Tuesday 20 March 2012

پاکستان پیپلز پارٹی اور سرائیکی قومی سوال

پاکستان پیپلز پارٹی اور سرائیکی قومی سوال
تحریر: میاں ریاض احمد سنڈھل
                پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی اور مقبول ترین سیاسی جماعت ہی۔ یہ واحد جماعت ہے جس کی جڑیں ملک کے چاروں صوبوں میں پائی جاتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہی۔ اس لیے کہ اس جماعت کے رہنما اور کارکن وطن کی خاطر قربانی دینے کے لیے ہروقت تیار رہتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ بھٹو خاندان قربانی کے موقع پر ہمیشہ کارکنوں سے آگے ہوتا ہی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 کو جب ملک کا نظم ونسق سنبھالا تب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوچکا تھا اور بقیہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مایوس اور خوف زدہ قوم کو حوصلہ دیا۔ 5 ہزار مربع میل رقبہ اور 93 ہزار جنگی قیدی پر وقار طریقے سے ہندوستان سے آزاد کرائی۔ انہوں نے ملک کو متفقہ آئین دیا اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ آج پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی قوت ہی۔ ذوالفقار علی بھٹو آئین کے مطابق صوبوں کو خود مختاری دینا چاہتے تھی۔ مگر جنرل ضیاء الحق نے آئین‘ قانون اور اخلاقیات کو تار تار کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا جھوٹا مقدمہ بناکر اسے عدالت کے ذریعے شہید کردیا۔
پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی بحالی کے لیے غیر معمولی اور بے مثال جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں میر شاہنواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو سمیت سینکڑوں کارکن شہید ہوئی۔ بے شمار گرفتار ہوئے ۔ انہیں قید اور کوڑوں کی سزا دی گئی۔ مادرِ جمہوریت نصرت بھٹو پر جسمانی تشدد کیا گیا ، ان کو دماغی چوٹ لگی اور ان کا زخم زندگی بھر مندمل نہ ہوسکا۔ پیپلز پارٹی اپنی جدوجہد میں کامیا ب ہوئی اور ملک میں جمہوریت بحال ہوئی۔ 1988 میں جب بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے سیاسی مفاہمت کی بنیاد رکھی۔ اور ملک میں جمہوری فضا قائم کی ‘ مگر جمہوریت دشمنوں نے ان کی حکومت ختم کردی۔ 1993 میں پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آئی مگر اس مرتبہ بھی پی پی کو اقتدار کی آئینی مدت پورا کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ 1998 میں بے نظیر بھٹو خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور ہوئیں۔ انہوں نے غیر ملک میں رہ کر جمہوریت کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ عالمی امن کی نقیبہ بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007 کو انساں نما شیطانوں کے ہاتھوں شہید ہوئی۔ 29 مارچ 2008 کو سید یوسف رضا گیلانی پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئی۔ انہوں نے بے نظیر بھٹوشہید کے مفاہمتی اصول کو اپنایا اور مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھایا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے آغاز حقوق بلوچستان کے ذریعے ایک تاریخی قرض چکایا۔ مارچ 2011 میں سید یوسف رضا گیلانی نے جلالپور میں ایک جلسہ عام میں سرائیکی صوبے کی نوید سنائی۔ وسیب کے لوگوں نے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابیاں سیاسی معجزوں سے کم نہیں۔ 18 ویں آئینی ترمیم کو لیجئے یہ ترمیم کس خوش اسلوبی سے منظور ہوئی۔ اس پر مؤرخ یوسف رضا گیلانی کو ضرور داد دے گا۔ اگر 30 سال قبل کوئی منجم یہ پیش گوئی کرتا کہ صوبائی خود مختاری کے مسئلے پر پاکستان میں خون خرابہ ہوگا تو ہر شخص مان لیتا مگر 18 ویں آئینی ترمیم میں میں اس طرح صوبائی خود مختاری دی گئی کہ کسی کا ایک قطرہ خون بھی نہیں بہا۔ کسی کو اتنا زخم بھی نہ لگا جو کبھی شیوکے کٹ کی وجہ سے لگتا ہی۔ یقیناً یہ پیپلز پارٹی کا سیاسی معجزہ ہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی مفاہمت کے ذریعے سرائیکی صوبے کا قیام چاہتی ہی۔ آج پاکستان میں اکثر سیاسی جماعتیں سرائیکی صوبے کی حامی ہیں مگر اس کے نقشے اور نام پر اختلاف پایاجاتا ہی۔ مارچ 2011 میں جب سید یوسف رضا گیلانی نے جلال پور میں ایک جلسہ عام میں سرائیکی صوبے کا اعلان کیا تو مجوزہ صوبہ تحریک کو بہت تقویت ملی۔ 4 نومبر 2011 کو پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن آصف علی زرداری نے جنوبی پنجاب کی علیحدہ صوبائی تنظیم بنائی تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور رہنمائوں نے اس کا خیر مقدم کیا ۔ انہوں نے مخدوم شہاب الدین کو نئی صوبائی تنظیم کا صدر جبکہ احمد حسین ڈیہڑ کو جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ علاوہ ازیں ملک مختار احمد اعوان کو سینئر نائب صدر ، سرور عباس کو ڈپٹی جنرل سیکرٹری، خواجہ رضوان عالم کو سیکرٹری اطلاعات اور محمود حیات خان عرف ٹوچی خان کو سیکرٹری ریکارڈ مقرر کیا گیا۔ جمشید احمد خان دستی پی پی جنوبی پنجاب ملتان ڈویژن کے جبکہ مخدوم ارتضیٰ پی پی جنوبی پنجاب بہاولپور کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ صدر آصف علی زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی کے اعلانات کے بعد پی پی پی کے کارکنوں میں زبردست ولولہ پایاجاتا ہے اور سید یوسف رضا گیلانی جس طرح مفاہمت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اس کے پیش نظر امید ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں سرائیکی صوبے کے قیام پر متفق ہوجائیں گی اور سرائیکی صوبے کا کریڈٹ پی پی کے حصے میں آئے گا۔

No comments:

Post a Comment