تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے معروف تجزیہ نگار اور سینئر قلم
کار جناب منو بھائی مورخہ 31جنوری012کو روزنامہ ’’جنگ‘‘میں ذیلی عنوان ’’توازن اور
برداشت سے کام لینا ضروری ہی! ‘‘کے تحت اشاعت پذیراپنے کالم ’’گریبان‘‘ میں رقم طراز
ہیں کہ’’مرحوم پروفیسر کرار حسین کہا کرتے تھے کہ نفرت کی بنیاد پر وجود میں آنے والی
کوئی تحریک مثبت نہیں ہوتی اور منفی نتائج کی ذمہ دار ہوتی ہی۔‘‘فاضل مضمون نگار آگے
چل کرلکھتے ہیں کہ ’’پروفیسر کرار حسین کی بیان کردہ حقیقت آج بھی یہ اندیشے پیش کرتی
ہے کہ بغیر کسی مثبت پروگرام اور منشور کے چلائی جانے والی تحریکیں ملک میں کوئی تبدیلی
یا انقلاب برپا نہیں کر پائیں گی۔‘‘
چھوٹے بڑے سب کیلئے قابل احترام منو بھائی نے در اصل اپنے مذکورہ کالم میںہماری
حالیہ تاریخ کی مشہور عالم ’’عدلیہ بحالی تحریک‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے تحریک کے مختلف
مراحل کے دوران اس کے اہم ترین کردار یعنی وکلاء برادری کی طرف سے پہلے اپنے ساتھیوں
یعنی نعیم بخاری ایڈووکیٹ اور وکیل قصوری کے خلاف جارحانہ رویہ کا ذکر کرنے کے بعد
اب تحریک کی ’’کامیابی‘‘ میں مؤثر کردار ادا کرنے والے سابق صدر سپریم کورٹ بار جناب
اعتزاز احسن کے ساتھ، وزیر اعظم گیلانی کے خلاف ’’توہین عدالت کیس‘‘ میں ان کی طرف
سے سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران، روا رکھے گئے غیر منطقی سلوک اوراس کے بعد ( منو
بھائی کے ہی الفاظ میں)’’عدلیہ بحالی کی عملی جدوجہد میں مثالی کردار کا مظاہرہ کرنے
والی‘‘معروف وکیل اورانسانی حقوق بالخصوص حقوق نسواں کی ممتاز علم بردار عاصمہ جہانگیر
کے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن شیخوپورہ سے خطاب کے دوران ہلڑ بازی کرنے والے وکلاء کے
رویہ پر بجا طور پرافسوس کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ’’ہر معاملے میں اور خاص طور
پر سیاست اور انصاف کے معاملات میں توازن کو پیش نظر رکھنا لازمی ہی نہیںناگزیر بھی
ہی!‘‘
یہ خاکسار مضمون ہٰذا میں ہمارے تازہ دم اور ہر دم بیدار وکلاء
حضرات کے بارے منو بھائی کے ریمارکس پر کوئی تبصرہ یا ان میں کوئی اضافہ کئے بغیر صرف
’’تحریک‘‘کی نوعیت پران کی طرف سے درج پروفیسر کرار حسین مرحوم کی رائے کے حوالہ سے
اپنے قارئین کو، تاریخ کے تناظر میںیہ سمجھانے کی کوشش کرے گا کہ ’’تحریک‘‘دراصل ہوتی
کیا ہی؟ اور کسی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کے متعلقہ قوم کے مستقبل پر کیا اثرات
مرتب ہوتے ہیں؟
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے تحریک کاماخذ ’’تحرک‘‘ یا حرکت ہی۔یعنی
ایسی اجتماعی سرگرمی جوافراد یا قوم میں کسی خاص مقصد کے حصول کی خاطراورمخصوص لائحہء
عمل کی بنیاد پرجدوجہد کی صورت میں جاری کی جائی۔برصغیر ہندو پاک میں انگریز سامراج
کے خلاف آزادی کے حصول کیلئے چلائی گئی ایک سے زائد تحاریک کواس خطہ کی تاریخ میں سنہری
باب کامقام حاصل ہی۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری
ہے کہ ہر تحریک نتیجہ خیز کامیابی کیلئے حالات کی نباض اپنی دوربین قیادت کی مرہون
منت ہو اکرتی ہے جو عموماََ فرد ِواحد کی صورت میں مطلوبہ نتائج کے حصول کی طرف تحریک
کی رہنمائی کر رہی ہوتی ہی۔اجتماعی قیادت کا تصور شاید تحریک کی کامیابی کے بعد حاصل
کردہ نتائج کو بروئے کار لانے یا کسی نظام کو چلانے کی حد تک تو کارفرما ہو سکتا ہے
لیکن بالخصوص جدوجہد آزادی یا کسی انقلابی تبدیلی کے عمل میں بہرحال فرد ِواحد ہی فیصلہ
کن رہنمائی فراہم کیا کرتا ہے ورنہ تحریک چوں چوں کا مربہ بن کر رہ جائی۔ہاں ایک استثنائی
شکل میں ملتے جلتے مقاصد کے حصول کیلئے ایک سے زائد تحاریک اپنے اپنے لیڈرز کی قیادت
میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر لیا کرتی ہیںاورپھر مشترکہ مقاصد میں کامیابی کے بعد
ایسی ہر تحریک اپنے انفرادی نقطہء نظر اور پروگرام کے مطابق مستقبل کا راستہ خود منتخب
کیاکرتی ہی۔
لیکن قارئین کرام! یاد رکھئے کہ جدوجہد آزادی ہویا انقلابی تحریک،اس
کا واحد رستہ صرف اور صرف متحدہ جسمانی وجود(طاقت) کی تشکیل یا مسلح جدوجہد ہی ہی۔
نعروں، ہاروں کی سیاست،جیل بھر و مہموں اور گول میز کانفرنسوں سے قابض یا استحصالی
طاقت پر صرف سیاسی پریشر بڑھایا جاسکتا ہی،جو آزادی اور انقلاب جیسے مقاصد اولیٰ کیلئے
ہمیشہ ناکافی ثابت ہو اہی۔اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مغرب کی سکھائی ہوئی
ایسی سیاسی سرگرمیوں سی، مغلوب اور پسماندہ اقوام کے نام نہادرہنما ،اپنے لوگوں کوآزادی
یا انقلاب کے نام پردام ہمرنگ زمین میں پھانس کر سامراج کے مقاصدکی تکمیل میںگویا اپنا
حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ماضی قریب پر ہی نگاہ ڈالئے توجنگ عظیم دوم کے بعد خاص طور پر
مشرق کے مختلف خطوں کے مسلمان ایسی سیاسی ’’تحریکوں‘‘ کے نتیجہ میں مختلف جداگانہ ممالک
کے نام پر آزادی حاصل کرنے میں تو بظاہر کامیاب دکھائی دیتے ہیں لیکن قریباََپون صدی
کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ’’مسلم اُمہ‘‘ کا کوئی ایک ملک بھی کسی اعتبار سے خود مختار
قرارنہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ‘‘ کا خواب دُور دُور تک کسی صورت
پورا ہوتا دکھائی دیتا ہی۔
کیا اس عمومی ناکامی کی وجہ اس کے سوا بھی کچھ ہے کہ یہ تمام
’’آزادیاں‘‘ مکمل آزادی کے حصول کیلئے درکار ’’متحدہ جسمانی قوت‘‘ اور آزادی کے ثمرات
سے بجا طور پرفائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے مالامال ’’منظم قوم‘‘ کی تشکیل کے بغیراورسامراجی
قوتوں کی عالمی جنگ میں شکست کے طفیل لیکن خود سامراج کے اپنے ’’تقسیم در تقسیم‘‘ فارمولہ
کے تحت صدقے میں ہی مل گئیں؟معاف رکھئے دوستو! کیا اس دوران قربانی کے نام پر بہے یکطرفہ
خون کو ’’خراج‘‘ کے سوا کوئی اور نام بھی دیا جا سکتا ہی؟
< قارئین گرامی!اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس’’متحدہ جسمانی قوت‘‘
اور ’’منظم وجود‘‘ سے مراد کیا ہے جو آزادی یا انقلاب کی دعویدار کسی ’’تحریک‘‘ کا
خاصہ ٹھہرا؟ اور یہ کہاں سے وجود میں آتی اور کیسے تشکیل پاتی ہی؟اس جامع سوال کا مکمل
جواب تو خاصا تفصیل طلب ہے البتہ مختصر تجزیہ کیلئے برٹش راج کے اختتامی دور میں مسلم
ہندوستان کی ایک ایسی تحریک کا ذکر یہاں بے جا نہ ہوگا جس کا نعرہ یہ تھا کہ ’’انگریز
نے ہند کا تخت و تاج مسلمانوں سے چھینا تھا اسلئے مسلمانان ہند کو متحدہ ہندوستان پر
دوبارہ حکومت کا اہل بن کرکھویا ہوا اقتدارپھر سے حاصل کرناہوگا‘‘۔
اپنے دور کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے انسان، مشہور حساب دان و
سائنس دان اور مغرب کی اعلیٰ ترین درس گاہوں میں ریکارڈ ساز کامیابیوں کے انمٹ نقوش
ثبت کرنے والے اورتاریخ اقوام عالم پر گہری نظر رکھنے والے خاکسار تحریک کے مؤید اور
بانی بطل حریت علامہ عنایت اللہ خان المشرقی، ہند پر مسلمانوں کا حق جتلانے اور انہیں
پھر سے اس کا اہل بنانے کی تحریک کا آغازکرنے سے پہلے صحیفہء فطرت قرآن مجید فرقان
حمید کی روشنی میں مرتب کردہ اپنی شہرہء آفاق تصنیف’’تذکرہ‘‘ میں قوموں کے عروج و زوال
کے ناقابل استرداد اصول و ضوابط تفصیلاََ بیان کر چکے تھی۔جس پر بقول علامہ المشرقی
واہ واہ تو خوب ہوئی لیکن مسلمانوں کی زبوں حالی پر جب ’’آہ‘‘ایک عرصہ تک کسی لب سے
نہ نکلی توہندی مسلمانوں کے زوال اور غلامی کو عروج اور آزادی میں بدل ڈالنے کیلئے
انہیں خود ہی قوانین فطرت کی روشنی میںعملی جدوجہد کیلئے میدان عمل میں اترنا پڑا۔
قارئین! وہ جو کہتے ہیں کہ ہر ناکام انقلاب بغاوت قرا ر پاتا
ہی۔ یہی یہاںحق حکمرانی کی داعی خاکسار تحریک کے ساتھ ہوا کہ آج ہم اس کے بارے کچھ
زیادہ معلومات نہیں رکھتے اور اگر کچھ لوگ جانتے بھی ہیں تو وہ مکمل آگاہی سے عاری
ہونے کے کارن اپنے وقت کی اس عظیم الشان تحریک کودرست طور پرسمجھنے سے قاصر ہیں۔اس
میں کچھ قصور خود علامہ المشرقی کے اُن نام نہاد نام لیواؤں کا بھی ہے جنہوں نے اپنے
بانی مبانی کی طرف سے جون 1947میں منتشر کر دی گئی اس تحریک کوالمشرقی کی وفات کے بعد
جنرل ایوب خان کے اشارے پر ایک سیاسی جماعت کے طور پر دوبارہ شروع کر کے تاریخ کا حصہ
بننے سے محروم کردیا اور المشرقی کے انقلابی پروگرام میںاپنے اور حکمرانوں کے مطلب
کی تاویلات کے ذریعے اسے ایک رسمی سا گروہ بنا کر رکھ دیا ۔ بدقسمتی سے رہی سہی کسربعد
میںخود علامہ مرحوم کے اُس فرزند نے پوری کردی جو اپنے عظیم والدکے انتقال کے وقت غالباََ
صرف سات آٹھ برس کا تھا۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی نابغہ ء رُوزگار علامہ المشرقی کے اُس
انقلابی پروگرام کی جس کی غرض و غایت مسلمانان ہند میں اُن صلا حیتوں کو اُجاگر کرنا
تھا جو کسی بھی قوم کو زوال کے تحت الثریٰ
سے اٹھا کر عروج کے اوجِ ثریا تک لے جایا کرتی ہیں۔ تاریخ ثابت کرتی ہو اور خاکسار
تحریک کے بانی کا اس پر پختہ یقین تھا کہ انسانوں کے نام سے جانے پہچانے والے بھیڑ
بکریوں کے کسی بھی گروہ کو(جیسا کہ مسلمان اس وقت بھی تھے اور بدقسمتی سے آ ج بھی ویسے
بلکہ اُس سے بد تر ہیں)قوم کی شکل میں منظم کئے بغیرترقی کی راہ پر گامزن کرنا ممکن
ہی نہیں۔ نیز یہ کہ قطار بندی یا’’ صف بندی‘‘ کسی بھی گری پڑی قوم کو کم سے کم وقت
میں اُٹھا دینے اور منظم کرنے کا واحد اور تیر بہدف نسخہ ہی۔ علامہ المشرقی محمد عربی
صلعم کے نظام الصلوٰۃ کو(جسے ہم نے رسمی نماز بناکر رکھ دیا )اسی عسکری صف بندی کی
علامت سمجھتے تھے ۔ اور اسی لئے ’’اسلام سپاہیانہ زندگی کا دوسرا نام ہی‘‘کوخاکسار
تحریک کے پروگرام میںایک اہم سلوگن کامقام حاصل تھا۔
زعیم مشرق نے انگریز بہادر کے اس قانون سے رعایت حاصل کرتے ہوئے
کہ وہ اپنی زیر تسلط کسی بھی قوم کے مذہبی شعار میں مداخلت نہ کرتا تھا ، اسے یہ باور
کرانے کے بعدکہ خاکساروں کے باوردی، با بیلچہ روزانہ قواعد مسلمان ہونے کے ناطے اُن
کا مذہبی حق ہی، ایک سالار(امیر) کی اطاعت میںصف بندی اور پریڈ کے ذریعے ذہنی واخلاقی
پستی اور پسماندگی کا شکار مسلمانوں کوانتہائی تیز رفتاری سے ایک منظم اور با کردارطاقت
کی صورت دینا شروع کی لیکن بد قسمتی سے جلد ہی جنگ عظیم کے آغاز کے سبب تیزی سے بدلتی
عالمی صورتحال نے برٹش راج کواپنی کالونی انڈیا کے بارے میں نئی حکمت عملی پر مجبور
کردیا جس کے تحت خاکسار تحریک جیسے مستقبل کے خطرات بارے فوری فیصلے کی ضرورت نے جنم
لیا اور 1940کے اوائل میں خاکسار تحریک کے سر اٹھاتے فتنے کو کچل دینے کا فیصلہ کر
لیا گیا اور بالآخرقائد تحریک علامہ المشرقی کو ویلور قلعہ میں نظر بند کرنے کے بعد
19مارچ940کوخاکساروں کے مرکز لاہورمیں تحریک پر فیصلہ کن وار کر کے ہندوستان بھر میں
اس پر پابندی لگا دی گئی۔اور یوں ہند پرمسلم غلبہ کے احیاء نو اور کامل آزادی کی یہ
آخری تحریک زبوں حالی کا شکار ، مایوس اور منتشر مسلمانان ہند میں سے ایک تربیت یافتہ
منظم کیڈرکی تیاری کے منطقی مراحل کیلئے درکار لازمی مدت سے پہلے ہی ایک غیر منطقی
انجام تک پہنچا دی گئی۔
سخن گسترانہ کے طور پر یہاں اس امر کا تذکر ہ بھی نہایت ضروری
ہے کہ ظاہری کامیابی کو گود لینے کو تو سب بے تاب دکھائی دیتے ہیں البتہ ناکامی کا
ولی وارث کوئی بنتا نہیں۔لیکن یاد رکھئی!اس
معاملے میں تاریخ اپنا فیصلہ قوانین فطرت کی رُو سے کچھ مختلف انداز میں ہی مرتب کیا
کرتی ہے ورنہ آج ہم یہ نہ کہہ رہے ہوتے کہ ’’ 65سال بعد ہمارے پاس وطن تو ہے قوم نہیں‘‘!
اور یہ بات بھی اب کھلے بندوں کی جارہی ہے کہ ہمیں آزادی مکمل تیاری (یعنی قوم سازی
) کے بغیر ہی مل گئی، اس لئے ہم اس کے ثمرات نہ سمیٹ سکی۔
اور یہی حقیقت قارئین! خاکسار تحریک کے احیاء کے وقت علامہ عنایت
اللہ المشرقی کے پیش نظر تھی جوایک حکم پر چپ راست، دائیں مُپ، بائیں مُپ اور بزن جیسے
کاشنز کے ذریعے مسلمانان ہند میں وہ تنظیمی صلاحیت ، وہ قومی کردار پیدا کرتے جارہے
تھے ، جو کسی بھی غلام قوم میں آزادی کی دعوے دار اور ایک آزاد مملکت کو کامل خود مختاری
سے چلانے کی صلاحیت و اہلیت کا حامل ہو۔ اگر کسی کو المشرقی کے پروگرام اور اس کے نتائج
کی حقانیت سے انکار ہو تو گراں خواب چینیوں کو سنبھالنے اور پھر عوامی جمہوریہ چین
کو دنیا کی سُپر پاور بنانے میں چئیر مین ماؤزے تنگ کی ’’ریڈ آرمی‘‘ کے کردار کا مطالعہ
ضرور کری۔
ذرا سی تحقیق اس حقیقت کو ثابت کرنے کو کافی ہے حضرات گرامی!
کہ ہر ذی روح میں منظم زندگی کا فطری سلیقہ صرف اور صرف یہی ’’صف بندی‘‘ ہی ہے ۔ اس
حقیقت پر ’’جیو نیوز‘‘ پر یکم فروری012کی شب 9بجے کے خبر نامے میں ایک دلچسپ کلپنگ
کی صورت میں کچھ یوں روشنی ڈالی گئی کہ ’’بطخوں کی اُڑان اور اُٹھان تو قطاروں میں
ہوتی ہے لیکن اشرف المخلوقات (یعنی ہم پاکستانی)کسی بھی شعبہ میںقطار شمارکا تکلف عموماََنہیں
فرمایا کرتی‘‘!
اور آخیر میں اک دلچسپ اتفاق کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہوگا کہ
سطورہٰذا کیلئے محرک بننے والے قابل صد احترام منو بھائی کے کالم میں جامعہ کراچی کے
جن سابق وائس چانسلر پروفیسر کرار حسین کی رائے درج کی گئی ہی، تدریسی، علمی اورادبی
خدمات کے ساتھ ساتھ اُن کی ایک اہم شہرت و پہچان یہ بھی رہی ہے کہ پروفیسر صاحب مرحوم
علامہ المشرقی اورخاکسار تحریک کے بارے انتہائی موافقانہ رائے رکھتے تھی۔ یہی نہیں
دوستو!جامعہ پنجاب کے موجودہ وائس چانسلر کے خاندانی پس منظر پر نگاہ ڈالیں تو معلوم
ہوتا ہے کہ پروفیسر مجاہد کامران کے والد گرامی اور معروف صحافی و لکھاری جناب سیدغلام
سرور شاہ اور ان کے ایک اور صحافی بھائی سید شبیر شاہ( پروفیسر صاحب کے سگے چچا)دونوں
حضرات کا شمار باقاعدہ خاکساروں میں ہوتاتھا۔علامہ عنایت اللہ خان المشرقی اور ان کی
تحریک کو ہمارے بلکہ دنیا بھر کے علمی و تحقیقی حلقوں میں ہمیشہ عزت و احترام اور بھر
پور پذیرائی حاصل رہی ہی۔ہاں مغربی سامراج ان کے نام سے روز اول سے ہی الرجک رہا ہے
جیساکہ ہمارے ایک مرحوم بزرگ دوست رشید ملک اڈووکیٹ حوالہ دیا کرتے تھے کہ پیرس کی
سب سے بڑی لائبریری کے مین ہال میں علامہ المشرقی کی تصویر ’’مشرق کا خطرناک ترین جینئس!‘‘کے
کیپشن کے ساتھ آویزاں رہی اور شائد آج بھی ہو ۔
"انقلابی تحریک اوراس کا طریقۂ کار"۔!
ReplyDeleteتحریک کیا ہوتی ہے اور کہاں سے پھوٹتا ہے اس کا سرچشمہ؟۔ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے پیچھے مقاصد کے علاوہ اس کے قائد کا رول کیا ہوا کرتا ہے؟۔ متحدہ جسمانی ذور کے بل بوتے پر متحدہ ہندوستان کی آزادی کی آخری داعی "خاکسار تحریک" ناکام کیوں ہوئی اور اس سے بھی بڑا سوال یہ کہ پھر کامیاب کون رہا؟؟۔ زعیم فطرت، بطل حُریت علامہ المشرقی کی عظیم الشان تحریک کو تاریخ کا حصہ بننے سے روک کر "متنازعہ" بنانے میں کس کس نے کیا کیا کردار ادا کیا؟؟۔
نام نہاد "عدلیہ آزادی تحریک" کے مضر اثرات کے پو منظر میں لکھا گیا ایک اہم مضمون، تاریخی حقائق کے مُتلاشی ایک بار غور سے ضرور پڑھیں ۔۔