Sunday 18 March 2012

Importance of March 23 in the Movement of Pakistan


سکوت بزم جہاں پارہ ہوگیا آخر
کہ خاک فکرو نظر زیست کا شرار ہ بنی
جلا کر رکھ دیا جس نے نشیمن افرنگ
اک عزم تازہ ہوا اُستوار آج کے دن
          ۳۲ مارچ کے تاریخی دن نے مسلمانوں کی قسمت بدل دی اس دن کا سورج ان کے لئے حیات نو کی نوید لے کر ابھرا اور انہیں زندہ اور عزت دار قوموں کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل بنایا ۔ اس دن کے پس پردہ انسانی عظمت  و ہمت کی لازوال داستان اپنی تمام تر تابناکیوں کے ساتھ کون و مکاں کے افق پر تاحال تاباں و درخشاں اور تاریخ انسانی کا عظیم اور سنہری باب ہی۔ جس میں ہمارے آباو اجداد کے پختہ ارادوں اور جدوجہد کی تکمیل اور قربانیوں کی تفصیل رقم ہے انہی کارناموں کی بدولت آج کی نسل ایک آزاد ملک کی آزاد فضا میں سکون کا سانس لے رہی ہے ۔ نسل نو کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس آزادی اور سکون کا حصول کتنی جانی اور مالی قربانیوں کے بعد ممکن ہوا۔ اس کے لئے کتنی خون کی ندیاں بہائی گئیں ۔ کتنی عزتوں کو پامال کیا گیا۔ کتنے لاکھ پروانوں کے خون سے پاکستان کی شمع روشن ہوئی ۔ جس کے اُجالے میں آج ہم سب اپنی منزل اور نئے آفاق کی جانب گامزن ہیں ۔ مسلمانان ہند  ۳۲مارچ۰۴۹۱ ء  کے مقام تک کیسے پہنچے یہ تاریخی معرکہ کیسے سر کیا اس کے لئے ضروری ہے کہ اس واقعہ کا تاریخی پس منظر بیان کیا جائے ۔ انگریزوں نے تجارتی مقاصد کے نام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے قدم جمائے اور  ۷۵۸۱ ء تک پورے برصغیر پر اپنا سیاسی تسلط قائم کر لیا اس طرح ہندوستان کو باضابطہ طور پر تاج برطانیہ کے ماتحت کر دیا گیا۔ بنگال میں نواب سراج الدولہ کی شکست اور ٹیپو سلطان کی شہادت میسو ر کی اسلامی ریاست کے خاتمے کا سبب بنی اور مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور حکمرانی ختم کر دیا گیااور ان کی قسمت پر غلامی کی مہر ثبت ہوگئی ۔    
          جب مسلمانوں کو بغاوت کا مُرتکب قرار دے کر من حیث القوم ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جانے لگا تو ایسے نازک موڑ پر سرسید احمد خان نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے خواب کی تعبیر کا بیڑہ اٹھایا انہوں نے  ۷۵۸۱ء میں علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کو جدید علوم سے روشناس کرا کر ان کی عظمت اور خود اعتمادی کو بحال کیا اس کے نتیجے میں  ۶۰۹۱ ء  میں مسلم لیگ قائم ہوئی جب مسلم قائدین نے یہ محسوس کیا کہ ہندو اکثریت انہیں متحدہ ہندوستان میں باعزت زندگی گزارنے اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھنے نہیں دے گی تو بالآخر  ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ء کو لاہور میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی ۔ جسے مولوی فضل الحق نے پیش کیا اور قائدآعظم کی سربراہی میں مسلم لیگ نے مسلمانان ہند کے لئے آزاد زندگی گزارنے کی جدوجہد کا ایک نیا راستہ کھول دیا۔ ایک روشن نصب العین سامنے آگیا اس قرار داد نے ہندوئوں اور کانگرس کے ذہنوں میں ایک نئے اندیشے کا بیج بو دیا انہوں نے بوکھلا کر اس قرار داد کو شدت سے برا بھلا کہا ۔ ہندوئو ں اور کانگرس کی کاروائیوں کا سب سے پہلا نشانہ قائدآعظم بنے لیکن قائدآعظم نے ان کی اس دشمنی کو کوئی اہمیت نہ دی بلکہ وہ بڑے وقار، اعتماد، حوصلے اور خوشی کے ساتھ منزل کے حصول کے لئے بڑھتے رہے آپ نے اپنے سیکرٹری ایم ایچ سید سے علامہ اقبال کے بارے میں کہا  "گو آج  اقبال ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن اگر آج وہ زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر یقینا خوش ہوتے کہ انہوں نے ہمارے بارے میں جو چاہا تھا وہ ہم نے کر دکھایا ہے "  اس طرح جو سفر ۷۵۸۱ء میں ہندوستان کے مسلمانوں نے شروع کیا تھا وہ ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ء کو قرار داد کی شکل میں منظور ہوا اور ۴۱ اگست ۷۴۹۱ء کو پاکستان بن گیا۔ 
          ۳۲ مارچ کا دن ہمیں اس عہد وپیمان کی یاد دلاتا ہے جسے ہمارے آباو اجداد نے اپنے قیمتی خون سے تحریر کیا۔ کہ یہاں اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے گا ہم اس آزاد دھرتی کی مانگ کو اپنے خلوص و وفا اور چاہت کے جذبوں سے چار چاند لگائیں گی۔ آزادی کی نعمت اور عظمت کو پیش نظر رکھ کر اس کی تعمیر و ترقی اور تکمیل کے لئے اپنی جان ، مال اور وقت قربان کر دیں گے تاکہ آنے والی نسلوں کو امن ، چین اور سکون نصیب ہوسکی۔                   
          اس پاک سرزمین کی خوبصورت وادیاں، پھولوں اور پھلوں سے لبریز باغات اور لہلہاتے کھیت یُونہی سرسبز و شاداب رہیں گے یہ بلندو بالا پہاڑ، دلفریب نظاری، کانوں میں روح پرور موسیقی کا رس گھولتی آبشاریں ، یہ حد نظر تک پھیلے میدانوں کے خطے یوں ہی سلامت رہیں گی۔ ہماری روحوں اور ہمارے اسلاف نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس آزاد سر زمین پر گلشن اسلام کی آبیاری کریں گے اس پاک وطن کو تمام عالم میں اسلام کا مضبوط قلعہ بنائیں گی۔     ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ء کو شروع ہونے والی تحریک حریت ایک سیل رواں بن گئی جس سے علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر ملی۔ قائدآعظم محمد علی جناح کی انقلاب پرورشخصیت اور ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان کو پیکر حقیقی میسر آیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و انعام ہے اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہی۔
          ۴۱ اگست ۷۴۹۱ء  کا آفتاب آزادی کی خوشخبری کے ساتھ طلوع ہوا۔ خطہء ارض پر ایک خوبصورت پاکستان وجود میں آگیا۔ لیکن یہ حصول آزادی ابھی حقیقی اسلامی نظریے کی تکمیل کا آغاز تھا۔ یہ تکمیل موجودہ باشعور نسل پر تاحال فرض ہے ۔ ۳۲ مارچ مسلمانوں کی مذہبی، معاشرتی اور تہذیبی آزادی کی جدوجہد اور تجدید عہد کا دن ہے جس کا مطلب ہے ہم آزاد وطن میں اپنی زندگیوں کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں گے آنے والی نسلوں اور تمام دنیا کو اس کے امن و سلامتی والے راستے سے متعارف کروائیں گے اس کے گرانقدر اصولوں کو اپنا کر دنیا کو امن و محبت کا گہوارہ بنائیں گی۔ تاکہ چارسُو اسلام کی سچی خوشبُو پھیل کر رہے ۔ وطن کی آزادی کے بعد ہمیں ہرگز یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری حقیقی منزل اور نظریے کی تکمیل ہو گئی ہے بلکہ آج ہمیں اس بات کا عہد وپیمان کرنا ہے کہ ہم نے نظریہ اسلام کی تکمیل کے لئے پاکستان حاصل کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے سچے دین اسلام کو عملی شکل میں یہاں نافذ کریں گے تاکہ ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ء کی تحریک حصول پاکستان تاریخ میں تکمیل پاکستان کے نام سے ثبت ہو جائی۔          ٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment