Tuesday, 28 February 2012

محمد جمال محسن بن ابن کلیم

 
خط کو فی میں اسما ءالحسنیٰ ءربّ کریم کو
 گرافک آرٹ کا شاہکار بنانے والا تخلیق کار
محمد جمال محسن بن ابن کلیم
خطاطی کے فن کو مسلمانوں کی عظمت کی ایک روشن مثال کہا جاسکتا ہے لیکن لوگ اپنی بے خبری ،احساس کمتری اور بے ہنری کے باعث اس سے جس طرح دست کش ہورہے ہیں اس پر خون کے آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے انگریز کی صد سالہ غلامی کی وجہ سے ہم نے اس بات کو بھلا دیا ہے کہ ایک وہ بھی دور تھا جب ہم مغرب کے خوشہ چیں نہیں تھے بلکہ مغرب ہی ہماری تہذیب ،ثقافت ،علوم و فنون کا دریوزہ گر تھا اور یہ دعویٰ بے دلیل نہیں ہے مستشرقین نے تہذیب مغرب پر خطاطی کے اثرات یہاں تک مانے ہیں کہ ویسٹ منسٹر اینےکی کھڑکیاں اس فن سے بہرہ یاب ہیں ۔آج ہم نے جس فن پر اپنے تمام دروازے بند کر دیئے وہ اب گرجوں کے دریچوں سے ہمیں جھانک رہا ہے ۔یہی نہیں بلکہ ایس پال اسکا لے نے ”ھسٹری آمورش ان یورپ میں فرانسیسی مصنف کے حوالے سے لکھا ہے کہ سینٹ پیٹر کے سب سے اہم گرجے کے بلند دروازے پر عرصے تک جو نقش و نگار باعث زینت رہے ہیں وہ خطاطی کے نمونے تھے اور عبارت کلمہ توحید کی تھی ۔بہر حال اتنی بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس فن کو اپنے ارتقاءکے مراحل طے کرنے میں پانچ ہزار سال سے کم مدت صرف نہیں ہوئی ۔عرب میں خلفائے عباسی نے اور ہندوستان میں سلاطین مغلیہ نے اس فن کو ترقی دی انہوں نے اپنے عہد کے خطاطوں کی بڑی حوصلہ افزائی کی اور اس فن کو فروغ دیا ۔آج ہمارے مسلم حکمرانوں کی س فن پر کوئی توجہ ہے ؟فن خطاطی کی ابتدائی شکل و صورت کے شواہد جواب تک فراہم ہو سکے ہیں ان کے مطابق اس فن کی پیشانی پر پانچ ہزار سالہ تاریخ کی عبارتوں میں یہ شواہد منقوش ہیں ۔ابتدائی خطاطی اور مصور ی ایک ہی فن تھے یار لوگ تصاویر کے ذریعے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتے تھے جیسے پیار و امن کا اظہا ر کبوتر کی تصویر سے ہوتا ہے اور دشمن کا سانپ کی تصویر سے آج بھی یہ دونوں نشان پیار و محبت و دشمنی کے سمجھے جاتے ہیں ۔مفہوم کی یہ تصویر کشی جسے مصر میں ”ہیرو غلےفی “ کہتے ہیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل تک رائج تھی ،رفتہ رفتہ یہ تصویر یں بگڑنے لگیں لیکن ایک نیا طرز تحریر بننے لگا جسے ”ھیر وطیقی “ کہا جاتا ہے ۔مصریوں نے بائیس حروف کو بائیس پرزوں کی شکل دے رکھی تھی ۔عربوں نے انہیں بڑھا کر اٹھا ئیس کر دیا اور پھر ان حروف کو چھ کلموں میں تقسیم کرکے ابجدمرتب کئے جو آج تک عربی میں اسی طرح موجود ہیں۔حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت خط حمیری تحریر کیا جاتاتھا دوسو سال کی ارتقاءکے بعد یہ خط کوفی بن گیا عہد عباسی میں ابن مقلہ بیضاوی نے خط کوفی نسخ ۔محقق ۔ریحان ۔ثلث ۔توقیع و ضع کئے او ر پھر فارس میں نسخ و تعلیق کے امتزاج سے نستعلیق بنا ۔خط کی یہی وہ معراجی صورت ہے جو آج مختلف ممالک کے کروڑوں لوگوں میں نسخ کے بعد مقبول ہے۔وطن عزیز پاکستان میں اس فن کے ہزاروں حاملین نے نہ صرف انہیں خطوط کی تقلید میں اپنے ذوق جمال کو تقویت دی بلکہ ایک نئے طرز تحریر کی ایجادکا سہرہ بھی مملکت کے تاریخی شہر ملتان کے سر ہے ۔خطاطی کے خانوادے کے ایک نامور سپوت نے خط رعنا ایجاد کیا جسے دنیائے فن کے تمام غیر متعصب اہل الرائے نے خط نسعلیق کی ایجاد کے سات سو سال بعد ایک نئی ایجاد تسلیم کیا ہے۔ الحمد اللہ راقم کو یہ اعزاز میسر آیا۔
            چمکتے ہوئے ستارے کو ہر کوئی تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ اس کی چمک ،آب وتاب اور انفرادی خصوصیات ہی لوگوں کی اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔ایسے تخلیق و تقلیدکاروں کے قافلے کا ایک چمکتا ہو ا ستارہ ۔محمد جمال محسن حسن کا تعلق ملتان سے ہے۔
            سر زمین ملتان ہنر مندوں ،فن کاروں اور اہل کمال کی ایک ایسی آغوش ہے جس کی عظمت کو تاریخ کی حقیقت بِیں نگاہیں کبھی فراموش نہیں کر سکتیں ۔اس خطہ ارض نے جن دماغوں اور جن عظیم ذہنوں کو جنم دیا ہے ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کو انسانیت کے لیے ہمیشہ فخر و ناز کا باعث سمجھا جائے گا ۔یہ سارا فخر اور یہ تمام تحسین اب صرف ان کے لیے سرمایہ افتخار ہے جو حقیقت شناس ہیں یا پھر ملتان اور فنون شریفہ سے عقیدت رکھنے والے ہیں ۔محمد جمال محسن ملتان کی شناخت ہیں جو کہ نامور خطاط ہفت قلم اور موجد خط رعنا ابن کلیم کے بڑے اور ہو نہار صاحبزادے ہیں ۔ابن کلیم صاحب نے یہ فن اپنے والد گرامی مخدوم محمد حسن خان کلیم سے سیکھا۔ اور حضرت کلیم رقم نے اپنے ماموں خانوادہ چشتیہ کے معروف بزرگ حضرت حافظ بشیر احمد العراقی قریشی سے یہ فن حاصل کیا ۔کئی پشتوں سے یہ فن حضرت کلیم رقم کے خاندان کا اثاثہ ہے محمد جمال محسن نے یہ فن اپنے والد ابن کلیم (موجد خط رعنا ) سے سیکھا ان کے بھائی محمد مختار علی سعودی عرب جدہ میں ادارہ العناقید میں خطاطی کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ایک اور بھائی حامد اقبال خان نے ملتان کینٹ میں آرٹ بینک کے نام سے فن خطاطی کی تربیت و فروغ کا ادارہ قائم کیا ہوا ہے ۔اور قومی سطح پر نمائشوں میں شرکت کرکے ایوارڈ حاصل کئے ہیں ۔خطاطی میں محمد جمال محسن کا اسلوب منفرد مقام کا حامل ہے انہوں نے خط کو فی کو اپنا پسندیدہ شعبہ قرار دیکر اسما الحسنیٰ رب کریم کو خط کوفی کی مختلف کمپوز یشنز میں ڈیزائن کیا ہے ۔ان کا تیار کردہ ہر فن پارہ روایتی کوفی خط کا شاہکار بھی ہے۔ اور گرافک آرٹ کا استعارہ بھی اورہر فن پار ے کی ایک الگ تصویری اہمیت ہے ۔محمد جمال محسن کے تحریر کردہ یہ اسما ءالحسنیٰ جب ہماری نظر سے گزرتے ہیں تو ہمارے قلوب پر نازل ہو جاتے ہیں ۔روح کومطلع انوار بنا دیتے ہیں ہم سے باتیں کرتے ہیں ،اپنی پوری معنویتکو ہمارے وجود میں انڈیل دیتے ہیں تو ہم ان اسما ءگرامی سے آشنا ہو کر اپنے اللہ کے اور قریب آجاتے ہیں۔ اور اللہ کریم کی رحیمی، ربوبیت ،جلال، جمال،عدل،رزاقی ،راَفت، بندہ نوازی اور مخلوق پروری کی صفات ہمارے دل پر براہ راست منکشف ہونے لگتی ہیں۔
            شوق و مشاہد ہ اور عملِ پیہم کی خوبیوں سے مرصع اس نوجوان نے قرآنی خطاطی کو اپنے ذوق ِ جمال کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے کیونکہ یہ فن تکمیلِ شوق کے ساتھ ساتھ عبادت کا درجہ رکھتا ہے اس لئے محمد جمال محسن نے عملی زندگی میں بھی یہی شعبہ اختیار کیا ہے جس سے ان کے فن اور ذوق کو ترقی و تسکین میسر آتی رہے ۔انہوں نے کراچی میں ”آرٹ پوائنٹ“ کے نام سے ادارہ قائم کیا ہو ا ہے جس میں وہ کئی برس سے اس فن کے ربوز سے آگاہی بخشتے ہیں وہ کراچی اور گردونواح میں رہنے والے شائقین فن کے ذوق لطیف کو نہ صرف جلاِ بخشتے ہیں بلکہ اس فن شریف کے فروغ اور ترقی کے لئے عملی طور پر متحرک بھی ہیں ۔دبستان فروغ خطاطی (رجسٹرڈ ) کے نائب صدر اول اور سوسائٹی آف کیلی گرافی انسٹر کٹر کے صدر ہیں اور گل رعنا ادب سوسائٹی کے آرگنائزر بھی ہیں۔دیگر فنون کے قدردان تو دنیا والے لوگ ہیں مگر اس فن شریف کا قدر دان خود پاک پروردگار ہے جس نے خطاطی کے خوبصورت فن پارے بنانے والے کےلئے اجر اپنے پاس محفوظ رکھا ہے حقیقت بھی یہی ہے کہ کوئی دنیادار اس پاکیز ہ فن کی قدر دانی کا حق اد ا بھی نہیں کر سکتا ۔
            محمد جمال محسن کے تخلیق کردہ اسماءالحسنیٰ ربّ کریم کا نظارہ کرکے مجھے دو گونہ خوشی ہوئی ہے کہ انہوں نے خط کی روایت کو بگاڑ انہیں ،یعنی خط کو فی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اسے مختلف اسلوب سے استعمال کرکے ہر فن پارے کو منفرد ڈیزائن ویلیو عطا کی ہے ۔اسی بناءپر ان کا تخلیق کردہ ہرفن پارہ اپنی انفرادی شان کا حامل ہے ۔
            محمد جمال محسن کے فن پاروں کی قبل ازیں کئی نمائشیں ہوچکی ہیں ۔جن میں انہوں نے خوب داد پائی ہے ایوارڈ بھی حاصل کئے ہیں ۔ملتان آرٹس کونسل ،میونسپل لائبریری ملتان ، قرآن کانفرنس ملتان ،دفتر دبستان فروغ خطاطی ملتان ،خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران ملتان،نیشنل آرٹ گیلری اسلام آباد وغیرہ ..... کی نمائشوں میں حصہ لیا اور خوب داد پائی ۔کراچی آرٹس کونسل میں محمد جمال محسن کی یہ عظیم نمائش ان کے فن کا اور تخلیقی سرگرمیوں کا تسلسل اور ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اور دبستان فروغ خطاطی (رجسٹرڈ) کا فیضان ہے ۔
            میری دعا ہے اللہ تعالیٰ اپنے مبارک ناموں سے اتنا پیار کرنے والے اور اتنا حسین لکھنے والے کو دنیا و آخرت میں اجر عطا فرمائے اور دین و دنیا میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار رکھے ۔(آمین)                                   دعاگو! ابن کلیم احسن نظامی
خط کوفی معقلی کا ایک خوبصورت انداز ! مربع شکل میں پوری سورُة فاتحہ ڈرائنگ کی گئی ہے ۔
یہ اسٹائل قدیم اسلامی عمارات پر نقاشی یا کاشی کاری سے زندہ جاوید کیا جاتاہے ، 
جسکی چوکور پیلٹیں تیار کی جاتی ہیں ،یہ محمد جمال محسن خان کے ذہن رسا کی تخلیق جمال ہے۔


No comments:

Post a Comment