Saturday 12 May 2012

فرقہ وارانہ ہم آہنگی


فرقہ وارانہ ہم آہنگی

سید احمد حسن ایڈووکیٹ
        اسلام دین فطرت ہے  اور یہ ہمیشہ امن و آشتی ، رواداری اور محبت کا درس دیتا ہی۔ مذہب کے نام پر اپنے غیر اسلامی افکار دوسروں پر مسلط کرنے کی نفی کرتا ہی۔ اسلام نے اپنے مزاج اور رحجان کو انسانی سطح پر رکھ کر سمجھنے کے لئے ہمیشہ راستہ دکھایا ہی۔ فتح مکہ کے موقع پر مصلح اعظم ؐ نے ضعیفوں ، عورتوں ، بچوں کے علاوہ گھر کا دروازہ بند کرلینے والوں اور بیٹھ جانے والوں پر حملہ نہ کرنے کا حکم صادر فرماکر اسلام کے امن پسند ہونے کی عملی تصویر پیش کی ہی۔                                   قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں کا اتحاد امن و یگانگت اور اخوت کا مظاہرہ قابل دید تھا سب لوگ لا الہ الا اللہ کے پرچم تلے اکٹھے تھے سب کا ایک ہی مشن ، ایک ہی ولولہ اور ایک ہی راستہ تھا سب ایک قوم تھے سب فرقے قدم سے قدم ملا کر منزل کے حصول کی جانب گامزن اور رواں دواں تھے اتنی مشکل اور قربانیوں سے حاصل کئے گئے پاکستان کی اب کسی کو فکر نہیں ہی۔ ریاستی عہدیداران اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کرتے ہوئے ہوس اقتدار میں مدہوش ہیں اور کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے اپنی تجوریاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں۔  ملک کی داخلی صورت حال میں انرجی کرائسز اور مہنگائی کے بے ہنگم طوفان سے لے کر خارجہ پالیسی تک ہر شعبہ میں حکومتی کارکردگی نہایت شرم ناک ہی۔ پورے ملک میں افراتفری اور لاقانونیت کا غلبہ ہے اور حکمران بے حسی اور غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ ہم نے قوم کی بجائے ایک ہجوم کی شکل اختیار کرلی ہے قوم وہ ہوتی ہے جس کے مقاصد ، جس کی منزل اور راستہ ایک ہوتے ہیں ہم نے ایک بے ہنگم طرز معاشرت کو استوار کر رکھا ہے جو اہل اقتدار طبقے کے لئے تو ایک خوش کن امر ہوسکتا ہی۔ لیکن ملک اور قوم کے کسی صورت مفاد میں نہیں ہی۔                           
        وہ پاکستان جس کو ہم نے اسلام اور امن کے نام پر حاصل کیا تھا آج اس کے طول و عرض میں بدامنی اور قتل و غارت کا عفریت چھایا ہوا ہی۔ ہر طرف افراتفری کا دور دورہ ہے گلی گلی اور شہر شہر سے مارو مارو کی صدائیں بلند ہورہی ہیں گردنیں جسموں سے علیحدہ کئے ہوئے اعضاء اور خون آلودہ انسانی لاشیں جا بجا بکھری ہوئی نظر آتی ہیں ایک کے بعد دوسرا سانحہ ، ایک روح فرسا منظر کے بعد دوسرا کرب انگیز منظر رونما ہو جاتا ہے شہروں اور صوبوں سے ہر وقت دل دہلا دینے والی خبریں آرہی ہیں لوگ حیرت و استعجاب میں مبتلا کسی مسیحا کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں مگر تاحال کوئی ایسا نجات دہندہ ، قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے والا ہمدرد دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ قوم پر مایوسی ، بددلی اوراکتاہٹ کے بادل چھائے ہوئے ہیں پہلے صرف صوبہ خیبر  پختونخواہ سے بدامنی اور دہشت گردی کی خبریں آیا کرتی تھیں اب تواتر کے ساتھ کراچی اور کوئٹہ سے بھی قتل و غارتگری کی خبریں آرہی ہیں۔ ملک میں بدامنی اور دہشت گردی زوروں پر ہے جس میں بالخصوص ایک مخصوص مکتبہ فکر کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتاہے کوئٹہ اور کراچی سے ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیاں تواتر کے ساتھ جاری ہیں۔ پارا چنار سے ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ سے تفتان تک کوئی راستہ محفوظ نہیں ہی۔
        سانحہ کوہستان کے بعد چلاس میں ایسے واقعات کو دہرایا گیا اور بسوں سے نکال کر مخصوص مکتبہ فکر کے افراد کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔ گلگت قدرتی اور سیاحتی پوائنٹ ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہی۔ اور چین کے ساتھ شاہراہ قراقرم کو ملانے کا واحد ذریعہ ہے یہ خوبصورت اور حسین علاقہ دہشت گردانہ کاروائیوں کی لپیٹ میں آنے کی  وجہ سے  پاکستان کی معیشت تباہ حالی کا شکار ہے اور دن بدن مزیدبد تر حالات پیدا ہورہے ہیں جب بھی پاکستان اور ایران کے مابین تجارت ، گیس ، پائپ لائن یا بجلی سپلائی معاہدہ کی بات چیت ہوتی ہے تو فرقہ وارانہ حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ خفیہ عالمی ہاتھ پاکستان اور ایران کے دو اہم اسلامی مکاتب فکر       ( مسالک) کے مابین تعلقات خراب کرنے کے درپے ہیں ۔       
        ان حالات میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے خفیہ ہاتھوں کو بے نقاب کرکے ان شرپسند عناصر کا قلع قمع کرنے کے لئے فوری اقدامات کرے اور قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے ۔عدالتیں بھی ایسے جرائم پیشہ اور ملک دشمن عناصر کو باعزت بری کرنے کی بجائے قرار واقعی سزائیں دے کر مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ میڈیا موجودہ حالات کی جس طرح تصویر کشی کرتا ہے اس سے دہشت گردوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوتی ہی۔ اس لئے ضروری ہے کہ میڈیا اور سول سوسائٹی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔ اس کیلئے چند تجاویز پر عمل کرنے سے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اور یہ امید بھی کی جاسکتی ہے کہ بدامنی اور فرقہ وارانہ منافرت پر کافی حد تک قابو پایا جاسکے گا۔          
(۱) حکومت کو چاہیے کہ وہ ان دہشت گردوں کے فنڈنگ سسٹم اور سپلائی لائینوں کو کاٹ دے تاکہ ایسی مذموم کاروائیوں کے لئے راستہ ہی ہموار نہ ہو سکے  (۲) مختلف مسالک اور فرقوں کے درمیان پیدا شدہ غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے حکومت مذہبی جماعتوں کے ساتھ مشاورت اور مذاکرات کا اہتمام کرے اور انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم اور ماحول فراہم کیا جائے جہاں سب مل بیٹھ کر ہر مسئلے کا سنجیدگی سے حل نکال سکیں  (۳) غیر ملکی ایجنسیوں کے آلہء کار مختلف فرقوں اور مذہبی مسالک کے روپ میں چھپے ہوئے ہیں انہیں قانوں کے کٹہرے میں لایا جائے  (۴)پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مضبوط شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ کیس عدالتوں میں سماعت کے لئے فوری طور بھجوائیں۔ (۵)حقیقی مجرموں کے باعزت بری ہونے کے تمام راستے بند کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائی۔ تاکہ موجودہ بدامنی کا خاتمہ ہوسکے (۶) میڈیا کو واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا کے پیغام کی نشرو اشاعت میںاپنی اہم ذمہ داری ادا کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنی رحمت و برکت نازل کرے اور ہمیں آپس میں اتفاق اور اتحاد سے رہنے کا سلیقہ عطاء کرے (آمین)۔     
  فرقہ وارانہ ہم آہنگی وقت کی اہم ضرور

No comments:

Post a Comment