٰن وغیرہ اکٹھے ہوئے جنہوں نے اپنے وسیب کی زبان کے نام کے لیے لفظ سرائیکی پر اتفاق کیا۔ اس کانفرنس نے بعد کے زمانے کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے اور بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جن سرائیکی اکابرین نے اپنی زبان کے نام پر اتفاق کیا تھا ان کے تحت الشعور میں سرائیکی صوبے کا مطالبہ موجود تھا۔ 1975 میں ملتان میں عالمی سرائیکی ادبی کانفرنس منعقد ہوئی جس کا اہتمام فرید پیرزادہ نے کیا تھا۔ کانفرنس میں  بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ ، شہزادہ مامون الرشید، جسٹس سردار عبدالجبار خان، سیٹھ محمد عبید الرحمٰن، دلشاد کلانچوی، مولانا خواجہ احمد فریدی، حسن رضا گردیزی، عمر کمال خان، محمد علی خان بلوچ، ارشد ملتانی، امید ملتانی، حبیب فائق، فرحت ملتانی، ابنِ کلیم احسنؔ نظامی  اور دوسرے سرائیکی مشاہیر شریک ہوئی۔ 1962 اور 1975 کی ادبی کانفرنسوں کے تاریخی اثرات کے باعث سرائیکی صوبہ محاذ کا قیام عمل میں آیا۔ سرائیکی صوبہ محاذ کا اولین مطالبہ سرائیکی صوبے کا قیام تھا۔ اس محاذ کا تاسیسی اجلاس قاری محمد نور الحق قریشی نے طلب کیا تھا۔ تحریک بحالی صوبہ بہاولپور کے نامور کردار ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ اور سیٹھ محمد عبید الرحمٰن سرائیکی صوبہ محاذ میں شامل تھی۔ سرائیکی صوبہ محاذ میں بہاولپور کے مقامی کارکنوں نے بھرپور حصہ لیا۔ 7 اپریل 1989 کو ملتان میں پاکستان سرائیکی پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ تاسیسی اجلاس میں بہاولپور کے معتبر لوگ بھی شامل تھی۔ موجودہ زمانے میں سرائیکی صوبہ تحریک ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں یکساں مقبول ہی۔ ان علاقوں کو Integrate کرنے میں لفظ سرائیکی تاریخی کردار ادا کیا ہی۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پرست کہتے کہتے ہیں کہ وہ اپنے وسیب کے نام اور جغرافیہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریںگے اگر لفظ سرائیکی نے سرائیکستان کو Inegrate کیا ہے تو اس لفظ کا خاتمہ سرائیکی قوم کو Direnteqrete بھی کرسکتا ہے جو لوگ لفظ سرائیکی کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ان کا تاریخی اور سیاسی شعور بلند نہیں۔

No comments:

Post a Comment