Monday 27 February 2012

بے حس حکمرانوں سے سرکاری ملازمین کی فریاد

       کسی ملک کے نظام کو بہترین حالت میں چلا کر اسے ترقی کی بلند ترین سطح پر لے جانے کے لئے سرکاری ملازمین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہی۔ جن میں بڑے افسران تو صرف نگرانی کے امور سر انجام دیتے ہیں لیکن اصل کردار چھوٹے ملازمین ادا کرتے ہیں ان کا کردار کسی کارخانے کے کل پرزوں کی طرح  ہوتا ہی۔ اگر سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے یہ چھوٹے ملازمین ہی غیر صحت مند اور پریشان حال رہیں گے تو اس کا اثر پوری حکومتی مشینری پرپڑے گا۔ 
    اللہ نہ کرے ملک پاکستان کو کسی کی نظر لگے ہم تو رات دن اس کی بہتری اور مضبوطی کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیںلیکن پیش منظر کے مبنی بر حقیقت حالات و واقعات ہر وقت دل میں خطرے کی گھنٹیاں بجاتے رہتے ہیںاور پھر اپنے ساتھ ہونے والے آئے روز کے تجربے کے بعد تو دل کی اتھاہ گہرائی سے یہ  دعائیں نکلتی ہیں کہ ائے اللہ تو ہی ہمیں اور ہمارے پاک وطن کو غداروں، لٹیروں اور اسلام دشمنوں کے شر سے اپنی حفظ و امان عطاء فرما۔ کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے یہ ضرب المثل یوں ہی قلم بند ہوگئی ہے ورنہ دُور دُور تک ایسے کوئی شواہد و حالات نظر نہیں آتے کہ ہمارے ریڈ زون کے اندر بنی عمارتوں کے ایوانوں یا ان کے آبادکاروں کواپنی جان کا شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ان دفتروں کے اندر کام کرنے والوں کا ہی جینا حرام کر رکھا ہی۔ اگر حفظ ماتقدم اور سیکیوریٹی کے لئے بات سیکر ٹریٹ سے غیر متعلقہ لوگوں کی ہو تو حق بجانب ہو سکتی ہی۔ لیکن یہاں پر تو اُلٹی گنگا بہتی نظر آتی ہے اس وقت ریڈ زون میں سرکا ر کے اپنے گریڈ ایک تا سولہ کے ہزاروں ایسے ملازمین کام کرتے ہیں جن کے پاس نہ کوئی اپنی سواری ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری سہولت مہیا ہے اور نہ ہی ان کی پرائیویٹ ہائرڈ گاڑیوں یا ٹیکسیوں کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت ہے ۔اس طرح انہیں ریڈ زون کے باہر سے  روزانہ تقریباً دو کلو میٹر موسم کی سختی میں پیدل اپنے دفتروں تک آنا اور جانا پڑتا ہے نوجوان تو خیر پیدل چلنے کی مشقت برداشت کر لیتے ہیں لیکن اُن عورتوں ، بوڑھوں اور دل کے مریض ملازمین کا کون پرسان حال ہے جو سارا دن اپنے ان مقتدر افسروں اور حکمرانوں کوبُرا بھلا کہتے رہتے ہیں جو خود تو ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں اپنے دفتر کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں لیکن چھوٹے ملازمین بھیڑ بکریوں کی طرح سارا دن ریڈ زون کے فاصلے طے کرتے ہوئے  پیدل ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں کیا سرکار کو ان اپنے ہی ملازمین سے خطرہ ہے جو ان کے ساتھ بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ معزز خواتین جو پیٹ میں کئی ماہ کے بچے کے ساتھ سخت تکلیف میں ریڈزون کا دو کلو میٹر کا سفر کرتے ہوئے گرتی پڑتی جب دفتر پہنچتی ہیں تو دیر سے آنے پر باس کی ڈانٹ الگ سننی پڑتی ہی۔ اگر اور کچھ نہیں ہوسکتا تو کم ازکم ریڈ زون سے سیکرٹریٹ کے آفسز تک ان کے لئے سرکاری ٹرانسپورٹ کا انتظام ہی کر دیا جائی۔ دوسری طرف مہنگائی کے تناسب سے ان ملازمین کی تنخواہوں کا حال یہ ہے کہ ہر ماہ کی دس تاریخ کے بعد اپنے دوستوں سے فقیروں کی طرح کرایہ اُدھار مانگ رہے ہوتے ہیں۔
     پورے ملک سے نوکریوں کے لئے ملازمین کو اسلام آباد میں جمع کر لیا جاتا ہے لیکن بیس پچیس سال سروس ہونے کے باوجود انہیں اور ان کے بچوں کو اسلام آباد میں سر چھپانے کے لئے سرکاری کوارٹر نہیں ملتا۔ اور یہ سرکاری ملازم اپنی آدھی تنخواہ مکان ہائرنگ کے ڈیفرنس کے طور پر ادا کرتے رہتے ہیں ۔ اور ساری زندگی مقروض رہتے ہیں۔ نہ جانے یہ کیسی اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے ہمارے ملک کی اندھی بیورو کریسی اپنی نالائقیوں کا وزن بھی ہمیشہ ان چھوٹے ملازمین پر ڈال دیتے ہیں۔ مزید سہولتیں تو کیا دینی ہوتی ہیں بلکہ دی گئی سہولتوں کو بھی واپس لینے کے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ظالمانہ آفس آرڈر کے ذریعہ گریڈ گیارہ تا سولہ سے کار ایڈوانس کی سہولت واپس چھین لی گئی ہے جس کی وجہ سے ان ملازمین میں ایک سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ان ملازمین کی بنیادی تنخواہ کی ایک آسان حد مقرر کرکے کار ایڈوانس سے محروم نہ کیا جاتا۔ اس سلسلے میں عدالت خود نوٹس لے تو شائد ان چھوٹے ملازمین کی اشک شوئی ہوسکے ورنہ تو یہ غریب قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کی سکت بھی نہیں رکھتی۔
    چھوٹے ملازمین اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال حکومت کو دے کر بوڑھے اور ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں لیکن تمام عمر کی نوکری سے ایک کمرے کا گھر نہیں خرید سکتے اور نہ ہی حکومت اپنی طرف سے انہیں ملکیت کے طور پر کوئی پلاٹ یا فلیٹ الاٹ کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اگر وفات پا جائیں تو انہیں قبرستان میں بھی پلاٹ ملنا دشوار ہو جاتا ہی۔ کیا سرکار یہ سمجھتی ہے کہ اپنے عوام اور اہلکاروں کو نہایت ذلت آمیز زندگی گزارنے کی سطح پر لانے کے بعد وہ خود امن و سکون سے رہ سکتی ہے ۔ ہر گز نہیں یہ سرکاری وڈیرے دنیا کی چند روزہ زندگی میں تو اپنا حکم چلا سکتے ہیں لیکن آخر بڑی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے جس کے پاس سب کو جانا ہے یہ لوگ چھوٹے اور بے بس ملازمین کو مسائل کی سُولی پر چڑھا کر ملکی خزانے پر عیاشیاں کرتے رہتے ہیںدوسروں کے خون پسینے پر پلنے والے یہ لوگ غرور اور تکبر میں غرق ہوچکے ہیں اور اپنے عبرت ناک انجام اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے غافل ہو چکے ہیں ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ترجمہ:۔ اور جو مال تجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اوردنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا اور زمین میں فساد برپا نہ کر بے شک اللہ تعالیٰ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔  (القصص۔ آیۃ ۷۷)۔
    امید کی جاتی ہے کہ کارپردازان وقت چھوٹے ملازمین کے بے شمار مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں حل کرکے ملکی ترقی کی رقتار کو تیز تر کریں گی۔ ریڈ زون ایریاز میں ملازمین کی سہولت کے لئے یا تو خصوصی گاڑیاں چلائی جائیں یا پھر ملازم کی شناخت کے بعد اُسے دفتر تک ٹیکسی لے جانے کی اجازت دی جائی۔ علاوہ ازیں ہر ملازم کو ریٹائرمنٹ پر ایک گھر یا پلاٹ دیا جائے بالخصو ص اسلام آباد کے رہائشی ملازم کو ہر صورت آباد کیا جائی۔اس کے علاوہ تمام ملازمین (گریڈ ایک تا بائیس) کی ترقی کی  stages  کو برابر کیا جائی۔گریڈ ایک تا سولہ کے ہر ملازم کی بچی کی شادی پر جہیز حکومتی خزانے سے فراہم کیا جائی۔ملازمین کو ہائر کوالیفیکشن اور تجربے کے مطابق ترقیاں اور الائونسز دیئے جائیں۔ اگر چھوٹے ملازمین ہر طرح سے ذہنی آسودگی میں ہوں گے تو ملک اور قوم کا مستقبل ضرور روشن ہوگا۔ اور حکومتی کارکردگی میں بھی روز بروز اضافہ ہوگا۔

No comments:

Post a Comment