Mr. Zafar Raza Tonki (Calligraphy Instructor at Ghalib Academy New Delhi, India) gave this written poetic Tribute to Mr. Ibn-e-Kaleem Ahsan Nizami for his dedication to Calligraphy & invention of new script "Khat-e-Ra'ana" |
Wednesday, 29 February 2012
Tribute to Mr. Ibn-e-Kaleem & His Work
“ALBUM OF (INSCRIBED) BEAUTY”
By: S. Amjad Ali
(Author of: “The Painters of Pakistan”,
(Author of: “The Painters of Pakistan”,
Director
General: Film & Publication Ministry of Information Pakistan,
Director:
External Publicity Wing.)
That
is the best translation I could do of the latest book of calligraphy by
Ibn-e-Kaleem of Multan,
“Muraqqa-e-Ra’anaee”. It is the most sumptuous book of its kind to be published
in Pakistan.
Those
interested in the subject would know that Ibn-e-Kaleem is not only one of our
leading calligraphers but a devoted missionary of this art, who has written six
books on this subject.
Born into a
branch of the Langah family, he claims ancestors who have nurtured the art of
calligraphy as an act of devotion, mainly to glorify the Quran. He got his
initial training in the art from his father, Muhammad Hassan Khan Kaleem Raqam.
It may be mentioned here that a copy of the Quran written by his father’s
grandfather, Maulana Quaim-ud-din Langah is on display in the National Museum
of Pakistan, Karachi.
Everyone
knows that through out our history, calligraphy has been the most honoured of
the arts &also the most loved. Of course its primary purpose was to indite
the holy word in beautiful & still more beautiful styles but it was such a
deep source of aesthetic pleasure that it was used on every occasion &
every article, from coins &aswords, guns & cannons, building
inscriptions & graveyard headstones, personal & royal seals &
farmaans or ordinances & even on the homely cloth spread on the ground to
serve food (dastarkhan or safra).
The high
esteem in which it was held will be evident from two examples, one showing its
value in the eyes of kings & the other in the common people. Shah Jehan,
who was himself a master calligrapher, was such an admirer of the Persian Mir
Imad-al-Husaini that if anyone brought a wasli (small panel) written by him, he
was at once rewarded with a government post designated as a Centurion or
Commander of a Hundred. In the world renowned Taj Mahal that he built in Agra
& the Jamia Mosgue of Delhi, he allowed the name of the respective
calligrapher who wrote the inscriptions for these two buildings, to be
enshrined prominently, namely, Amanat Khan & Hafiz Noor-ullah, while the
names of the architects still remain unknown &unrecorded.
The esteem of
this art among the common people can be judged by the fact that even in the
so-called period of our decline, mid-19th century, a single word or
even a large letter was accepted as a currency note if written by Amir Muhammad
Rizvi, better known as Mir Panja Khan, who died fighting in Delhi in the 1957
War of Independence.
Pakistan has
produced great calligraphers, such as Taj Zarrin Raqam, who died in the 50s,
& Hafiz Sadeedi who died a few years ago & syed Anwar Hussain Nafees
Raqam, who also died in the 1980s. It is far from my intention to belittle the
achievements of these masters but the contribution of Ibn-e-Kaleem is
remarkable for two reasons. He is not only a Khattat-e-Haft Qalam (Master of
the Seven Pens) but has invented a new style which has been well named
“Khat-e-Ra’ana”, this he achieved in 1973 at the early age of 27.
For the last
twenty years he has been creating panels & ingenious compositions (in the
form of Tughras or To-am mirror reflections & much else) and now he has
come up with a huge album in which he has printed a variety of his writings
showing the endless possibilities of this style.
Front Title page of the Subject Book |
His own
introductory chapter & various other articles scattered between the pages
of calligraphy add to our knowledge and pleasure but the same cannot be said
about the numerous long & short testimonials with which it is heavily larded,
quite unnecessarily, because the calligraphy speaks for itself. However, it
shows that this new style has won wide acclaim. This achievement is historic
because it is in centuries that a new style of calligraphy is invented.
To invent a
new style of calligraphy is not to draw words & letters freehand, guided
only by balance & proportion, but to lay down rules for writing every
letter & every combination of letters according to the age-old measurement
of Nuqaat or dots. Because Ibn-e-Kaleem is the only person who has worked out
these rules in full detail, he alone can claim to have invented a new style.
All this & much more the reader will find to inform & delight him on
the pages of “Muraqqa-e-Ra’anaee”, which I would prefer to call
“Muraqqa-e-Ra’ana”, because it is more appropriate for the contents of the book
& the meaning is the same – An Album of (Calligraphic) beauty.
Tuesday, 28 February 2012
محمد جمال محسن بن ابن کلیم
خط کو فی میں
اسما ءالحسنیٰ ءربّ کریم کو
گرافک آرٹ کا
شاہکار بنانے والا تخلیق کار
محمد جمال محسن
بن ابن کلیم
خطاطی کے فن
کو مسلمانوں کی عظمت کی ایک روشن مثال کہا جاسکتا ہے لیکن لوگ اپنی بے خبری ،احساس
کمتری اور بے ہنری کے باعث اس سے جس طرح دست کش ہورہے ہیں اس پر خون کے آنسو بہانے
کو جی چاہتا ہے انگریز کی صد سالہ غلامی کی وجہ سے ہم نے اس بات کو بھلا دیا ہے کہ
ایک وہ بھی دور تھا جب ہم مغرب کے خوشہ چیں نہیں تھے بلکہ مغرب ہی ہماری تہذیب ،ثقافت
،علوم و فنون کا دریوزہ گر تھا اور یہ دعویٰ بے دلیل نہیں ہے مستشرقین نے تہذیب مغرب
پر خطاطی کے اثرات یہاں تک مانے ہیں کہ ویسٹ منسٹر اینےکی کھڑکیاں اس فن سے بہرہ یاب
ہیں ۔آج ہم نے جس فن پر اپنے تمام دروازے بند کر دیئے وہ اب گرجوں کے دریچوں سے ہمیں
جھانک رہا ہے ۔یہی نہیں بلکہ ایس پال اسکا لے نے ”ھسٹری آمورش ان یورپ میں فرانسیسی
مصنف کے حوالے سے لکھا ہے کہ سینٹ پیٹر کے سب سے اہم گرجے کے بلند دروازے پر عرصے تک
جو نقش و نگار باعث زینت رہے ہیں وہ خطاطی کے نمونے تھے اور عبارت کلمہ توحید کی تھی
۔بہر حال اتنی بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس فن کو اپنے ارتقاءکے مراحل
طے کرنے میں پانچ ہزار سال سے کم مدت صرف نہیں ہوئی ۔عرب میں خلفائے عباسی نے اور ہندوستان
میں سلاطین مغلیہ نے اس فن کو ترقی دی انہوں نے اپنے عہد کے خطاطوں کی بڑی حوصلہ افزائی
کی اور اس فن کو فروغ دیا ۔آج ہمارے مسلم حکمرانوں کی س فن پر کوئی توجہ ہے ؟فن خطاطی
کی ابتدائی شکل و صورت کے شواہد جواب تک فراہم ہو سکے ہیں ان کے مطابق اس فن کی پیشانی
پر پانچ ہزار سالہ تاریخ کی عبارتوں میں یہ شواہد منقوش ہیں ۔ابتدائی خطاطی اور مصور
ی ایک ہی فن تھے یار لوگ تصاویر کے ذریعے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتے تھے جیسے
پیار و امن کا اظہا ر کبوتر کی تصویر سے ہوتا ہے اور دشمن کا سانپ کی تصویر سے آج بھی
یہ دونوں نشان پیار و محبت و دشمنی کے سمجھے جاتے ہیں ۔مفہوم کی یہ تصویر کشی جسے مصر
میں ”ہیرو غلےفی “ کہتے ہیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل
تک رائج تھی ،رفتہ رفتہ یہ تصویر یں بگڑنے لگیں لیکن ایک نیا طرز تحریر بننے لگا جسے
”ھیر وطیقی “ کہا جاتا ہے ۔مصریوں نے بائیس حروف کو بائیس پرزوں کی شکل دے رکھی تھی
۔عربوں نے انہیں بڑھا کر اٹھا ئیس کر دیا اور پھر ان حروف کو چھ کلموں میں تقسیم کرکے
ابجدمرتب کئے جو آج تک عربی میں اسی طرح موجود ہیں۔حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت
خط حمیری تحریر کیا جاتاتھا دوسو سال کی ارتقاءکے بعد یہ خط کوفی بن گیا عہد عباسی
میں ابن مقلہ بیضاوی نے خط کوفی نسخ ۔محقق ۔ریحان ۔ثلث ۔توقیع و ضع کئے او ر پھر فارس
میں نسخ و تعلیق کے امتزاج سے نستعلیق بنا ۔خط کی یہی وہ معراجی صورت ہے جو آج مختلف
ممالک کے کروڑوں لوگوں میں نسخ کے بعد مقبول ہے۔وطن عزیز پاکستان میں اس فن کے ہزاروں
حاملین نے نہ صرف انہیں خطوط کی تقلید میں اپنے ذوق جمال کو تقویت دی بلکہ ایک نئے
طرز تحریر کی ایجادکا سہرہ بھی مملکت کے تاریخی شہر ملتان کے سر ہے ۔خطاطی کے خانوادے
کے ایک نامور سپوت نے خط رعنا ایجاد کیا جسے دنیائے فن کے تمام غیر متعصب اہل الرائے
نے خط نسعلیق کی ایجاد کے سات سو سال بعد ایک نئی ایجاد تسلیم کیا ہے۔ الحمد اللہ راقم
کو یہ اعزاز میسر آیا۔
چمکتے ہوئے ستارے کو ہر کوئی تحسین کی
نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ اس کی چمک ،آب وتاب اور انفرادی خصوصیات ہی لوگوں کی اپنی
طرف متوجہ کرتی ہیں ۔ایسے تخلیق و تقلیدکاروں کے قافلے کا ایک چمکتا ہو ا ستارہ ۔محمد
جمال محسن حسن کا تعلق ملتان سے ہے۔
سر زمین ملتان ہنر مندوں ،فن کاروں اور
اہل کمال کی ایک ایسی آغوش ہے جس کی عظمت کو تاریخ کی حقیقت بِیں نگاہیں کبھی فراموش
نہیں کر سکتیں ۔اس خطہ ارض نے جن دماغوں اور جن عظیم ذہنوں کو جنم دیا ہے ان کی فن
کارانہ صلاحیتوں کو انسانیت کے لیے ہمیشہ فخر و ناز کا باعث سمجھا جائے گا ۔یہ سارا
فخر اور یہ تمام تحسین اب صرف ان کے لیے سرمایہ افتخار ہے جو حقیقت شناس ہیں یا پھر
ملتان اور فنون شریفہ سے عقیدت رکھنے والے ہیں ۔محمد جمال محسن ملتان کی شناخت ہیں
جو کہ نامور خطاط ہفت قلم اور موجد خط رعنا ابن کلیم کے بڑے اور ہو نہار صاحبزادے ہیں
۔ابن کلیم صاحب نے یہ فن اپنے والد گرامی مخدوم محمد حسن خان کلیم سے سیکھا۔ اور حضرت
کلیم رقم نے اپنے ماموں خانوادہ چشتیہ کے معروف بزرگ حضرت حافظ بشیر احمد العراقی قریشی
سے یہ فن حاصل کیا ۔کئی پشتوں سے یہ فن حضرت کلیم رقم کے خاندان کا اثاثہ ہے محمد جمال
محسن نے یہ فن اپنے والد ابن کلیم (موجد خط رعنا ) سے سیکھا ان کے بھائی محمد مختار
علی سعودی عرب جدہ میں ادارہ العناقید میں خطاطی کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ایک اور
بھائی حامد اقبال خان نے ملتان کینٹ میں آرٹ بینک کے نام سے فن خطاطی کی تربیت و فروغ
کا ادارہ قائم کیا ہوا ہے ۔اور قومی سطح پر نمائشوں میں شرکت کرکے ایوارڈ حاصل کئے
ہیں ۔خطاطی میں محمد جمال محسن کا اسلوب منفرد مقام کا حامل ہے انہوں نے خط کو فی کو
اپنا پسندیدہ شعبہ قرار دیکر اسما الحسنیٰ رب کریم کو خط کوفی کی مختلف کمپوز یشنز
میں ڈیزائن کیا ہے ۔ان کا تیار کردہ ہر فن پارہ روایتی کوفی خط کا شاہکار بھی ہے۔ اور
گرافک آرٹ کا استعارہ بھی اورہر فن پار ے کی ایک الگ تصویری اہمیت ہے ۔محمد جمال محسن
کے تحریر کردہ یہ اسما ءالحسنیٰ جب ہماری نظر سے گزرتے ہیں تو ہمارے قلوب پر نازل ہو
جاتے ہیں ۔روح کومطلع انوار بنا دیتے ہیں ہم سے باتیں کرتے ہیں ،اپنی پوری معنویتکو
ہمارے وجود میں انڈیل دیتے ہیں تو ہم ان اسما ءگرامی سے آشنا ہو کر اپنے اللہ کے اور
قریب آجاتے ہیں۔ اور اللہ کریم کی رحیمی، ربوبیت ،جلال، جمال،عدل،رزاقی ،راَفت، بندہ
نوازی اور مخلوق پروری کی صفات ہمارے دل پر براہ راست منکشف ہونے لگتی ہیں۔
شوق و مشاہد ہ اور عملِ پیہم کی خوبیوں
سے مرصع اس نوجوان نے قرآنی خطاطی کو اپنے ذوق ِ جمال کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے کیونکہ
یہ فن تکمیلِ شوق کے ساتھ ساتھ عبادت کا درجہ رکھتا ہے اس لئے محمد جمال محسن نے عملی
زندگی میں بھی یہی شعبہ اختیار کیا ہے جس سے ان کے فن اور ذوق کو ترقی و تسکین میسر
آتی رہے ۔انہوں نے کراچی میں ”آرٹ پوائنٹ“ کے نام سے ادارہ قائم کیا ہو ا ہے جس میں
وہ کئی برس سے اس فن کے ربوز سے آگاہی بخشتے ہیں وہ کراچی اور گردونواح میں رہنے والے
شائقین فن کے ذوق لطیف کو نہ صرف جلاِ بخشتے ہیں بلکہ اس فن شریف کے فروغ اور ترقی
کے لئے عملی طور پر متحرک بھی ہیں ۔دبستان فروغ خطاطی (رجسٹرڈ ) کے نائب صدر اول اور
سوسائٹی آف کیلی گرافی انسٹر کٹر کے صدر ہیں اور گل رعنا ادب سوسائٹی کے آرگنائزر بھی
ہیں۔دیگر فنون کے قدردان تو دنیا والے لوگ ہیں مگر اس فن شریف کا قدر دان خود پاک پروردگار
ہے جس نے خطاطی کے خوبصورت فن پارے بنانے والے کےلئے اجر اپنے پاس محفوظ رکھا ہے حقیقت
بھی یہی ہے کہ کوئی دنیادار اس پاکیز ہ فن کی قدر دانی کا حق اد ا بھی نہیں کر سکتا
۔
محمد جمال محسن کے تخلیق کردہ اسماءالحسنیٰ
ربّ کریم کا نظارہ کرکے مجھے دو گونہ خوشی ہوئی ہے کہ انہوں نے خط کی روایت کو بگاڑ
انہیں ،یعنی خط کو فی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اسے مختلف اسلوب سے استعمال کرکے
ہر فن پارے کو منفرد ڈیزائن ویلیو عطا کی ہے ۔اسی بناءپر ان کا تخلیق کردہ ہرفن پارہ
اپنی انفرادی شان کا حامل ہے ۔
محمد جمال محسن کے فن پاروں کی قبل ازیں
کئی نمائشیں ہوچکی ہیں ۔جن میں انہوں نے خوب داد پائی ہے ایوارڈ بھی حاصل کئے ہیں
۔ملتان آرٹس کونسل ،میونسپل لائبریری ملتان ، قرآن کانفرنس ملتان ،دفتر دبستان فروغ
خطاطی ملتان ،خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران ملتان،نیشنل آرٹ گیلری اسلام آباد وغیرہ
..... کی نمائشوں میں حصہ لیا اور خوب داد پائی ۔کراچی آرٹس کونسل میں محمد جمال محسن
کی یہ عظیم نمائش ان کے فن کا اور تخلیقی سرگرمیوں کا تسلسل اور ان کی صلاحیتوں کا
منہ بولتا ثبوت ہے ۔اور دبستان فروغ خطاطی (رجسٹرڈ) کا فیضان ہے ۔
میری دعا ہے اللہ تعالیٰ اپنے مبارک ناموں
سے اتنا پیار کرنے والے اور اتنا حسین لکھنے والے کو دنیا و آخرت میں اجر عطا فرمائے
اور دین و دنیا میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار رکھے ۔(آمین) دعاگو! ابن کلیم
احسن نظامی
Monday, 27 February 2012
بے حس حکمرانوں سے سرکاری ملازمین کی فریاد
کسی ملک کے نظام کو بہترین حالت میں چلا کر اسے ترقی کی بلند ترین سطح پر لے جانے کے لئے سرکاری ملازمین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہی۔ جن میں بڑے افسران تو صرف نگرانی کے امور سر انجام دیتے ہیں لیکن اصل کردار چھوٹے ملازمین ادا کرتے ہیں ان کا کردار کسی کارخانے کے کل پرزوں کی طرح ہوتا ہی۔ اگر سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے یہ چھوٹے ملازمین ہی غیر صحت مند اور پریشان حال رہیں گے تو اس کا اثر پوری حکومتی مشینری پرپڑے گا۔
اللہ نہ کرے ملک پاکستان کو کسی کی نظر لگے ہم تو رات دن اس کی بہتری اور مضبوطی کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیںلیکن پیش منظر کے مبنی بر حقیقت حالات و واقعات ہر وقت دل میں خطرے کی گھنٹیاں بجاتے رہتے ہیںاور پھر اپنے ساتھ ہونے والے آئے روز کے تجربے کے بعد تو دل کی اتھاہ گہرائی سے یہ دعائیں نکلتی ہیں کہ ائے اللہ تو ہی ہمیں اور ہمارے پاک وطن کو غداروں، لٹیروں اور اسلام دشمنوں کے شر سے اپنی حفظ و امان عطاء فرما۔ کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے یہ ضرب المثل یوں ہی قلم بند ہوگئی ہے ورنہ دُور دُور تک ایسے کوئی شواہد و حالات نظر نہیں آتے کہ ہمارے ریڈ زون کے اندر بنی عمارتوں کے ایوانوں یا ان کے آبادکاروں کواپنی جان کا شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ان دفتروں کے اندر کام کرنے والوں کا ہی جینا حرام کر رکھا ہی۔ اگر حفظ ماتقدم اور سیکیوریٹی کے لئے بات سیکر ٹریٹ سے غیر متعلقہ لوگوں کی ہو تو حق بجانب ہو سکتی ہی۔ لیکن یہاں پر تو اُلٹی گنگا بہتی نظر آتی ہے اس وقت ریڈ زون میں سرکا ر کے اپنے گریڈ ایک تا سولہ کے ہزاروں ایسے ملازمین کام کرتے ہیں جن کے پاس نہ کوئی اپنی سواری ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری سہولت مہیا ہے اور نہ ہی ان کی پرائیویٹ ہائرڈ گاڑیوں یا ٹیکسیوں کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت ہے ۔اس طرح انہیں ریڈ زون کے باہر سے روزانہ تقریباً دو کلو میٹر موسم کی سختی میں پیدل اپنے دفتروں تک آنا اور جانا پڑتا ہے نوجوان تو خیر پیدل چلنے کی مشقت برداشت کر لیتے ہیں لیکن اُن عورتوں ، بوڑھوں اور دل کے مریض ملازمین کا کون پرسان حال ہے جو سارا دن اپنے ان مقتدر افسروں اور حکمرانوں کوبُرا بھلا کہتے رہتے ہیں جو خود تو ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں اپنے دفتر کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں لیکن چھوٹے ملازمین بھیڑ بکریوں کی طرح سارا دن ریڈ زون کے فاصلے طے کرتے ہوئے پیدل ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں کیا سرکار کو ان اپنے ہی ملازمین سے خطرہ ہے جو ان کے ساتھ بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ معزز خواتین جو پیٹ میں کئی ماہ کے بچے کے ساتھ سخت تکلیف میں ریڈزون کا دو کلو میٹر کا سفر کرتے ہوئے گرتی پڑتی جب دفتر پہنچتی ہیں تو دیر سے آنے پر باس کی ڈانٹ الگ سننی پڑتی ہی۔ اگر اور کچھ نہیں ہوسکتا تو کم ازکم ریڈ زون سے سیکرٹریٹ کے آفسز تک ان کے لئے سرکاری ٹرانسپورٹ کا انتظام ہی کر دیا جائی۔ دوسری طرف مہنگائی کے تناسب سے ان ملازمین کی تنخواہوں کا حال یہ ہے کہ ہر ماہ کی دس تاریخ کے بعد اپنے دوستوں سے فقیروں کی طرح کرایہ اُدھار مانگ رہے ہوتے ہیں۔
پورے ملک سے نوکریوں کے لئے ملازمین کو اسلام آباد میں جمع کر لیا جاتا ہے لیکن بیس پچیس سال سروس ہونے کے باوجود انہیں اور ان کے بچوں کو اسلام آباد میں سر چھپانے کے لئے سرکاری کوارٹر نہیں ملتا۔ اور یہ سرکاری ملازم اپنی آدھی تنخواہ مکان ہائرنگ کے ڈیفرنس کے طور پر ادا کرتے رہتے ہیں ۔ اور ساری زندگی مقروض رہتے ہیں۔ نہ جانے یہ کیسی اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے ہمارے ملک کی اندھی بیورو کریسی اپنی نالائقیوں کا وزن بھی ہمیشہ ان چھوٹے ملازمین پر ڈال دیتے ہیں۔ مزید سہولتیں تو کیا دینی ہوتی ہیں بلکہ دی گئی سہولتوں کو بھی واپس لینے کے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ظالمانہ آفس آرڈر کے ذریعہ گریڈ گیارہ تا سولہ سے کار ایڈوانس کی سہولت واپس چھین لی گئی ہے جس کی وجہ سے ان ملازمین میں ایک سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ان ملازمین کی بنیادی تنخواہ کی ایک آسان حد مقرر کرکے کار ایڈوانس سے محروم نہ کیا جاتا۔ اس سلسلے میں عدالت خود نوٹس لے تو شائد ان چھوٹے ملازمین کی اشک شوئی ہوسکے ورنہ تو یہ غریب قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کی سکت بھی نہیں رکھتی۔
چھوٹے ملازمین اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال حکومت کو دے کر بوڑھے اور ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں لیکن تمام عمر کی نوکری سے ایک کمرے کا گھر نہیں خرید سکتے اور نہ ہی حکومت اپنی طرف سے انہیں ملکیت کے طور پر کوئی پلاٹ یا فلیٹ الاٹ کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اگر وفات پا جائیں تو انہیں قبرستان میں بھی پلاٹ ملنا دشوار ہو جاتا ہی۔ کیا سرکار یہ سمجھتی ہے کہ اپنے عوام اور اہلکاروں کو نہایت ذلت آمیز زندگی گزارنے کی سطح پر لانے کے بعد وہ خود امن و سکون سے رہ سکتی ہے ۔ ہر گز نہیں یہ سرکاری وڈیرے دنیا کی چند روزہ زندگی میں تو اپنا حکم چلا سکتے ہیں لیکن آخر بڑی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے جس کے پاس سب کو جانا ہے یہ لوگ چھوٹے اور بے بس ملازمین کو مسائل کی سُولی پر چڑھا کر ملکی خزانے پر عیاشیاں کرتے رہتے ہیںدوسروں کے خون پسینے پر پلنے والے یہ لوگ غرور اور تکبر میں غرق ہوچکے ہیں اور اپنے عبرت ناک انجام اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے غافل ہو چکے ہیں ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ترجمہ:۔ اور جو مال تجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اوردنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا اور زمین میں فساد برپا نہ کر بے شک اللہ تعالیٰ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (القصص۔ آیۃ ۷۷)۔
امید کی جاتی ہے کہ کارپردازان وقت چھوٹے ملازمین کے بے شمار مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں حل کرکے ملکی ترقی کی رقتار کو تیز تر کریں گی۔ ریڈ زون ایریاز میں ملازمین کی سہولت کے لئے یا تو خصوصی گاڑیاں چلائی جائیں یا پھر ملازم کی شناخت کے بعد اُسے دفتر تک ٹیکسی لے جانے کی اجازت دی جائی۔ علاوہ ازیں ہر ملازم کو ریٹائرمنٹ پر ایک گھر یا پلاٹ دیا جائے بالخصو ص اسلام آباد کے رہائشی ملازم کو ہر صورت آباد کیا جائی۔اس کے علاوہ تمام ملازمین (گریڈ ایک تا بائیس) کی ترقی کی stages کو برابر کیا جائی۔گریڈ ایک تا سولہ کے ہر ملازم کی بچی کی شادی پر جہیز حکومتی خزانے سے فراہم کیا جائی۔ملازمین کو ہائر کوالیفیکشن اور تجربے کے مطابق ترقیاں اور الائونسز دیئے جائیں۔ اگر چھوٹے ملازمین ہر طرح سے ذہنی آسودگی میں ہوں گے تو ملک اور قوم کا مستقبل ضرور روشن ہوگا۔ اور حکومتی کارکردگی میں بھی روز بروز اضافہ ہوگا۔
اللہ نہ کرے ملک پاکستان کو کسی کی نظر لگے ہم تو رات دن اس کی بہتری اور مضبوطی کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیںلیکن پیش منظر کے مبنی بر حقیقت حالات و واقعات ہر وقت دل میں خطرے کی گھنٹیاں بجاتے رہتے ہیںاور پھر اپنے ساتھ ہونے والے آئے روز کے تجربے کے بعد تو دل کی اتھاہ گہرائی سے یہ دعائیں نکلتی ہیں کہ ائے اللہ تو ہی ہمیں اور ہمارے پاک وطن کو غداروں، لٹیروں اور اسلام دشمنوں کے شر سے اپنی حفظ و امان عطاء فرما۔ کہتے ہیں کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے یہ ضرب المثل یوں ہی قلم بند ہوگئی ہے ورنہ دُور دُور تک ایسے کوئی شواہد و حالات نظر نہیں آتے کہ ہمارے ریڈ زون کے اندر بنی عمارتوں کے ایوانوں یا ان کے آبادکاروں کواپنی جان کا شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ان دفتروں کے اندر کام کرنے والوں کا ہی جینا حرام کر رکھا ہی۔ اگر حفظ ماتقدم اور سیکیوریٹی کے لئے بات سیکر ٹریٹ سے غیر متعلقہ لوگوں کی ہو تو حق بجانب ہو سکتی ہی۔ لیکن یہاں پر تو اُلٹی گنگا بہتی نظر آتی ہے اس وقت ریڈ زون میں سرکا ر کے اپنے گریڈ ایک تا سولہ کے ہزاروں ایسے ملازمین کام کرتے ہیں جن کے پاس نہ کوئی اپنی سواری ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری سہولت مہیا ہے اور نہ ہی ان کی پرائیویٹ ہائرڈ گاڑیوں یا ٹیکسیوں کو ریڈ زون میں داخلے کی اجازت ہے ۔اس طرح انہیں ریڈ زون کے باہر سے روزانہ تقریباً دو کلو میٹر موسم کی سختی میں پیدل اپنے دفتروں تک آنا اور جانا پڑتا ہے نوجوان تو خیر پیدل چلنے کی مشقت برداشت کر لیتے ہیں لیکن اُن عورتوں ، بوڑھوں اور دل کے مریض ملازمین کا کون پرسان حال ہے جو سارا دن اپنے ان مقتدر افسروں اور حکمرانوں کوبُرا بھلا کہتے رہتے ہیں جو خود تو ائیر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں اپنے دفتر کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں لیکن چھوٹے ملازمین بھیڑ بکریوں کی طرح سارا دن ریڈ زون کے فاصلے طے کرتے ہوئے پیدل ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں کیا سرکار کو ان اپنے ہی ملازمین سے خطرہ ہے جو ان کے ساتھ بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ معزز خواتین جو پیٹ میں کئی ماہ کے بچے کے ساتھ سخت تکلیف میں ریڈزون کا دو کلو میٹر کا سفر کرتے ہوئے گرتی پڑتی جب دفتر پہنچتی ہیں تو دیر سے آنے پر باس کی ڈانٹ الگ سننی پڑتی ہی۔ اگر اور کچھ نہیں ہوسکتا تو کم ازکم ریڈ زون سے سیکرٹریٹ کے آفسز تک ان کے لئے سرکاری ٹرانسپورٹ کا انتظام ہی کر دیا جائی۔ دوسری طرف مہنگائی کے تناسب سے ان ملازمین کی تنخواہوں کا حال یہ ہے کہ ہر ماہ کی دس تاریخ کے بعد اپنے دوستوں سے فقیروں کی طرح کرایہ اُدھار مانگ رہے ہوتے ہیں۔
پورے ملک سے نوکریوں کے لئے ملازمین کو اسلام آباد میں جمع کر لیا جاتا ہے لیکن بیس پچیس سال سروس ہونے کے باوجود انہیں اور ان کے بچوں کو اسلام آباد میں سر چھپانے کے لئے سرکاری کوارٹر نہیں ملتا۔ اور یہ سرکاری ملازم اپنی آدھی تنخواہ مکان ہائرنگ کے ڈیفرنس کے طور پر ادا کرتے رہتے ہیں ۔ اور ساری زندگی مقروض رہتے ہیں۔ نہ جانے یہ کیسی اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے ہمارے ملک کی اندھی بیورو کریسی اپنی نالائقیوں کا وزن بھی ہمیشہ ان چھوٹے ملازمین پر ڈال دیتے ہیں۔ مزید سہولتیں تو کیا دینی ہوتی ہیں بلکہ دی گئی سہولتوں کو بھی واپس لینے کے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ظالمانہ آفس آرڈر کے ذریعہ گریڈ گیارہ تا سولہ سے کار ایڈوانس کی سہولت واپس چھین لی گئی ہے جس کی وجہ سے ان ملازمین میں ایک سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ان ملازمین کی بنیادی تنخواہ کی ایک آسان حد مقرر کرکے کار ایڈوانس سے محروم نہ کیا جاتا۔ اس سلسلے میں عدالت خود نوٹس لے تو شائد ان چھوٹے ملازمین کی اشک شوئی ہوسکے ورنہ تو یہ غریب قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کی سکت بھی نہیں رکھتی۔
چھوٹے ملازمین اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال حکومت کو دے کر بوڑھے اور ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں لیکن تمام عمر کی نوکری سے ایک کمرے کا گھر نہیں خرید سکتے اور نہ ہی حکومت اپنی طرف سے انہیں ملکیت کے طور پر کوئی پلاٹ یا فلیٹ الاٹ کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اگر وفات پا جائیں تو انہیں قبرستان میں بھی پلاٹ ملنا دشوار ہو جاتا ہی۔ کیا سرکار یہ سمجھتی ہے کہ اپنے عوام اور اہلکاروں کو نہایت ذلت آمیز زندگی گزارنے کی سطح پر لانے کے بعد وہ خود امن و سکون سے رہ سکتی ہے ۔ ہر گز نہیں یہ سرکاری وڈیرے دنیا کی چند روزہ زندگی میں تو اپنا حکم چلا سکتے ہیں لیکن آخر بڑی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے جس کے پاس سب کو جانا ہے یہ لوگ چھوٹے اور بے بس ملازمین کو مسائل کی سُولی پر چڑھا کر ملکی خزانے پر عیاشیاں کرتے رہتے ہیںدوسروں کے خون پسینے پر پلنے والے یہ لوگ غرور اور تکبر میں غرق ہوچکے ہیں اور اپنے عبرت ناک انجام اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے غافل ہو چکے ہیں ۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ترجمہ:۔ اور جو مال تجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اوردنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا اور زمین میں فساد برپا نہ کر بے شک اللہ تعالیٰ فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (القصص۔ آیۃ ۷۷)۔
امید کی جاتی ہے کہ کارپردازان وقت چھوٹے ملازمین کے بے شمار مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں حل کرکے ملکی ترقی کی رقتار کو تیز تر کریں گی۔ ریڈ زون ایریاز میں ملازمین کی سہولت کے لئے یا تو خصوصی گاڑیاں چلائی جائیں یا پھر ملازم کی شناخت کے بعد اُسے دفتر تک ٹیکسی لے جانے کی اجازت دی جائی۔ علاوہ ازیں ہر ملازم کو ریٹائرمنٹ پر ایک گھر یا پلاٹ دیا جائے بالخصو ص اسلام آباد کے رہائشی ملازم کو ہر صورت آباد کیا جائی۔اس کے علاوہ تمام ملازمین (گریڈ ایک تا بائیس) کی ترقی کی stages کو برابر کیا جائی۔گریڈ ایک تا سولہ کے ہر ملازم کی بچی کی شادی پر جہیز حکومتی خزانے سے فراہم کیا جائی۔ملازمین کو ہائر کوالیفیکشن اور تجربے کے مطابق ترقیاں اور الائونسز دیئے جائیں۔ اگر چھوٹے ملازمین ہر طرح سے ذہنی آسودگی میں ہوں گے تو ملک اور قوم کا مستقبل ضرور روشن ہوگا۔ اور حکومتی کارکردگی میں بھی روز بروز اضافہ ہوگا۔
Saturday, 25 February 2012
CALLIGRAPHIC HISTORY & SERVICES OF IBN-E-KALEEM
By: Atiq Ahmed Arshad
(A.M.E.
(Pb), Joint Secretary: Dabistan Farogh-e-Khattati ® Multan, Pakistan)
In the end of 20th centaury,
cultural arts are recognizing on the scientific bases, and the Muslim scholars
also take over the scientific achievements in the world of art. In the Islamic
cultural history many branched of arts are developed on scientific techniques.
Calligraphic history is too old as
Islamic history and Muslim artists are researching on Calligraphy from
“Khat-e-Koofi” which is the developed form of “Khat-e-Moakli” and after short
period, in the start of fourth (4th) centaury of Hijria. Imam e fun
“Ibn-e-Maqla” has worked over the Islamic ways of waiting, so by his personnel
and deep concepts of training made up the six writing styles known as:
1.
“Khatt-e-Suls”
2. “Khatt-e-Muhaqqer”
3. “Khatt-e-Toqufe”
4. “Khatt-e-Naskh”
5. “Khatt-e-Rihan”
6.
“Khatt-e-Riquaa”
In these six styles after hundreds year
of historical period, the two methods “Suls” & “Naskh” were introduced
commonly for general use because of their tight principles values. After some
time by the cooperation of “Khatt-e-Riquaa” & “Khatt-e-Toquee” a new one
style being being established named “Khatt-e-Taaliq”, which was further
developed in the form of “Khatt-e-Nasta’aliq”. This is the historical style
which is known the result, all the conclusion of Islamic calligraphy. According
to historical study Mir Ali Tabrazy was inventor of this style. The
characteristic of this writing style was sweetness & the lucid charm, that
it forgets all the previous styles of history.
After a long time Moghal Emperor Babar
contribute a new style “Khatt-e-Babri”, but it could not popular. In the time
of Akbar-e-Azam (The Great) also be invented a style known as “Deewani”. Many
princes leave this writing style with interest.
In past, maximum of the Calligraphic
production was made in “Khatt-e-Nasta’aliq”. Mir Punja Delhvi also worked on
“Nasta’ali”. In past indefinite, the two Muslim Calligraphers Abdul Majeed
Raqm & Tajud-Din Zareen-Raqm also
prepared the arts in the style and they
recognized The Principles of “Khatt-e-Nasta’aliq”.
At the present time all the artists of
Calligraphy using the explanations of these Muslims calligraphers. Historical
background of the calligraphy tells us that calligraphy is not a limited art it
has very much vast field to work & research.
Today, in the modern world, Islamic art
of calligraphy also being introduced as a scientific art. Calligraphy of the
present time gave us a valuable contribution in traditional calligraphy &
abstract calligraphy. Its abstractive beauty and traditional principles covered
the world of fine arts.
In the mean time, many calligraphers
worked over in traditional way and on the modern calligraphic art. In the
pictorial calligraphy, a well known artist “Sadiqeen” worked on canvas by color
and brush.
In this time of modern techniques &
world of abstraction art, a young artist from Multan served the Islamic and
Quranic Calligraphy by his personnel efforts. He accepted the challenge of the
time.
Sample of New invented Calligraphic Script |
“IBN-E-KALEEM” hardly worked on the six
traditional styles of calligraphy & researched on contributions of
calligraphy to still. After a very short time, Ibn-e-Kaleem invented a new
style named “KHATT-E-RA’ANA”. The main properties of his style are that he
justified all of the old styles, prepared rules & principles of style. The
“Ra’ana” style has a little of the bitterness and sharpness, the tang and
dryness, of the modern taste. This style has beautiful curves & attractive
form of drawing.
Ibn-e-Kaleem took also interest in
publication of calligraphy. He published the first book on calligraphy named
“TAREEKH FAN-E-KHATTATI” in 1977. Secondly, published “NOQUSH-E-RA’ANA” in
1978. In this book, six traditional styles of calligraphy explained simply with
diagrammatic analysis of each letter, and also given the introduction of
“KHAT-E-RA’ANA”. People can learn calligraphic principles by studying this
book.
Now, third book named “Jalwat-e-Ra’anaie”
is published this year. It contains new materials of research in calligraphic
world & informatory articles on the subject.
Ibn-e-Kaleem’s calligraphic exhibitions
have been held at National & International level many times, particularly
Peshawer, Islamabad, Rawalpindi, Lahore, Multan, Hyderabad & Karachi. In
India Ibn-e-Kaleem’s calligraphy introduced in Ghalib Academy New Delhi in
December, 1979 and the other one exhibition held in Arab Cultural Centre New
Delhi. Thousands of Indian people, Calligraphic Artists, Professors, &
Writers welcomed Ibn-e-Kaleem with great respect & appreciated his newly
invented style “Ra’ana”.
Now-a-days Ibn-e-Kaleem is working on
abstraction calligraphy of Khatt-e-Ra’ana. He prepared some arts in this manner
which shows complete abstract painting in the form of Khatt-e-Ra’ana.
Ibn-e-Kaleem is a gift of nature for us.
May he serve the Islamic art forever.
Multan &
Pakistan can also proud on the service of Ibn-e-Kaleem.
Thanks.
06th
September, 1981
انقلابی تحریک اوراس کا طریقۂ کار!
تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے معروف تجزیہ نگار اور سینئر قلم
کار جناب منو بھائی مورخہ 31جنوری012کو روزنامہ ’’جنگ‘‘میں ذیلی عنوان ’’توازن اور
برداشت سے کام لینا ضروری ہی! ‘‘کے تحت اشاعت پذیراپنے کالم ’’گریبان‘‘ میں رقم طراز
ہیں کہ’’مرحوم پروفیسر کرار حسین کہا کرتے تھے کہ نفرت کی بنیاد پر وجود میں آنے والی
کوئی تحریک مثبت نہیں ہوتی اور منفی نتائج کی ذمہ دار ہوتی ہی۔‘‘فاضل مضمون نگار آگے
چل کرلکھتے ہیں کہ ’’پروفیسر کرار حسین کی بیان کردہ حقیقت آج بھی یہ اندیشے پیش کرتی
ہے کہ بغیر کسی مثبت پروگرام اور منشور کے چلائی جانے والی تحریکیں ملک میں کوئی تبدیلی
یا انقلاب برپا نہیں کر پائیں گی۔‘‘
چھوٹے بڑے سب کیلئے قابل احترام منو بھائی نے در اصل اپنے مذکورہ کالم میںہماری
حالیہ تاریخ کی مشہور عالم ’’عدلیہ بحالی تحریک‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے تحریک کے مختلف
مراحل کے دوران اس کے اہم ترین کردار یعنی وکلاء برادری کی طرف سے پہلے اپنے ساتھیوں
یعنی نعیم بخاری ایڈووکیٹ اور وکیل قصوری کے خلاف جارحانہ رویہ کا ذکر کرنے کے بعد
اب تحریک کی ’’کامیابی‘‘ میں مؤثر کردار ادا کرنے والے سابق صدر سپریم کورٹ بار جناب
اعتزاز احسن کے ساتھ، وزیر اعظم گیلانی کے خلاف ’’توہین عدالت کیس‘‘ میں ان کی طرف
سے سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران، روا رکھے گئے غیر منطقی سلوک اوراس کے بعد ( منو
بھائی کے ہی الفاظ میں)’’عدلیہ بحالی کی عملی جدوجہد میں مثالی کردار کا مظاہرہ کرنے
والی‘‘معروف وکیل اورانسانی حقوق بالخصوص حقوق نسواں کی ممتاز علم بردار عاصمہ جہانگیر
کے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن شیخوپورہ سے خطاب کے دوران ہلڑ بازی کرنے والے وکلاء کے
رویہ پر بجا طور پرافسوس کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ’’ہر معاملے میں اور خاص طور
پر سیاست اور انصاف کے معاملات میں توازن کو پیش نظر رکھنا لازمی ہی نہیںناگزیر بھی
ہی!‘‘
یہ خاکسار مضمون ہٰذا میں ہمارے تازہ دم اور ہر دم بیدار وکلاء
حضرات کے بارے منو بھائی کے ریمارکس پر کوئی تبصرہ یا ان میں کوئی اضافہ کئے بغیر صرف
’’تحریک‘‘کی نوعیت پران کی طرف سے درج پروفیسر کرار حسین مرحوم کی رائے کے حوالہ سے
اپنے قارئین کو، تاریخ کے تناظر میںیہ سمجھانے کی کوشش کرے گا کہ ’’تحریک‘‘دراصل ہوتی
کیا ہی؟ اور کسی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کے متعلقہ قوم کے مستقبل پر کیا اثرات
مرتب ہوتے ہیں؟
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے تحریک کاماخذ ’’تحرک‘‘ یا حرکت ہی۔یعنی
ایسی اجتماعی سرگرمی جوافراد یا قوم میں کسی خاص مقصد کے حصول کی خاطراورمخصوص لائحہء
عمل کی بنیاد پرجدوجہد کی صورت میں جاری کی جائی۔برصغیر ہندو پاک میں انگریز سامراج
کے خلاف آزادی کے حصول کیلئے چلائی گئی ایک سے زائد تحاریک کواس خطہ کی تاریخ میں سنہری
باب کامقام حاصل ہی۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری
ہے کہ ہر تحریک نتیجہ خیز کامیابی کیلئے حالات کی نباض اپنی دوربین قیادت کی مرہون
منت ہو اکرتی ہے جو عموماََ فرد ِواحد کی صورت میں مطلوبہ نتائج کے حصول کی طرف تحریک
کی رہنمائی کر رہی ہوتی ہی۔اجتماعی قیادت کا تصور شاید تحریک کی کامیابی کے بعد حاصل
کردہ نتائج کو بروئے کار لانے یا کسی نظام کو چلانے کی حد تک تو کارفرما ہو سکتا ہے
لیکن بالخصوص جدوجہد آزادی یا کسی انقلابی تبدیلی کے عمل میں بہرحال فرد ِواحد ہی فیصلہ
کن رہنمائی فراہم کیا کرتا ہے ورنہ تحریک چوں چوں کا مربہ بن کر رہ جائی۔ہاں ایک استثنائی
شکل میں ملتے جلتے مقاصد کے حصول کیلئے ایک سے زائد تحاریک اپنے اپنے لیڈرز کی قیادت
میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر لیا کرتی ہیںاورپھر مشترکہ مقاصد میں کامیابی کے بعد
ایسی ہر تحریک اپنے انفرادی نقطہء نظر اور پروگرام کے مطابق مستقبل کا راستہ خود منتخب
کیاکرتی ہی۔
لیکن قارئین کرام! یاد رکھئے کہ جدوجہد آزادی ہویا انقلابی تحریک،اس
کا واحد رستہ صرف اور صرف متحدہ جسمانی وجود(طاقت) کی تشکیل یا مسلح جدوجہد ہی ہی۔
نعروں، ہاروں کی سیاست،جیل بھر و مہموں اور گول میز کانفرنسوں سے قابض یا استحصالی
طاقت پر صرف سیاسی پریشر بڑھایا جاسکتا ہی،جو آزادی اور انقلاب جیسے مقاصد اولیٰ کیلئے
ہمیشہ ناکافی ثابت ہو اہی۔اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مغرب کی سکھائی ہوئی
ایسی سیاسی سرگرمیوں سی، مغلوب اور پسماندہ اقوام کے نام نہادرہنما ،اپنے لوگوں کوآزادی
یا انقلاب کے نام پردام ہمرنگ زمین میں پھانس کر سامراج کے مقاصدکی تکمیل میںگویا اپنا
حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ماضی قریب پر ہی نگاہ ڈالئے توجنگ عظیم دوم کے بعد خاص طور پر
مشرق کے مختلف خطوں کے مسلمان ایسی سیاسی ’’تحریکوں‘‘ کے نتیجہ میں مختلف جداگانہ ممالک
کے نام پر آزادی حاصل کرنے میں تو بظاہر کامیاب دکھائی دیتے ہیں لیکن قریباََپون صدی
کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ’’مسلم اُمہ‘‘ کا کوئی ایک ملک بھی کسی اعتبار سے خود مختار
قرارنہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ‘‘ کا خواب دُور دُور تک کسی صورت
پورا ہوتا دکھائی دیتا ہی۔
کیا اس عمومی ناکامی کی وجہ اس کے سوا بھی کچھ ہے کہ یہ تمام
’’آزادیاں‘‘ مکمل آزادی کے حصول کیلئے درکار ’’متحدہ جسمانی قوت‘‘ اور آزادی کے ثمرات
سے بجا طور پرفائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے مالامال ’’منظم قوم‘‘ کی تشکیل کے بغیراورسامراجی
قوتوں کی عالمی جنگ میں شکست کے طفیل لیکن خود سامراج کے اپنے ’’تقسیم در تقسیم‘‘ فارمولہ
کے تحت صدقے میں ہی مل گئیں؟معاف رکھئے دوستو! کیا اس دوران قربانی کے نام پر بہے یکطرفہ
خون کو ’’خراج‘‘ کے سوا کوئی اور نام بھی دیا جا سکتا ہی؟
< قارئین گرامی!اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس’’متحدہ جسمانی قوت‘‘
اور ’’منظم وجود‘‘ سے مراد کیا ہے جو آزادی یا انقلاب کی دعویدار کسی ’’تحریک‘‘ کا
خاصہ ٹھہرا؟ اور یہ کہاں سے وجود میں آتی اور کیسے تشکیل پاتی ہی؟اس جامع سوال کا مکمل
جواب تو خاصا تفصیل طلب ہے البتہ مختصر تجزیہ کیلئے برٹش راج کے اختتامی دور میں مسلم
ہندوستان کی ایک ایسی تحریک کا ذکر یہاں بے جا نہ ہوگا جس کا نعرہ یہ تھا کہ ’’انگریز
نے ہند کا تخت و تاج مسلمانوں سے چھینا تھا اسلئے مسلمانان ہند کو متحدہ ہندوستان پر
دوبارہ حکومت کا اہل بن کرکھویا ہوا اقتدارپھر سے حاصل کرناہوگا‘‘۔
اپنے دور کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے انسان، مشہور حساب دان و
سائنس دان اور مغرب کی اعلیٰ ترین درس گاہوں میں ریکارڈ ساز کامیابیوں کے انمٹ نقوش
ثبت کرنے والے اورتاریخ اقوام عالم پر گہری نظر رکھنے والے خاکسار تحریک کے مؤید اور
بانی بطل حریت علامہ عنایت اللہ خان المشرقی، ہند پر مسلمانوں کا حق جتلانے اور انہیں
پھر سے اس کا اہل بنانے کی تحریک کا آغازکرنے سے پہلے صحیفہء فطرت قرآن مجید فرقان
حمید کی روشنی میں مرتب کردہ اپنی شہرہء آفاق تصنیف’’تذکرہ‘‘ میں قوموں کے عروج و زوال
کے ناقابل استرداد اصول و ضوابط تفصیلاََ بیان کر چکے تھی۔جس پر بقول علامہ المشرقی
واہ واہ تو خوب ہوئی لیکن مسلمانوں کی زبوں حالی پر جب ’’آہ‘‘ایک عرصہ تک کسی لب سے
نہ نکلی توہندی مسلمانوں کے زوال اور غلامی کو عروج اور آزادی میں بدل ڈالنے کیلئے
انہیں خود ہی قوانین فطرت کی روشنی میںعملی جدوجہد کیلئے میدان عمل میں اترنا پڑا۔
قارئین! وہ جو کہتے ہیں کہ ہر ناکام انقلاب بغاوت قرا ر پاتا
ہی۔ یہی یہاںحق حکمرانی کی داعی خاکسار تحریک کے ساتھ ہوا کہ آج ہم اس کے بارے کچھ
زیادہ معلومات نہیں رکھتے اور اگر کچھ لوگ جانتے بھی ہیں تو وہ مکمل آگاہی سے عاری
ہونے کے کارن اپنے وقت کی اس عظیم الشان تحریک کودرست طور پرسمجھنے سے قاصر ہیں۔اس
میں کچھ قصور خود علامہ المشرقی کے اُن نام نہاد نام لیواؤں کا بھی ہے جنہوں نے اپنے
بانی مبانی کی طرف سے جون 1947میں منتشر کر دی گئی اس تحریک کوالمشرقی کی وفات کے بعد
جنرل ایوب خان کے اشارے پر ایک سیاسی جماعت کے طور پر دوبارہ شروع کر کے تاریخ کا حصہ
بننے سے محروم کردیا اور المشرقی کے انقلابی پروگرام میںاپنے اور حکمرانوں کے مطلب
کی تاویلات کے ذریعے اسے ایک رسمی سا گروہ بنا کر رکھ دیا ۔ بدقسمتی سے رہی سہی کسربعد
میںخود علامہ مرحوم کے اُس فرزند نے پوری کردی جو اپنے عظیم والدکے انتقال کے وقت غالباََ
صرف سات آٹھ برس کا تھا۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی نابغہ ء رُوزگار علامہ المشرقی کے اُس
انقلابی پروگرام کی جس کی غرض و غایت مسلمانان ہند میں اُن صلا حیتوں کو اُجاگر کرنا
تھا جو کسی بھی قوم کو زوال کے تحت الثریٰ
سے اٹھا کر عروج کے اوجِ ثریا تک لے جایا کرتی ہیں۔ تاریخ ثابت کرتی ہو اور خاکسار
تحریک کے بانی کا اس پر پختہ یقین تھا کہ انسانوں کے نام سے جانے پہچانے والے بھیڑ
بکریوں کے کسی بھی گروہ کو(جیسا کہ مسلمان اس وقت بھی تھے اور بدقسمتی سے آ ج بھی ویسے
بلکہ اُس سے بد تر ہیں)قوم کی شکل میں منظم کئے بغیرترقی کی راہ پر گامزن کرنا ممکن
ہی نہیں۔ نیز یہ کہ قطار بندی یا’’ صف بندی‘‘ کسی بھی گری پڑی قوم کو کم سے کم وقت
میں اُٹھا دینے اور منظم کرنے کا واحد اور تیر بہدف نسخہ ہی۔ علامہ المشرقی محمد عربی
صلعم کے نظام الصلوٰۃ کو(جسے ہم نے رسمی نماز بناکر رکھ دیا )اسی عسکری صف بندی کی
علامت سمجھتے تھے ۔ اور اسی لئے ’’اسلام سپاہیانہ زندگی کا دوسرا نام ہی‘‘کوخاکسار
تحریک کے پروگرام میںایک اہم سلوگن کامقام حاصل تھا۔
زعیم مشرق نے انگریز بہادر کے اس قانون سے رعایت حاصل کرتے ہوئے
کہ وہ اپنی زیر تسلط کسی بھی قوم کے مذہبی شعار میں مداخلت نہ کرتا تھا ، اسے یہ باور
کرانے کے بعدکہ خاکساروں کے باوردی، با بیلچہ روزانہ قواعد مسلمان ہونے کے ناطے اُن
کا مذہبی حق ہی، ایک سالار(امیر) کی اطاعت میںصف بندی اور پریڈ کے ذریعے ذہنی واخلاقی
پستی اور پسماندگی کا شکار مسلمانوں کوانتہائی تیز رفتاری سے ایک منظم اور با کردارطاقت
کی صورت دینا شروع کی لیکن بد قسمتی سے جلد ہی جنگ عظیم کے آغاز کے سبب تیزی سے بدلتی
عالمی صورتحال نے برٹش راج کواپنی کالونی انڈیا کے بارے میں نئی حکمت عملی پر مجبور
کردیا جس کے تحت خاکسار تحریک جیسے مستقبل کے خطرات بارے فوری فیصلے کی ضرورت نے جنم
لیا اور 1940کے اوائل میں خاکسار تحریک کے سر اٹھاتے فتنے کو کچل دینے کا فیصلہ کر
لیا گیا اور بالآخرقائد تحریک علامہ المشرقی کو ویلور قلعہ میں نظر بند کرنے کے بعد
19مارچ940کوخاکساروں کے مرکز لاہورمیں تحریک پر فیصلہ کن وار کر کے ہندوستان بھر میں
اس پر پابندی لگا دی گئی۔اور یوں ہند پرمسلم غلبہ کے احیاء نو اور کامل آزادی کی یہ
آخری تحریک زبوں حالی کا شکار ، مایوس اور منتشر مسلمانان ہند میں سے ایک تربیت یافتہ
منظم کیڈرکی تیاری کے منطقی مراحل کیلئے درکار لازمی مدت سے پہلے ہی ایک غیر منطقی
انجام تک پہنچا دی گئی۔
سخن گسترانہ کے طور پر یہاں اس امر کا تذکر ہ بھی نہایت ضروری
ہے کہ ظاہری کامیابی کو گود لینے کو تو سب بے تاب دکھائی دیتے ہیں البتہ ناکامی کا
ولی وارث کوئی بنتا نہیں۔لیکن یاد رکھئی!اس
معاملے میں تاریخ اپنا فیصلہ قوانین فطرت کی رُو سے کچھ مختلف انداز میں ہی مرتب کیا
کرتی ہے ورنہ آج ہم یہ نہ کہہ رہے ہوتے کہ ’’ 65سال بعد ہمارے پاس وطن تو ہے قوم نہیں‘‘!
اور یہ بات بھی اب کھلے بندوں کی جارہی ہے کہ ہمیں آزادی مکمل تیاری (یعنی قوم سازی
) کے بغیر ہی مل گئی، اس لئے ہم اس کے ثمرات نہ سمیٹ سکی۔
اور یہی حقیقت قارئین! خاکسار تحریک کے احیاء کے وقت علامہ عنایت
اللہ المشرقی کے پیش نظر تھی جوایک حکم پر چپ راست، دائیں مُپ، بائیں مُپ اور بزن جیسے
کاشنز کے ذریعے مسلمانان ہند میں وہ تنظیمی صلاحیت ، وہ قومی کردار پیدا کرتے جارہے
تھے ، جو کسی بھی غلام قوم میں آزادی کی دعوے دار اور ایک آزاد مملکت کو کامل خود مختاری
سے چلانے کی صلاحیت و اہلیت کا حامل ہو۔ اگر کسی کو المشرقی کے پروگرام اور اس کے نتائج
کی حقانیت سے انکار ہو تو گراں خواب چینیوں کو سنبھالنے اور پھر عوامی جمہوریہ چین
کو دنیا کی سُپر پاور بنانے میں چئیر مین ماؤزے تنگ کی ’’ریڈ آرمی‘‘ کے کردار کا مطالعہ
ضرور کری۔
ذرا سی تحقیق اس حقیقت کو ثابت کرنے کو کافی ہے حضرات گرامی!
کہ ہر ذی روح میں منظم زندگی کا فطری سلیقہ صرف اور صرف یہی ’’صف بندی‘‘ ہی ہے ۔ اس
حقیقت پر ’’جیو نیوز‘‘ پر یکم فروری012کی شب 9بجے کے خبر نامے میں ایک دلچسپ کلپنگ
کی صورت میں کچھ یوں روشنی ڈالی گئی کہ ’’بطخوں کی اُڑان اور اُٹھان تو قطاروں میں
ہوتی ہے لیکن اشرف المخلوقات (یعنی ہم پاکستانی)کسی بھی شعبہ میںقطار شمارکا تکلف عموماََنہیں
فرمایا کرتی‘‘!
اور آخیر میں اک دلچسپ اتفاق کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہوگا کہ
سطورہٰذا کیلئے محرک بننے والے قابل صد احترام منو بھائی کے کالم میں جامعہ کراچی کے
جن سابق وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین کی رائے درج کی گئی ہی، تدریسی، علمی اورادبی
خدمات کے ساتھ ساتھ اُن کی ایک اہم شہرت و پہچان یہ بھی رہی ہے کہ پروفیسر صاحب مرحوم
علامہ المشرقی اورخاکسار تحریک کے بارے انتہائی موافقانہ رائے رکھتے تھی۔ یہی نہیں
دوستو!جامعہ پنجاب کے موجودہ وائس چانسلر کے خاندانی پس منظر پر نگاہ ڈالیں تو معلوم
ہوتا ہے کہ پروفیسر مجاہد کامران کے والد گرامی اور معروف صحافی و لکھاری جناب سیدغلام
سرور شاہ اور ان کے ایک اور صحافی بھائی سید شبیر شاہ( پروفیسر صاحب کے سگے چچا)دونوں
حضرات کا شمار باقاعدہ خاکساروں میں ہوتاتھا۔علامہ عنایت اللہ خان المشرقی اور ان کی
تحریک کو ہمارے بلکہ دنیا بھر کے علمی و تحقیقی حلقوں میں ہمیشہ عزت و احترام اور بھر
پور پذیرائی حاصل رہی ہی۔ہاں مغربی سامراج ان کے نام سے روز اول سے ہی الرجک رہا ہے
جیساکہ ہمارے ایک مرحوم بزرگ دوست رشید ملک اڈووکیٹ حوالہ دیا کرتے تھے کہ پیرس کی
سب سے بڑی لائبریری کے مین ہال میں علامہ المشرقی کی تصویر ’’مشرق کا خطرناک ترین جینئس!‘‘کے
کیپشن کے ساتھ آویزاں رہی اور شائد آج بھی ہو ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)