وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سی، انہیں’’توہین ِ عدالت‘‘کا مرتکب قرار دینے پر،دائر اپیل کی سماعت کے دوران معزز عدلیہ کی’’چین آف کمانڈ‘‘ کے تحت لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹسی چھوڑ کر سپریم کورٹ کی ججی کا اعزاز پانے والے جسٹس ثاقب نثار نے بیرسٹر اعتزاز احسن کے ایک سوال کے جواب میں کیا خوب فرمایا کہ ’’این آر او کیس فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ہی، جہاں جاؤ گے یہی دکھائی دے گا‘‘ جبکہ عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ ریمارکس بھی بلا شبہ یادگار ہیں کہ ’’وزیر اعظم (صرف)سوئیس حکومت کوخط لکھ دیں، ہم انہیں پؤتر(پاک صاف) قرار دے دیں گی(یعنی جو چاہے ہمارا حُسنِ کرشمہ ساز کری)!
اب بھلا انصاف کے بلندوبالا ایوان میںمسند نشینوں سے یہ سوال کرنے کی ہمت ہے کسی میںکہ جناب این آر او کیس میں پرانے یا نئے کسی بھی مدعی نے اس آردیننس کے تحت بند قرار دئے گئے کیسز کو از سر نو کھولنے کی ’’ریلیف‘‘ تو مانگی نہیں تھی (بلکہ شاید ہمارے فخرو بھائی اس امر کی گواہی دیں گے کہ حکومت اور پارلیمان نے اس یقین دہانی پراین آر او کا تحفظ کرنے سے پہلوتہی برتی کہ آزادعدلیہ عدالتی روایات کے مطابق صرف پیٹیشن میں اٹھائے گئے سوال یعنی اس کے قانونی جواز پر فیصلہ صادر فرمائے گی اور اس کے حتمی شکل اختیار کرجانے والے اثرات کو زیر بحث نہیں لائے گی، بالکل اُسی طرح جس طرح اِسی عدلیہ نے جنرل مشرف کینومبر007کی ’’ایمرجنسی پلس‘‘ کو تو غیر قانونی قرار دے دیا لیکن اس کے تحت اُٹھائے گئے اُن انتخابات سمیت تمام اقدامات کی قانونی حیثیت کو نہ چھیڑا، جن کے تحت معرض وجود میں آنے والی حکومت کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت معزز جج صاحبان ایک بار پھر اپنے ایوانوں میں رونق افروز ہو پائی؟؟
ایسے احمقانہ سوالات ان انصاف پروروں کے سامنے اٹھانے کی جرأت بھلا کون دکھا سکتا ہی، جو خود ایک مفاہمت یعنی ’’این آر او‘‘کے تحت ہی بحال ہو پائے ( بقول شاہجہان ایڈووکیٹ وہ 2008سے اعلیٰ عدالتوں میں دُہائی دے رہے ہیں کہ آئین ِپاکستان میں ججوں کی ’’بحالی‘‘ کی کوئی شق موجود نہیں ،جس میںاب وہ اضافہ بھی کر رہے ہیں کہ ہمارے معزز جج صاحبان صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر پربحال ہوئے جس کی توثیق کر کے پارلیمنٹ نے اس آرڈر کو آئینی تحفظ دینے کو ضرورت محسوس نہیں کی) ۔یہاںیہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پی سی او ۔کے ثمرات سے اعلیٰ ترین منصفی تک پہنچنے والے معزز چیف جسٹس نے اپنی طاقتور کرسی سنبھالنے کیلئے جسٹس حمیدڈوگر کی ریٹائرمنٹ کا انتظار فرما کر انہیں گویاقانونی چیف جسٹس اور برادر ججوں نے ڈوگر ججوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں قانونی جج توتسلیم کر لیالیکن بحالی کے فوراََ بعداپنے پیش رو سمیت پی سی او۔ 2 کی00 سے زائد جج حضرات کواین آر او کی طرح ہی Void Abinitio (گویا کبھی تھے ہی نہیں) قرار دے کر انصاف کا حق ضرور ادا کردیاالبتہ جدیدنظریہء ضرورت کے تحت ان پی سی او ججوں کے تمام فیصلوں کو قانونی جواز عطا کر دیا گیا (یاد رہے کہ نظام کے تسلسل کا صرف این آر او کیس میں لحاظ نہیں رکھا گیااور اس تناظر میں جسٹس ثاقب نثار کا فرمان بالکل بجا ٹھہرا)۔
بابر اعوان کو اِس جرم کی کافی و شافی سزا ملنے کے بعد کہ انہوں نے بڑے صاحب سے یہ پوچھنے کی ہمت کر ڈالی کہ عدالت نواز شریف اور آئی ایس آئی کے خلاف مہران بینک کا سترہ سالہ پرانا کیس کھولنے میں دلچسپی کیوں نہیں لیتی اور نہ اس کے مدعی ائیر مارشل اصغر خان کی پُکار اِسے سنائی دے رہی ہے کہ میں مر جاؤں گا تویہ کیس پھر کھلے گا؟ (یہاں ہمارے منصف اعلیٰ کا جواب واقعی لاجواب تھا کہ چیف جسٹس میں ہوں یا تم؟ گویا پھر جو چاہے میرا حُسنِ کرشمہ ساز کری!)۔اب اعتزازاحسن بھلا چیف صاحب سے یہ پوچھنے کی ہمت کیونکر دکھاتے کہ جناب آپ کی عدالت سے بری ہوجانے والے ’مجرموں ‘کی ایجنسیوں کے ہاتھوں ہلاکت سے بڑی ’’توہین عدالت ‘‘کچھ اور ہو سکتی ہی؟
ہم جب دیکھتے ہیں کہ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت’’بحال‘‘ ہونے والے قانون و انصاف کے ہمارے بلند آہنگ علم برداراِسی ایگزیکٹو آرڈر کو Void Abinitioقرار دینے کے بعد اپنی تقرری اور ترقی کے ’’از خود اختیارات‘‘ سے خود کو لیس کرلیتے ہیں اوریہ بھی کہ ہائی کورٹس کے جج صاحبان آئینی طور پر ان کے ماتحت نہ ہونے کے باوجود بھی ’’سوئیو موٹو‘‘ کے تحت خود کو مسلح افواج کی ’’چین آف کمانڈ‘‘ کی طرز پر سپریم عدالت کے دائرہ اختیار میں لے آتے ہیںتوصدقِ دل سے صدا بلند ہوتی ہے کہ واقعی ’’آزادوخود مختار‘‘ عدلیہ ایسی ہی ہوتی ہی۔
اور پھر یہ تماشا بھی ہم نے یہیںدیکھا دوستو ! کہ مردِ حریت خواجہ رفیق کے فرزندِ جری ن لیگ کے ایم این اے خواجہ سعد رفیق نے جب اس عدالت میں زیر سماعت اپنے خلاف اثاثہ جات کیس کے دوران عدالت کو بآواز بلند تلقین کہ عدلیہ ’’ایڈ ونچرازم‘‘کی بجائے ’’انصاف‘‘ سے کا م لے تو اپنی ممدوح جماعت کے اس سیاست دان کے خلاف ’’توہینِ عدالت‘‘ کی فردِ جرم عائد کرنے کی بجائے اُس کے اس ’منطقی‘ مؤقف کو تسلیم کر کے گویا عدل و انصاف کی اُس رُوح کی بھر پورلاج رکھی گئی جس کا این آر او اور میمو کیسز میں آج ہر طرف چرچا ہی، کہ لاکھوں کروڑوں کے یہ اثاثے اُس نے ایک پرائز بانڈمیں بھاری مالیت کا انعام نکلنے پر بنائی(جس کا علم دنیا کو اس کیس کے دوران ہی ہوپایا)۔ پتہ نہیںقانون و انصاف کے ایسے عظیم الشان مظاہروں کے با وجوداس اِسی ن لیگ کے (دانشور) ایم این اے جناب ایاز امیر ان غیر جانب دار منصفوں کوسمجھانا کیوں ضروری سمجھتے ہیں کہ عدلیہ اپنا مذاق خودتو نہ اُڑاتی پھری؟؟
قارئین گرامی!وطنِ عزیز میںقائم اِس انصاف پرورماحول میں جب ہم اپنے قابل صد احترام منصفِ اعلیٰ کو آنجہانی چیف جسٹس آف یونائیٹڈاسٹیٹس جسٹس جان مارشل کی اتباع میںیہ کہتے سنتے ہیں کہ’’ہم آئین کے پابنداور محافظ ہیں اورہاں آئین وہ ہے جو ہم کہتے ہیں‘‘ توجہاں ہمارا سر فخر و انبساط سے اور اونچا ہو جاتا ہے کہ اب ہم امریکہ کے غلام اور ایک گئی گذری قوم نہیں بلکہ اُس کے ہم پلہ اور ایک ’’مکمل آزاد‘‘ قوم ہیں۔ وہیں نہ جانے کیوں چیف صاحب کی جناب میں دست بستہ عرض گذار ہونے کوبھی جی چاہتا ہے کہ حضورجسٹس ثاقب نثار کی تصحیح فرمائیے کہ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر این آر او کیس نہیں خود ہم یعنی’’ہر طرف سے آزاد ‘‘عدلیہ ہی۔
لیکن دوستو! جب ہم اس آزاد و خود مختار عدلیہ کی جانب سے ظاہر و پوشیدہ بے پناہ اختیارات کی مالک محافظ ایجنسیوں کو خوداسی عدلیہ کی طرف سے بری قرار دئے گئے معصوم پاکستانیوں کو حبس بے جا میں رکھنے اورپھر ان کی ہلاکتوںکا ذمہ دار قرار دینے کے باوجود، منتخب چیف ایگزیکٹو کی طرح، اُن کے سربراہوں پر ’’توہین عدلات‘‘ کی فردِ جرم عائد کرنے یا انہیں عدالت میں وضاحت کیلئے ہی سہی، طلب کرنے کی بجائے ان کے وکیل سے یہ معصوم سوال پوچھتے دیکھتے ہیں کہ وہ بتائے کہ اس بربریت کا ذمہ دار کون ہی؟تو ہمارے خناس ذہن میں نجانے کیوں یہ احمقانہ سوال کلبلانے لگتا ہے کہ سول اداروں اور سیاست دانوں کے سر پر ہمہ وقت خوفناک ٹک ٹک اور ہر گھنٹہ بعد ہولناک منادی کی صورت برسنے والے اس عظیم الجثہ ’’گھڑیال‘‘ کی ’’کنجی‘‘آخر ہمارے کس طاقتور ترین’’محافظ‘‘ کے ہاتھ میںہی؟ ؟
Friday, 24 February 2012
گھنٹہ گھر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment